Deobandi Books

افادات محمود - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

30 - 60
و نفرت بھی ضروری لگی ہوئی ہیں اور پھر وہ مقتضیات باہم از حد مختلف ہیں۔
دیکھئے ایک طبیعت شرک و بت پرستی اور خمر و خنزیر کی طرف اس قدر راغب ہے کہ ان اشیا سے کسی حالت میں رُک ہی نہیں سکتی اور ان کے بدون اس کو چین ہی نہیں آسکتا۔
اور دوسری طبیعت اشیائے مذکورہ سے اس قدر متنفر ہے کہ ان کے نام سے وحشت ہوتی ہے اور کسی طرح ان چیزوں کو گوارا نہیں کرسکتی۔
علی ہذا القیاس جہاں تک نظر جاتی ہے مرغوباتِ طبایع میں اس قدر تخالف اور تباین نظر آتا ہے کہ خدا کی پناہ جس کے رو برو آسمان و زمین کا فرق بھی کچھ حقیقت نہیں رکھتا:
وَیَخْتَلِفُ الرِّزقانِ وَالشَّيْئُ وَاحِدٌ
إِلٰی أَنْ یَّرٰی إِحْسَانُ ھٰذَا لِذَا ذَنْبا
تو اس حالت میں ہم کیوںکر یقین کرسکتے ہیں کہ فلاں طبیعت کی رغبت معتبر اور فلاں طبیعت کی غیر معتبر ہے اور ہمارے پاس کون سا معیار ہے کہ جس کے ذریعہ سے ہم صفتِ امانت کی نسبت جو کہ بھلی بری کی شناخت کے لیے ہر ایک انسان کے اندر موجود ہے صحت و فساد کا حکم لگا سکیں۔
سو امرِ اوّل کا جواب بقدرِ کفایت تو یہی ہے کہ امانت جیسے ایک کیفیتِ قلبی کا نام ہے ایسے ہی علم بھی تو ایک کیفیتِ قلبی ہی کا نام ہے۔
سب کو معلوم ہے کہ آنکھ، ناک، کان وغیرہ اعضائے جسمانی کو تو علم ہوتا ہی نہیں، علم تو صرف دل کے ساتھ مخصوص ہے۔ کسی نے سچ کہا ہے:
از خواندن علم ہرگز عالم نشوی
شیریں نشود دہاں زنامِ شکر
تو پھر بذریعۂ تعلیم و تعلم جو اعضائے جسمانی زبان، آنکھ کان کا کام ہے، علم کو جو کہ امرِ قلبی ہے کیوںکر ہم حاصل کرلیتے ہیں۔ بس اسی طرح اعضائے جسمانی مذکورۂ بالا کے وسیلہ سے صفتِ امانت کو بھی ہم ضرور حاصل کرسکیں گے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ کان سے کسی مضمون کا سننا یا آنکھ سے کسی کتاب کو دیکھنا یا زبان سے پڑھنا ہرگز علم میں شمار نہیں ہوسکتا، لیکن اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ جو تعلقِ خاص حکیم علی الاطلاق نے انسان کے حواسِ ظاہرہ اور اس کے قلب میں رکھ دیا ہے اُس تعلقِ لطیف کی وجہ سے بذریعۂ حواس انسان کو بالبداہت علم حاصل ہوجاتاہے۔

x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 وحی اور اُس کی عظمت 2 1
3 لَا إِیْمَانَ لِمَنْ لَا أَمَانَۃَ لَہٗ 19 1
Flag Counter