Deobandi Books

افادات محمود - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

27 - 60
استعدادِ اصلی انسان کی حدِ قدرت و اختیار سے بالکل اوپر اور باہر ہے اور اُس میں کمی و بیشی کی بھی گنجایش نہیں۔
لیکن استعدادِ کسبی میں انسان کے کسب و اختیار کو پورا دخل ہے اور ہمارے کسب و اختیار ہی پر اس کی ترقی و تنزل موقوف ہے، دور جانے کی ضرورت نہیں۔ حواس ظاہرہ ہی کو دیکھ لیجیے کہ بصارت و سماعت وغیرہ کی استعدادِ اصلی اور قوت جوہم میں اوّل سے موجود ہے، کسی میں قوی اور کسی میں ضعیف اس میں تو ہمارے اختیار کو کچھ بھی دخل نہیں، بلکہ اندھا مادر زاد جیسا اپنے اختیار سے اندھا نہیں ہوگیا، بعینہٖ ایسے ہی آنکھوں والا اپنے اختیار سے بصیر نہیں ہوا۔
البتہ ان قویٰ سے جو الوان و اشکالِ مختلفہ اور اصواتِ متبائنہ اور ملموساتِ متفاوتہ اور مشمومات متمیزہ کو ادراک کرتی ہیں اُس میں ہمارے قصد و اختیار کو بے شک دخل ہے۔
اور مدرکاتِ مذکورہ کی مشق و مہارت کے بعد ہم اتنی ترقی کرلیتے ہیں کہ اُن مدرکات کے ایسے باریک و دقیق فرقوں کو محسوس کرنے لگتے ہیں کہ دوسرا آدمی جس نے یہ مشق و ترقی نہ کی ہو اُس فرق کے دریافت کرنے سے ایسا عاجز ہوتا ہے کہ بسا اوقات بتلانے کے بعد بھی دریافت نہیں کرسکتا، گو اصلی استعداد میں وہ ہم سے بڑھا ہوا ہی کیوں نہ ہو۔
دیکھئے اگر کسی شخص کی قوتِ شامہ اصل سے بہت قوی ہو مگر اس کو عطریات کے تجربے اور استعمال کی نوبت نہ آئی ہو تو وہ شخص عطریات کے باریک فرق تو در کنارے موٹے موٹے فرق کے احساس سے بھی بے خبر ہوتا ہے اور دوسرا شخص کہ جس کی قوتِ شامہ پہلے کی برابر یا اس سے کچھ کم ہی کیوں نہ ہو مگر عطریات کا تجربہ اور مہارتِ تامہ رکھتا ہو تو وہ بے تکلف ایسے ایسے باریک فرق بتلا دیتا ہے کہ ناواقفوں کو سن کر بھی تعجب ہوتا ہے۔
تو اب یہ بات ظاہر ہوگئی کہ علم و امانت کی استعدادِ اصلی جو حکیم علی الاطلاق نے ہر ایک انسان میں رکھ دی ہے کسی میں قوی اور کسی میں ضعیف اس سے تو کوئی شخص خالی اور بے بہرہ نہیں ہوسکتا اور وہ استعداد ہر ایک میں بالفعل موجود ہے، آدمی کے کسب و قصد کو اس میں اصلاً دخل نہیں۔ آیتِ کریمہ {اِنَّا عَرَضْنَا الْاَمَانَۃَ}1 (1 الأحزاب: ۷۲) إلآیۃ اور حدیث شریف: کُلُّ مَوْلُوْدٍ یُوْلَدُ عَلَی الْفِطْرَۃِ الحدیث جن کا ذکر آچکا ہے ان میں امانت و فطرت سے سب جانتے ہیںکہ ان کی استعدادِ اصلی ہی تو مراد ہے، بلکہ اس بارے میں ہمارے مدعائے سابق کے لیے دلیل قطعی ہیں۔
ایسے ہی بعض آیات و احادیث میں استعدادِ کسبی مراد ہے جس کو جاننے والے بالبداہت جانتے ہیں۔ بالجملہ علم و امانت کی استعدادِ کسبی کو سمجھ لینے کے بعد اب ان شاء اللہ ہر ایک صاحبِ فہم بے تکلف سمجھ سکتا ہے کہ جیسا آیت: {وَعَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَائَ کُلَّھَا}1 (1 البقرۃ: ۳۱) الآیۃ میں علم کی استعدادِ اصلی کی طرف اور آیت: {قُلْ ہَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَالَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَط}1 (1 الزمر: ۹) میں علم کی استعدادِ کسبی کی طرف اشارہ ہے، بعینہٖ اسی طرح پر آیت: {اِنَّا عَرَضْنَا الْاَمَانَۃَ عَلَی 

x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 وحی اور اُس کی عظمت 2 1
3 لَا إِیْمَانَ لِمَنْ لَا أَمَانَۃَ لَہٗ 19 1
Flag Counter