Deobandi Books

افادات محمود - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

26 - 60
اور جو چیزیں نشو و نما کو مضر ہوں اُن سب کے اثر سے دانۂ مذکور کو بچایا جائے، مثلاً پانی کی کثرت یا برف باری کی شدت۔
دیکھئے اگر زمین شور میں دانہ بودیں یا کھیت کو بو کر حوض کی طرح اس کو پانی سے بھر دیں یا ہزاروں من مٹی دانہ پر ڈال دیں یا تیز آگ پھیلا دیں تو پھر تو زراعت کیسی خود تخم ہی گَل سڑ کر پیوند زمین ہوجائے گا یا جل بُھن کر رہ جائے گا۔
اب اسی طرح پر خیال فرما لیجیے کہ حسبِ بیانِ سابق یہ تو ضروری ہے کہ حق تعالیٰ شانہ نے ہر ایک آدمی کے اندر جو ہر ِعلم اور جوہر ِامانت دونوں جوہر پیدا فرما دیے ہیں، مگر صرف اتنی ہی بات سے ہم عالم بن جائیں اور صاحبِ امانت کہلائیں، ایسا خیال کرنا خود اس بات پر دال ہے کہ ابھی عالم ہونے میں بہت دیر ہے۔
بلکہ جیسا دانہ کی نشو و نما اور پھولنے پھلنے کے لیے اس کی مؤیدات کا پہنچانا اور ۔ّمضرات سے اس کو بچانا ضروری ہے ایسے ہی ملکۂ علم و امانت کے مثمر و منتج و مفید و کار آمد ہونے میں اس کی ضرورت ہے کہ علم و امانت کے مؤیدات اور متممات و مکملات کے حصول میں کوشش کی جائے اور جملہ مضرات و مفسدات سے احتراز و اجتناب رکھا جائے۔
ورنہ مثل دانۂ مذکورہ قوتِ علم اور قوتِ امانت سے فائدہ تو در کنار خود علم و امانت ہی خراب و فاسد ہو کر نقصان دہ اور مضرت بخش ہوجائیں گے۔
جب یہ بات ضروری ٹھہری کہ کوئی فردِ انسانی صفتِ علم و صفتِ امانت سے خالی نہیں ہوسکتی اگر خالی ہوسکی تو ضرور ہے کہ مثل دیگر مخلوقات غیر مکلف ہوگی حالاںکہ تمام افراد انسانی کا مکلف اور مخاطب احکامِ الٰہی ہونا ضروری امر ہے۔
اور اسی کے ساتھ یہ امر بھی قرار پا چکا کہ جو صفتِ علم اور استعدادِ امانت کہ خالقِ کائنات نے آدمی میں ایسی طرح رکھ دی ہے جیسے قوتِ بصارت و سماعت و رفتار و گفتار وغیرہ اُسی صفتِ علم و امانت کا بذریعۂ مؤیدات و اسبابِ ظاہری بڑھانا اور اُن کے مضرات و مفسدات سے پرہیز کرنا ہر انسان کے ذمہ لازم اور ضروری ہے ورنہ بدون اس تائید و تقویت کے ان کمالات کے وسیلہ سے ہم نفع نہیں اُٹھا سکتے۔
اور جو ایسا نہ کرے گا وہ اپنے مقصودِ اصلی یعنی اطاعتِ خدا وندی اور اپنے کارِ منصبی یعنی انجام دہیٔ خدمتِ خلافت سے محروم کر {اُوْلٰٓئِکَ کَالْاَنْعَامِ بَلْ ھُمْ اَضَلَّط اُوْلٰٓئِکَ ھُمُ الْغٰفِلُوْنَO}1 (1 الأعراف: ۱۷۹) کا پورا منظر اور ارشاد: {لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْٓ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍO ثُمَّ رَدَدْنٰہُ اَسْفَلَ سٰفِلِیْنَO}1 (1 التین:۴، ۵) کا ایک کامل مظہر بن جائے گا۔ (رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بعد إذ ھَدَیْتَنَا۔)
الحاصل اس مضمون کو خوب دل نشین کرلینا چاہیے کہ حق جل و علیٰ شانہ نے اپنی قدرت اور حکمت اور رحمت سے بے شک انسان کو عجیب عجیب ملکات اور کمالات کا مخزن و مظہر بنایا مگر اُن کمالات کے لیے استعدادِ اصلی اور استعداد کسبی دو درجے مقرر فرما دیے۔

x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 وحی اور اُس کی عظمت 2 1
3 لَا إِیْمَانَ لِمَنْ لَا أَمَانَۃَ لَہٗ 19 1
Flag Counter