Deobandi Books

افادات محمود - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

23 - 60
جب خالق، علیم، حاکم علی الاطلاق نے حضرت آدم کو اپنا خلیفہ اور نائب مقرر فرما کر عالم دنیا کی اصلاح اور درستی کے لیے اور اُس میں احکام و قوانینِ احکم الحاکمین اور سلسلۂ ہدایت جاری کرنے اور پھیلانے کے لیے اس عالم میں بھیجا، تو یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ اُس خلیفۂ خاص کے حق میں ہر دو امر مذکورۂ بالا کی رعایت نہ کی گئی ہو۔
سلطانِ وقت بوجۂ اقتدارِ کلی گو اپنے ماتحتوں اور غلاموں میں سے ادنیٰ سے ادنیٰ کو بھی منصبِ نیابت دے سکتا ہے، مگر اپنی عقل اور بیدار مغزی کی وجہ سے ہرگز کسی نالائق اور ناقابل کو یہ اعلیٰ منصب عطا نہ کرے گا۔ 
اسی طرح پر خالق، قدیر اپنی قدرت سے جس کو چاہے منصبِ خلافت عطا کرسکتا ہے، کون دم مار سکتا ہے، مگر چوںکہ جیسی اُس کی قدرتِ غیر متناہی ہے ایسی ہی اُس کی حکمت بھی بے حد وبے پایاں ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ جس کو اُس نے تمام عالم پر اپنا خلیفہ اور نائب بنا کر ایک امر ِعظیم کی انجام دہی کے لیے مقرر فرمایا اُس میں اوّل تو امتیاز و افضلیت اور ہر طرح کی لیاقت کی رعایتِ کلی کی گئی ہے۔
دوسری کارِ خلافت میں جن کمالوں اور شانوں کی حاجت تھی وہ بہ تمامہا اس خلیفۂ خاص کو ضرور خدا کے غیر متناہی خزانہ سے حسبِ حاجت عطا فرمائی گئی ہیں جس کی تفصیل کی اس موقع پر حاجت نہیں معلوم ہوتی صرف ارشاد: خلق اللّٰہ آدم علی صورتہ، اللہ اکبر ایک اتنی بڑی بات ہے جو اہلِ علم کے سمجھنے کے لیے قدر ِکفایت سے بھی بدرجہا زائد ہے۔
جب یہ بات خوب دل نشین ہوچکی تو اب سنیے کہ جس قدر کمالات خلیفۂ موصوف کو عنایت فرمائے گئے ان سب میں اوّل و افضل و ضروری کمال علمی ہے اور سب کمالات اس کے بعد ہیں۔ حق سبحانہ تعالیٰ کی جملہ صفاتِ کمالیہ جن کو مخلوقات سے کوئی تعلق ہے، جیسے قدرت، ارادہ، کلام وغیرہ ان میں بھی سب سے اقدم اور افضل صفتِ علم ہی شمار ہوتی ہے۔ ادھر دیکھئے کہ جب ملائکہ  علیھم السلام  کو حضرت آدم کی خلافت میں خلجان پیش آیا جس کا ذکر قرآن شریف میں موجود ہے تو حضرت آدم اور ملائکہ  علیھم السلام  کا امتحان علم ہی میں تو لیا گیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ حضرت آدم ﷺ حضراتِ ملائکہ  علیھم السلام  پر کمالِ علمی میں ایسے فائق رہے کہ ملائکہ بھی اُن کی افضلیت اور مستحقِ خلافت ہونے کے معترف ہوگئے۔ آیت {وَعَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَآئَ کُلَّہَا}1 (1 البقرۃ: ۳۱) سے لے کر تین چار آیتیں پڑھ جایئے یہ مضمون بہ وضاحتِ مذکور ہے جس سے صاف معلوم ہوگیا کہ علم افضل الصفات ہے اور مدارِ خلافتِ الٰہی اس پر ہے اور حضرت آدم اس کمال میں سب سے فائق اور ممتاز ہیں۔ علاوہ ازیں عالم سے جاہل تک سب کو معلوم ہے کہ ادنیٰ سے لے کر اعلیٰ تک ہمارا کوئی فعلِ اختیاری بدون علم ہم سے صادر نہیں ہوتا ہر فعلِ اختیاری کرنے کے لیے ضرور ہے کہ پہلے اُس کا علم حاصل ہو تو پھر فعلِ مذکور کی نوبت آوے تو اب انصاف فرمایئے کہ خلافتِ خداوندی جیسی عظیم الشان خدمت بدون کمالِ علمی کیوںکر انجام پذیر 

x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 وحی اور اُس کی عظمت 2 1
3 لَا إِیْمَانَ لِمَنْ لَا أَمَانَۃَ لَہٗ 19 1
Flag Counter