Deobandi Books

افادات محمود - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

21 - 60
موقوف علیہ ہے۔ تو اب یہ بات بالکل ظاہر ہوگئی کہ امانت ایمان کے لیے موقوف علیہ اور ضروری ہے، بدون تحققِ امانت تحققِ ایمان ممکن نہیں، اگر ممکن ہو تو پھر امانت کا ایمان کے لیے موقوف علیہ ہونا بھی غلط ہوجائے گا اور جمادات و حیوانات کو بھی مثل انسان مکلفِ احکامِ شرعیہ کہنا پڑے گا، کچھ فرق ہی نہ رہے گا۔ وھو باطل۔ 
اگر توضیح و تفصیل مطلوب ہے تو سنیے حسبِ ارشاداتِ نقلیہ و دلائلِ عقلیہ و محسوساتِ بدیہیہ جن کی تفصیل میں تطویل ہے، جاننے والوں کو یہ بات بخوبی معلوم ہے کہ مخلوقاتِ عالم میں انسان سب سے اشرف اور افضل ہے، خصوصاً جمادات و نباتات و حیوانات وغیرہ اشیائے معلومہ محسوسہ پر تو اُس کی افضلیت اسی طرح روشن ہے جیسے خوب صورتوں کا بد صورتوں پر صورت میں افضل ہونا اور خوش فہموں کا بدفہموں سے فہم میں افضل ہونا ظاہر و باہر ہے اور اسی وجہ سے منصبِ خلافت احکم الحاکمین بھی اسی نے اڑایا اور بارِ امانت جس کے اُٹھانے سے آسمان، زمین، پہاڑ سب عاجز ہوگئے وہ بھی اسی ظلوم جہول کو اُٹھانا پڑا۔ حافظ شیراز  ؒ اسی مضمون کی طرف اشارہ فرماتے ہیں:
آسماں بار امانت نتوانست کشید
قرعہ فال بنامِ من دیوانہ زدند
اب جیسا انسان کا اشرف المخلوقات اور افضل الموجودات کہنا عقلاً اور نقلاً ضروری ہے ایسا ہی دو امر اور بھی ضروری التسلیم و مجمع علیہ عقلاً ہیں۔
اوّل یہ کہ خداوندِ عالم علیم وحکیم نے اپنی مخلوقات میں جس کو جیسا بنایا اور جو مرتبہ ادنی یا اعلیٰ اُس کو عنایت فرمایا وہ سراسر حکمت کے مطابق ہے اور ایسا ہی ہونا مناسب تھا۔ اگر کسی موقعِ خاص میںکسی کو کوئی خلجان پیش آوے یا حکمت کے خلاف نظر آئے تو یہ بالیقین اس کے فہم کا قصور ہوگا، حکم خدا وندی کے مطابق حکمت ہونے میں اس سے اصلاً اشتباہ نہ ہوسکے گا۔ جب ملائکۂ مقربین کی {أَتَجْعَلُ فِیْھَا مَنْ یُّفْسِدُ فِیْھَا وَیَسْفِکُ الدِّمَـآئَج وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِکَ وَنُقَدِّسُ لَکَط}1 (1 البقرۃ: ۳۰) عرض کرنے کا {قَالَ اِنِّیْ اَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ}1 (1 ؟؟؟؟: ؟؟؟) جواب کافی ہوگیا، جس پر ملائکہ الرحمن کو بھی بجز سکوت کوئی گنجایش باقی نہیں رہی اور بالآخر {سُبْحَانَکَ لَا عِلْمَ لَنَا اِلَّا مَا عَلَّمْتَنَاط اِنَّکَ اَنْتَ الْعَلِیْمُ الْحَکِیْمُO}1 (1 البقرۃ:۳۲) عرض کرکے اپنے قصور سے معترف ہوئے تو آج وہ کون ہے کہ اس کی قوی سے قوی خدشہ اور اعتراض کے مقابلہ میں ہم اس کو یہی جواب دیں اور کافی نہ سمجھا جاوے۔ پہلے ہم صاف عرض کرچکے ہیں کہ تمام حکما و عقلا بلکہ جملہ عالم کے عقل و علم کی حق تعالیٰ کے علم کے سامنے ہرگز ہرگز اتنی بھی وقعت نہیں ہوسکتی جیسے جملہ حکما کی عقل کے سامنے کسی جاہل گنوار کی عقل کی حقیقت۔

x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 وحی اور اُس کی عظمت 2 1
3 لَا إِیْمَانَ لِمَنْ لَا أَمَانَۃَ لَہٗ 19 1
Flag Counter