Deobandi Books

افادات محمود - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

20 - 60
سو سنئے کہ لغتِ عرب میں امانت ضدِ خیانت کا نام ہے اور خیانت اُس کو کہتے ہیں کہ کسی شخص کو کسی امر میں کسی وجہ سے ہم تو قابلِ اطمینان سمجھیں اور اس سے خیر خواہی اور راست بازی کی توقع کریں، مگر وہ ہم سے بد خواہی اور دھوکا بازی اور بد عہدی اور بد معاملگی کرجائے۔ کچھ مال کی ہی تخصیص نہیں،مال ہو خواہ عہد و پیمان ہو خواہ کوئی معاملہ یا راز یا کوئی مشورہ وغیرہ ہو، جب خلافِ اطمینان و توقع کسی بات میں بدخواہی اور بدمعاملگی کی جاوے گی وہی خیانت ہوگی۔ تو اب بالضرور امانت کے یہ معنی ہوں گے کہ فعل یا قول یا عہد و پیمان یا روپیہ پیسہ وغیرہ میں کوئی امر خلافِ خیر خواہی اور راست بازی نہ ہو، جو کچھ ہو عین سلوک، عین ایمان داری اور حق پسندی کے ساتھ ہو۔ جب امانت کے معنی معلوم ہوگئے تو اب سنیے کلام اللہ میں مذکور ہے کہ جب حق تعالیٰ نے مضمونِ امانت کو مخلوقات میں سے کسی کے ذمہ لگانے کی تجویز ظاہر فرمائی تو آسمان و زمین و پہاڑ سب اس بارِ گراں کے تحمل سے گھبرا گئے اور کانوں پر ہاتھ دھر گئے۔ مگر انسان گٹھڑی کے پورے مت کے ہیٹے نے اپنے سر لے لیا جس کا نتیجہ اہلِ ایمان کے لیے نہایت مفید اور دوسروں کے حق میں نہایت مضر ہونے والا ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے وہ آیتِ کریمہ یہ ہے:
{اِنَّا عَرَضْنَا الْاَمَانَۃَ عَلَی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَالْجِبَالِ فَاَبَیْنَ اَنْ یَّحْمِلْنَہَا وَاَشْفَقْنَ مِنْہَا وَحَمَلَہَا الْاِنْسَانُط اِنَّہٗ کَانَ ظَلُوْمًا جَہُوْلًاO لِّیُعَذِّبَ اللّٰہُ الْمُنٰفِقِیْنَ وَالْمُنٰفِقٰتِ وَالْمُشْرِکِیْنَ وَالْمُشْرِکٰتِ وَیَتُوْبَ اللّٰہُ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِط وَکَانَ اللّٰہُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًاO}1 (1 الأحزاب: ۷۲، ۷۳) 
اہلِ علم واقف ہیں کہ لیعذب میں جو لام ہے یہ لامِ تعلیلیہ ہے اور لامِ عاقبت کہلاتا ہے۔ یعنی انسان کے حق میں تحملِ بارِ امانت کا انجام اور نتیجہ یہ ہوا کہ اہلِ ایمان مستحقِ تنعیم اور دوسرے لوگ مستوجبِ تعذیب ہوگئے، جیسے ضربتًا یا تأدیبًا میں تأدیب کو ضرب کی علتِ غائی اور اُس کا نتیجہ کہا جاتا ہے اور یہی بعینہٖ انسان کے مکلف ہونے کا مطلب ہے، سب جانتے ہیں کہ انسان کے مکلف ہونے کا ما حصل صرف یہی تو ہے کہ احکامِ خداوندی بجا لانے میں مستحقِ ثواب اور خلاف کرنے میں موردِ عقاب ہوگا۔ تو جب تحملِ بارِ امانت انسان کے حق میں موجبِ تعذیب و تنعیم ہوا تو صاف معلوم ہوگیا کہ مدارِ تکلیف اور اُس کا منشا صرف امانت ہے۔ جس میں صفتِ امانت اور ملکۂ امانت محقق ہوگا وہی تعمیلِ احکام ِخداوندی کا مکلف ہوگا اور جس میں یہ ملکہ اور استعداد نہ ہوگی وہ بے شک غیر مکلف ہوگا۔ حضرت امام غزالی اور قاضی بیضاوی اور شاہ ولی اللہ صاحب  رحمہ اللہ  فرماتے ہیں کہ امانت سے یہی مراد ہے کہ تکلیفِ احکامِ خدا وندی کو اپنے ذمے لے لینا اور اپنے آپ کو طاعت کی صورت میں مستحقِ ثواب اور در صورتِ معصیت مستحقِ عذاب تسلیم کرلینا۔
اس تقریر سے یہ بات بخوبی واضح ہوگئی کہ جیسا دیکھنا بصارت پر اور سننا سماعت پر موقوف ہے اسی طرح انسان کا ایمان اور جملہ احکام متعلقہ ایمان کا مکلف ہونا صفتِ امانت پر متفرع ہے اور صفت امانت ان جملہ تکلیفاتِ شرعیہ کے لیے منشا اور 
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 وحی اور اُس کی عظمت 2 1
3 لَا إِیْمَانَ لِمَنْ لَا أَمَانَۃَ لَہٗ 19 1
Flag Counter