Deobandi Books

افادات محمود - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

12 - 60
بلکہ چشم بصیرت ہو تو دوستوں کی یہ عنایات دشمنوں کے ستم سے بدرجہا زائد ہیں اور گوش حقیقت نیوش ہو تو اسلام زبانِ حال سے بآوازِ بلند کہہ رہا ہے:
من از بیگانگاں ہرگز نالم کہ برجانم
بلاہائے کہ شد نازل زدستِ دوستاں آمد
منصف فہیم بالبداہت سمجھتا ہے کہ انبیائے کرام  علیھم السلام  دنیا میں تعلیمِ زبان و لغات کے لیے تشریف نہیں لائے۔ بلکہ امتیوں کو انھیں کے محاورات میں ہدایت اور تعلیمِ احکام فرماتے ہیں جو زبان اُن کے اندر پہلے سے شایع ہوتی ہے اور سیدھے سادے طرز میں جو کہ معمیات اور تکلف کے اسلوب سے بمراحل دور ہے۔
{وَمَـآ اَرْسَلْنَا مِن رَّسُوْلٍ اِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِہٖ}1 (1 إبراھیم: ۴) خود ارشاد ِصریح موجود ہے اور قرآن شریف کو مواقعِ کثیرہ میں ’’مبین‘‘ فرمایا ہے تو اب قرآنِ مجید کے معنی خلافِ لغت و استعمالِ عرب لینے یا خلافِ صحابہ و تابعین اور دیگر عرب العربا کے اُس کے مطلب کو چیستاں بنانا بے شک اُسی نظر سید یکھا جائے گا جیسے کوئی ہندی۔ یورپی،کابلی صرف و نحو کے دو چار رسالے دیکھ کر امرأ القیس1 (1 امرأ القیس عرب کا مشہور فصیح و بلیغ شاعر، اسلام سے چالیس سال پہلے گزرا ہے اور لبید بھی جاہلیت کا مشہور شاعر ہے جس کی نسبت رسولِ مقبول ﷺ نے فرمایا ہے کہ اُس کا یہ قول نہایت ہی سچا ہے: أَلَا کُلُّ شَيْئٍ مَا خَلَا اللّٰہ باطِلٌ۔ (یعنی خوب سمجھ لو کہ خدا تعالیٰ کے سوا تمام چیزیں باطل ہیں۔) اور لبید کو اصلاح دینے کے لیے بیٹھ جائے، بلکہ اُس سے بھی کمتر۔
اہلِ اہوا کو اس خطاب کا مستحق صرف اتنی ہی بات نے بنایا ہے کہ انھوں نے اپنی رائے کو امام بنا کر اور اپنی اغراض کو نصب العین رکھ کر احکام وحی کو اُس کے ساتھ کھینچنا چاہا اور کسی کے وفاق و خلاف کی پروانہ کی اور نقل و عقل میں جب کشمکش پیدا ہوئی تو انھوں نے بزورِ عقل اپنی ناقص عقل کو سب پر وَر رکھا اور نصوص یقینیّہ میں تاویلات ناروا اور طرح طرح کی حیلہ سازی سے کام کیا۔
مثال مطلوب ہے تو سنیے انھیں حضرات نے مخالفتِ نصوص کے طعن سے بچنے کے لیے ایک قاعدہ عامۃ الورود اور ایک چلتی ہوئی تدبیر جگہ جگہ یہ پیش کی کہ خدائے برتر اور رسولِ اطہر ﷺ کا کوئی جملہ، کوئی کلام ہرگز ہرگز خلافِ حقیقت، خلاف واقع، خلافِ عقل نہیں ہوسکتا۔ یہ قاعدہ فی حد ذاتہ ضرور قابلِ تسلیم ہے۔ مگر انھوں نے اس سے یہ کام لینا شروع کیا کہ جب کوئی حکمِ وحی اُن کے نام کی عقل بلکہ اُن کے وہم کے بھی خلاف نظر آیا اور جس حکمِ الٰہی سے اُن کو جان بچانی منظور ہوئی وہاں اپنے توہمات سے خلافِ واقع اور خلافِ عقل کا فتویٰ دے کر اُس حکم سے سبک دوش ہو بیٹھے اور نہایت بے فکری بلکہ سرکشی کے ساتھ انکارِ محض یا تحریف و تاویل جس سے چاہا کام لیا۔
چناںچہ رویت جنابِ باری، ثبوتِ تقدیر، تعذیبِ قبر، وزنِ اعمال، پلِ صراط، دوزخ جنت کا بالفعل موجود ہونا اور دیگر 

x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 وحی اور اُس کی عظمت 2 1
3 لَا إِیْمَانَ لِمَنْ لَا أَمَانَۃَ لَہٗ 19 1
Flag Counter