علاج کبر |
ہم نوٹ : |
|
لوگ آج تعداد میں بہت زیادہ ہیں، بس آج تو بازی مارلی، آج تو ہم فتح کرہی لیں گے اور ان کے منہ سے نکل گیا کہ آج ہم کسی طرح مغلوب نہیں ہوسکتے یعنی اسباب پر ذرا سی نظر ہوگئی، اپنی کثرتِ تعداد پر کچھ ناز سا پیدا ہوگیا کہ ہم آج تعداد میں کفار سے بہت زیادہ ہیں، آج تو فتح ہوہی جائے گی۔ چناں چہ شکست ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تمہاری شکست کی وجہ یہی ہے کہ تمہیں اپنی کثرت بھلی معلوم ہوئی اور ہماری نصرت سے نظر ہٹ گئی، لیکن تھوڑی دیر کے بعد جب انہوں نے توبہ و استغفار کی تو دوبارہ اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم آگیا، پھر فوراً مدد آگئی اور اللہ تعالیٰ نے دوبارہ فتح مبین نصیب فرمائی۔ کبھی بڑائی بڑے خفیہ طور سے دل میں آجاتی ہے، خود انسان کو پتا نہیں چلتا کہ میرے دل میں تکبر ہے، کبھی آدمی کے دل میں بڑائی ہوتی ہے اور زبان پر تواضع ہوتی ہے کہ میں تو کچھ بھی نہیں ہوں۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ بعض لوگ اپنے منہ سے اپنی خوب حقارت بیان کرتے ہیں کہ میں کچھ نہیں ہوں صاحب، حقیر ناچیز بندہ ہوں لیکن اگر کوئی کہہ دے کہ واقعی آپ کچھ نہیں ہیں، آپ حقیر بھی ہیں اور ناچیز بھی ہیں تو پھر دیکھیے ان کا چہرہ فق ہوجاتا ہے کہ نہیں، اور دل میں ناگواری محسوس ہوگی۔ یہی دلیل ہے کہ یہ دل میں اپنے آپ کو حقیر نہیں سمجھتا۔ حضرت فرماتے ہیں کہ بعض لوگوں کی زبانی تواضع بھی تکبر سے پیدا ہوتی ہے کہ اس کو اپنی بڑائی کا ذریعہ بناتے ہیں تاکہ لوگوں میں خوب شہرت ہوجائے کہ فلاں صاحب بڑے متواضع ہیں، اپنے کو کچھ نہیں سمجھتے۔ اس تواضع اور خاکساری کا منشا تکبر اور حبِ جاہ ہے۔ چناں چہ اگر لوگ اس کی تعظیم نہ کریں تو اس کو ناگواری ہوتی ہے۔یہی دلیل ہے کہ یہ تواضع اللہ کے لیے نہیں تھی ورنہ لوگوں کی تعظیم اور عدم تعظیم اس کے لیے برابر ہوتی۔اس لیے یہ بڑائی بہت دن کے بعد دل سے نکلتی ہے، تکبر کا مرض بہت مشکل سے جاتا ہے۔ اسی بڑائی کو نکالنے کے لیے بزرگانِ دین،مشایخ اور اللہ والوں کی صحبت اٹھانی پڑتی ہے، شیخ کے ساتھ ایک زمانہ گزارا جاتا ہے، پھر وہ رگڑ رگڑ کر بڑائی نکال دیتا ہے اور خصوصاً وہ شیخ جو ذرا ٹرّا بھی ہو یعنی ڈانٹ ڈپٹ بھی کرتا ہو پھر تو وہاں بہت جلد بڑائی نکل جاتی ہے۔ جیسے ہمارے میر صاحب کا شعر ہوا ہے۔ میر صاحب کو پچھلے جمعہ کو بھرے مجمع میں جو ڈانٹ پڑی تو انہوں نے ایک شعر کہا ؎