علاج کبر |
ہم نوٹ : |
|
ہائے وہ خشمگیں نگاہ قاتل کِبر و عجب و جاہ بھرے مجمع میں جب شیخ ڈانٹ دیتا ہے، استاد ڈانٹ دیتا ہے تو کیسی اصلاح ہوتی ہے، جس کو بہت عمدہ تعبیر کیا ہے ماشاء اللہ، نظر نہ لگے ان کو ؎ہائے وہ خشمگیں نگاہ قاتل کِبر و عجب و جاہ اس کے عوض دلِ تباہ میں تو کوئی خوشی نہ لوں شیخ کی غضبناک نگاہیں قاتل کبر و عجب و جاہ ہیں، وہ عجب و کبر اور جاہ کو قتل کردیتی ہیں۔ اس کے عوض دل تباہ یعنی اے دلِ تباہ! اس کے بدلے میں مجھے دنیا کی کوئی خوشی نہیں چاہیے۔ یہ بڑی عظیم الشان نعمت ہے کہ جس کا نفس مٹ جائے۔ حضرت خواجہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ حکیم الامت مجدد الملت حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں جب حاضر ہوئے تو ایک پرچہ پر اپنی حاضری کا مقصد ایک شعر میں لکھ کر بھیج دیا۔ وہ شعر یہ تھا ؎نہیں کچھ اور خواہش آپ کے در پر میں لایا ہوں مٹادیجیے مٹادیجیے میں مٹنے ہی کو آیا ہوں اپنے نفس کو مٹانا یہی سلوک کا حاصل ہے۔ علامہ سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ کا علم معمولی نہیں تھا، مشرقِ وسطیٰ میں جس کو آپ مڈل ایسٹ کہتے ہیں ان کے علم کا غلغلہ مچا ہوا تھا، زبردست خطیب، بہترین ادیب، بہترین عربی داں،عربی ان کے لیے ایسی تھی جیسی ہماری آپ کی اُردو، بلکہ ان کی اُردو سے بھی زیادہ ان کی عربی اچھی تھی۔ اس کے باوجود جب حکیم الامت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا کہ حضرت تصوف کس چیز کا نام ہے؟ تو حضرت نے فرمایا کہ آپ جیسے فاضل کو مجھ جیسا طالبِ علم کیا بتاسکتا ہے۔ البتہ جو اپنے بزرگوں سے سنا ہے اسی سبق کی تکرار کرتا ہوں یعنی اسی کو دوبارہ دہرا دیتا ہوں۔ دیکھیے یہ تھی حضرت کی شانِ فنائیت و تواضع، فرمایا کہ آپ جیسے فاضل کو مجھ جیسا طالبِ علم کیا بتاسکتا ہے۔ اتنا بڑا مجدد ِزمانہ اور آفتابِ علم ،اکابر علماء کا شیخ اپنے کو طالبِ علم کہہ رہا ہے۔ تکرار کے معنیٰ اُردو میں جھگڑے کے آتے ہیں۔ اگر آپ کسی گاؤں میں جائیں تو آپ یہ کبھی نہ کہیے کہ میں تکرار کرنا چاہتا ہوں۔ طالبِ علم تو اپنی کتاب کے سبق کو دوبارہ دہرانے کو