Deobandi Books

فضائل توبہ

ہم نوٹ :

8 - 34
چوتھا گواہ نامۂ اعمال ہے:
وَ  اِذَا الصُّحُفُ نُشِرَتۡاورجب نامۂ اعمال کھول دیےجائیں گے۔
لہٰذا سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب یہ چار گواہ ہمارے اوپر قیامت کے دن پیش ہوجائیں گے تو کیا کرنا چاہیے؟ وہ لوگ جو اپنی جانوں پر ظلم کرچکے اور اپنے خلاف گواہ تیار کرچکے، کیا ان کے لیے کوئی صورت ایسی ہے کہ یہ گواہ قیامت کے دن نہ پیش ہوں اور گواہی ختم ہوجائے؟لہٰذا سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی ترکیب بھی اُمت کے لیے ارشاد فرمادی یعنی توبہ، جس کے متعلق حدیث شریف نقل کروں گا ان شاء اللہ۔ لیکن توبہ اپنی شرائط کے ساتھ ہو، جس کی تین شرطیں ہیں اللہ کے حقوق میں،اور ایک شرط ہے بندوں کے حقوق میں،اس طرح کل چار شرطیں ہوئیں۔7؎
اللہ کے حقوق میں پہلی شرط یہ ہے کہ سب سے پہلے تو اس گناہ سے الگ ہوجائے۔ اَنْ یَّقْلَعَ عَنِ الْمَعْصِیَۃِ یہ نہیں کہ حالتِ گناہ میں ہے اور توبہ توبہ کررہا ہے، جیسا کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ لَاحَوْلَ وَلَاقُوَّۃَ!کیا بے حیائی ہے! کیا عریانی کا زمانہ آگیا ہے! اور خواتین کو دیکھتے بھی جارہے ہیں اور لاحول بھی پڑھتے جارہے ہیں۔ ایسا لاحول ہمارے نفس پر خود لاحول پڑھتا ہے۔ لہٰذا سب سے پہلی شرط یہ ہے کہ گناہ چھوڑ دے۔
دوسری شرط یہ ہے کہ اَنْ یَّنْدَمَ عَلَیْھَا اس گناہ پر دل میں ندامت پیدا ہوجائے۔ ندامت کی تعریف یہ ہے کہ دل میں دکھن اور غم پیدا ہوجائے کہ ہائے! میں نے کیسے یہ نالائقی کرلی؟ ایسے محسن اور پالنے والے مالک کے احسان کا میں نے کیوں حق ادا نہیں کیا؟ حضرت حکیم الامت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اگر دوزخ نہ بھی ہوتی تو بھی بندوں کی شرافت کے خلاف تھا کہ ایسے احسان کرنے والے مالک کی انسان نافرمانی کرے۔ اللہ تعالیٰ کا پیار اور ان کے احسانات ہمارے اوپر اتنے ہیں کہ شرافتِ طبع کا تقاضا یہ تھا کہ ہم
_____________________________________________
6؎  التکویر :10شرح مسلم للنووی:346/2، باب بیان النقصان فی الایمان، داراحیاءالتراث، بیروت
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 پیش لفظ 5 1
3 فضائل توبہ 6 1
Flag Counter