Deobandi Books

فضائل توبہ

ہم نوٹ :

28 - 34
اہل دنیا اور اہل اللہ کے عیش کا فرق
۹ صفر المظفر ۱۳۹۴؁ھ مطابق ۱۳ مارچ ۱۹۷۴؁ء کو حضرت اقدس مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب دامت برکاتہم کا بعض احباب کی دعوت پر سفر حیدرآباد ہوا تھا، حافظ عبدالقدیر صاحب، مالک مکتبۂ اصلاح وتبلیغ کے مکان پر کچھ احباب جمع ہوگئے۔ اس وقت ارشاد فرمایا کہ
بعض لوگ ایسے ہیں کہ ان کے جسم پر دو ہزار کا لباس ہے، اور دو لاکھ کی کار میں ان کا جسم بیٹھا ہوا ہے، لیکن ان کا دل ویران ہے۔ حق تعالیٰ کے تعلق اور محبت سے بالکل خالی ہے۔ اللہ کے نزدیک ان کے دل کی کوئی قیمت نہیں ہے۔ اور بعض بندے ایسے ہیں کہ ان کے جسم پر پیوند لگے ہوئےکپڑے ہیں اور کھانے میں چٹنی روٹی ہے لیکن ان کے سینوں میں جو دل ہے وہ حق تعالیٰ کے قرب ومعیت سے اس قدر قیمتی ہوگیا کہ وہ ایک دل اللہ کے نزدیک لاکھوں غافل اجسامِ انسانیہ سے زیادہ محبوب، فائق تر اور قیمتی ہے۔ اور حق تعالیٰ کے تعلق کے فیض سے چٹنی روٹی اور افلاس میں ان کے دلوں کو وہ چین نصیب ہے کہ بادشاہوں نے خواب میں بھی نہیں دیکھا۔ برعکس جو خدا سے غافل ہیں، ان کا جسم اگرچہ کار میں بیٹھا ہوا ہے، اور دو ہزار کا سوٹ زیب تن کیا ہوا ہے، اور زبان پر مرغ اور بریانی کا لقمہ ہے، لیکن دل بے چین وبے سکون ہے۔ معلوم ہوا کہ باہر کی چیزیں دل کو سکون نہیں دے سکتیں۔ اندر اگر سکون ہے تو باہر کی چیزیں کار، بنگلہ، بیوی، بچے اور عمدہ غذائیں اچھی معلوم ہوتی ہیں۔ اور اگر دل میں سکون نہیں ہے تو باہر کی چیزیں کانٹا معلوم ہوتی ہیں۔ پھر بیوی بچے بھی اچھے نہیں لگتے، کار اور بنگلہ بھی اچھا نہیں لگتا، مرغ اور کباب کا لقمہ بھی زہر معلوم ہوتا ہے     ؎
دل گلستاں تھا تو  ہرشے سے ٹپکتی تھی بہار
دل  بیاباں  ہوگیا   عالم   بیاباں   ہوگیا
اہل دنیا کے لیے دنیا عذاب اس لیے ہوگئی کیوں کہ دنیا کی محبت ان کے دل میں داخل ہوگئی، ورنہ اہل اللہ کے پاس اگر دنیا آتی بھی ہے تو وہ دنیا کو دل سے باہر رکھتے ہیں، ان کے دل میں صرف اللہ ہوتا ہے اور ہر وقت حق تعالیٰ کے قربِ خاص،تعلق خاص ومعیتِ خاصہ سے
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 پیش لفظ 5 1
3 فضائل توبہ 6 1
Flag Counter