Deobandi Books

فضائل توبہ

ہم نوٹ :

16 - 34
ہیں تو سجدہ میں سر رکھ کر اشکبار آنکھوں سے سجدہ گاہ کو تر کرکے اپنی مناجات میں اپنا خونِ جگر پیش کرکے اللہ کو راضی نہیں کرلیتا اس وقت تک اسے دنیا کی کوئی نعمت اچھی نہیں معلوم ہوتی،یہ مجبورِ محبت ہوکر رہ جاتا ہے۔ یعنی اگر یہ خدا کو بھلانا بھی چاہے تو بھلانے پر قادر نہیں ہوسکتا۔ اسی کو خواجہ صاحب فرماتے ہیں     ؎
بھلاتا ہوں پھر بھی وہ یاد آرہے ہیں
اس کیفیت کو حاصل کرنے کے لیے کیا کرنا ہے؟ بس قلب پر ذکر اللہ کے نور کی پالش لگانا ہے۔
دیکھیے! قطب نما کی سوئی میں مقناطیس کی ذرا سی پالش لگتی ہے تو وہ سوئی مرکز مقناطیس قطب شمالی کی طرف ہر وقت مستقیم رہتی ہے اور لاکھوں ٹن لوہا جس میں مقناطیس کی یہ پالش نہ ہو،اس کی استقامت کو پھیرا جاسکتا ہے، شرق وغرب، شمال وجنوب، جس طرف چاہو اس کا رخ کرلو، لیکن اس سوئی کا رخ آپ نہیں بدل سکتے۔ ایسے ہی یہ چھوٹا سا دل ہے، اگر اس میں اللہ کے ذکر کی برکت سے نور کی پالش لگ جائے تو مرکزِ نور اللہ تعالیٰ کی ذاتِ پاک اس کو ہر وقت اپنی طرف کھینچے رکھتی ہے۔
ہاں تو میں مجاہدہ کی تفسیر عرض کررہا تھا جو بیان ہوچکی۔لیکن مجاہدہ کا انعام کیا ہے؟ کہتے ہیں کہ بھائی! مجاہدہ میں تکلیف ہوتی ہے تو کچھ ملنا بھی چاہئے     ؎
نعم البدل  کو  دیکھ  کے  توبہ کرے گا  میر
وہ نعم البدل کیا ہے؟ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
لَنَہۡدِیَنَّہُمۡ سُبُلَنَا18 ؎
ضرور ضرور ہم ان کے لیے ہدایت کے دروازے کھول دیں گے۔
مفسرین نے اس کی دو تفسیریں کی ہیں:
(۱)پہلی تفسیر ہے:
  لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَ السَّیْرِ اِلَیْنَا
_____________________________________________
18؎  العنکبوت:69
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 پیش لفظ 5 1
3 فضائل توبہ 6 1
Flag Counter