Deobandi Books

فضائل توبہ

ہم نوٹ :

15 - 34
ناراضگی سے ان کے عاشقوں کا کیا حال ہوتا ہوگا؟ اس کو کوئی کیا قیاس کرسکتا ہے۔
ذرا سی چُوک ہوئی تھی، پچاس دن حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بولنا چھوڑ دیا تھا، تو صحابہ کی پوری دنیا اندھیری ہوگئی تھی اور اللہ تعالیٰ نے ان کے دل کی کیفیت کو قرآن میں نازل فرمایا۔ اگر وہ خود اپنی کیفیت کو بیان کرتے تو تاریخ یہ کہتی کہ اپنے منہ سے تعریف کرلی۔    لیکن اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ان کی تعریف فرمادی اور قیامت تک کے لیے ان کی محبت  پر مہر ِتصدیق ثبت فرمادی کہ یہ میری ناراضگی سے اتنا بے چین ہیں کہ ضَاقَتۡ عَلَیۡہِمُ الۡاَرۡضُ بِمَا رَحُبَتۡ ساری کائنات وسیع ہونے کے باوجود ان پر تنگ ہوچکی ہے۔ وَضَاقَتۡ عَلَیۡہِمۡ اَنۡفُسُہُمۡ16؎ اور وہ اپنی جان سے بھی بیزار ہیں،یعنی اپنی زندگی ان کو تلخ ہوچکی۔
معلوم ہوا کہ اتنی پریشانی گناہ کے بعد جس کو نہ ہو اس کو ابھی محبتِ کاملہ کی چاشنی نہیں ملی، ورنہ جس کو اللہ سے صحیح تعلق ہے وہ تو ذرا سے مکروہ سے بھی پریشان ہوجاتا ہے۔ جیسے قطب نما کی سوئی کو ذرا سا ہٹائیے تو مضطرب ہوجاتی ہے اور جب رخ صحیح کرلیتی ہے تو ٹھہر جاتی ہے۔ اسی لیےسکینہ کی تعریف یہ کی گئی ہے:
ھِیَ نُوْرٌ یَّسْتَقِرُّ فِی الْقَلْبِ وَبِہٖ یَثْبُتُ التَّوَجُّہُ اِلَی الْحَقِّ17؎
سکینہ ایک نور ہے جو دل میں ٹھہر جاتا ہے اور پھر وہ قلب ہر وقت اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ رہتا ہے۔ دل میں سکینہ آنے کی علامت یہ ہے کہ اس کو اللہ تعالیٰ سے غفلت نہیں ہوسکتی، چاہے وہ بازار میں ہو، چاہے مسجد میں ہو، چاہے بال بچوں میں ہو، کہیں بھی ہو، وہ اللہ سے غافل نہیں ہوسکتا۔ جیسے قطب نما کی سوئی میں مقناطیس کی پالش لگ گئی، ہر وقت مرکز مقناطیس کی طرف متوجہ ہے۔ جس کے دل میں نور کی پالش لگ گئی، اس کے قلب کا رخ ہر وقت اللہ کی طرف درست رہتا ہے۔ اگر کبھی ذرا سا ہٹ جائے تو بے چین ہوجاتا ہے، جب تک قلب کا قبلہ اللہ کی طرف درست نہیں کرلیتا، چین نہیں آتا۔ یعنی اگر اس سے کبھی کوئی ایسا فعل ہوجائے جس کے بارے میں اسے معلوم ہوجائے کہ اللہ تعالیٰ میری اس بات سے راضی نہیں
_____________________________________________
16؎  التوبۃ:118
17؎  روح المعانی:25/11،دار احیاء التراث، بیروت
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 پیش لفظ 5 1
3 فضائل توبہ 6 1
Flag Counter