Deobandi Books

تعلق مع اللہ

ہم نوٹ :

8 - 58
پیاسا    چاہے    جیسے    آبِ   سرد    کو
تیری پیاس اس سے بھی بڑھ کر مجھ کو ہو
جس طریقے سے ایک پیاسے کو ٹھنڈا پانی پی کر رگ رگ میں سیرابی اور ایک نئی جان عطا ہوتی ہے، خدائے تعالیٰ کے عاشقوں کو اللہ کا نام لے کر ایسا ہی محسوس ہوتا ہے۔چناں چہ مثنوی کے دفتر ششم کے آخر میں مولانا فرماتے ہیں؎
نامِ  او  چوں   بر  زبانم   می   رود
ہر  بُن  مو  از  عسل  جوئے  شود
مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جب اللہ کا نام میری زبان سے نکلتا ہے تو کیا محسوس ہوتا ہے؟ میرے بال بال شہد کے دریا ہوجاتے ہیں۔
تو میرے دوستو! اللہ کی محبت کا یہ مقام کیسے حاصل ہو کہ ہمارے قلب میں اللہ تعالیٰ کی محبت اشد ہوجائے اور اگر اشد نہ ہوئی تو یاد رکھیے! ہم اللہ تعالیٰ کے پورے فرماں بردار نہیں ہوسکتے۔ کیوں؟ اس لیے کہ جب ہم کو اپنا دل زیادہ پیارا ہوگا تو جہاں ہمارے دل کو تکلیف ہوگی وہاں ہم اللہ کے قانون کو توڑ دیں گے۔ مثلاً کوئی ایسی حسین صورت سامنے آئی کہ دل چاہتا ہے اس کو دیکھیں، نہ دیکھیں تو دل کو تکلیف ہوگی، تو اگر دل سے خدا پیارا ہے تو دل کو توڑ دیں گے، خدا کو راضی کرلیں گے، اور اگر دل زیادہ عزیز ہے، اللہ تعالیٰ سے محبت کم ہے تو گویا دل احب ہوگیا، دل کی محبت احب اور اشد ہوگئی، پھر آدمی گناہوں سے نہیں بچ سکتا۔ نافرمانی سے بچنے کے لیے قلب میں اللہ تعالیٰ کی محبت اشد ہونا ضروری ہے۔ اسی وجہ سے مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جس وقت سلطان محمود نے اپنے پینسٹھ وزیروں کو بلایا اور کہا کہ شاہی خزانے کا یہ نایاب موتی توڑ دو۔ لیکن ہر وزیر نے کہا کہ حضور یہ خزانے کا نایاب موتی ہے، اس کی خزانۂ شاہی میں کوئی مثال نہیں، میں اس کو نہیں توڑوں گا۔ یہاں تک کہ ان سب وزیروں نے انکار کردیا اور معذرت کرلی۔ آخر میں شاہِ محمود نے ایاز کو بلایا۔ اسے دراصل وزیروں کو ایاز کا مقامِ عشق دکھلانا تھا۔ یہ دکھلانا تھا کہ ایاز میرا سچا عاشق ہے۔ باقی سب وزراء ریالی اور تنخواہی ہیں۔ اس نے کہا ایاز! تم اس موتی کو توڑ دو۔ ایاز نے فوراً پتھر اُٹھایا اور موتی کو توڑ دیا۔
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 پیش لفظ 5 1
3 تعلّق مع اللہ 6 1
Flag Counter