اور محبت حبیب بھی جائز ہے یعنی اس کو حبیب بنالینا بھی جائز ہے۔ حبیب پر یاد آیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم لوگوں کو حبیب سے خطاب فرمایا۔ ایک روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا مَتٰی اَلْقٰی اَحْبَابِیْ میں اپنے حبیبوں سے کب ملوں گا۔ احباب اور احبّاء جمع ہے حبیب کی، جیسے اطباء جمع ہے طبیب کی تو صحابہ نے پوچھا اَوَلَیْسَ نَحْنُ اَحِبَّائُکَ کیا ہم لوگ آپ کے احباء نہیں ہیں؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اَنْتُمْ اَصْحَابِیْ تم تو میرے صحابہ ہو وَ لٰکِنْ اَحْبَابِیْ قَوْمٌ لَمْ یَرَوْنِیْ وَاٰمَنُوْا بِیْ، اَنَا اِلَیْہِمْ بِالْاَشْوَاقِ4؎ لیکن میرے احباب، میرے احباء وہ لوگ ہیں جنہو ں نے مجھے نہیں دیکھا اور مجھ پر ایمان لائے، میں ان کا مشتاق ہوں۔ یعنی ہم لوگ ان میں شامل ہیں جو آپ کے بعد ایمان لائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں دیکھا۔ اللہ تعالیٰ اس نبی اُمی صلی اللہ علیہ وسلم پر بے شمار رحمتیں اور سلام نازل فرمائے کہ جنہوں نے ہم کو احبّاء سے خطاب فرمایا اور ہمارے لیے اشتیاق ظاہر فرمایا۔ تو حبیب کا اطلاق یہاں مخلوق کے لیے ہے لیکن احب اور اشد محبت اللہ تعالیٰ کی ہونی چاہیے۔ اگراللہ تعالیٰ کی محبت احب اور اشد نہیں ہے تو پھر بندہ پورا فرماں بردار نہیں ہوسکتا۔ دل سے بھی زیادہ، جان سے بھی زیادہ، اہل و عیال سے بھی زیادہ اللہ تعالیٰ ہمیں پیارے ہونے چاہئیں۔چناں چہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس محبت کو اس عنوان سے طلب فرمایا ہے:
اَللّٰہُمَّ اجْعَلْ حُبَّکَ اَحَبَّ اِلَیَّ مِنْ نَفْسِیْ وَاَہْلِیْ وَمِنَ الْمَاءِ الْبَارِدِ5؎
یااللہ! اپنی محبت میرے اندر میری جان سے زیادہ عطا فرمادیں اور اہل و عیال سے بھی زیادہ اور ٹھنڈے پانی سے بھی زیادہ یعنی پیاسے کو جتنا ٹھنڈا پانی عزیز ہوتا ہے اس سے بھی زیادہ اے اللہ! آپ مجھے محبوب ہوں۔ تو معلوم ہوا یہ خطوط اور حدود ہیں محبت کے جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سکھائے۔ حضرت حاجی امداد اللہ صاحب مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ نے حدیث شریف کے اس آخری جز کا اپنے ایک شعر میں گویا ترجمہ کردیا ہے، یہیں کعبہ شریف میں غلافِ کعبہ پکڑ کر عرض کیا؎
_____________________________________________
4؎ کنز العمال:52-51/14(37913)، باب فی فضائل الامۃ،مؤسسۃ الرسالۃ
5؎ جامع الترمذی: 2/ 178، باب من ابواب جامع الدعوات، ایج ایم سعید