Deobandi Books

تسلیم و رضا

ہم نوٹ :

34 - 38
اعتراف کرتے ہوئے آپ سے مانگتے ہیں کیونکہ آپ کریم ہیں، اگر آپ کریم نہ ہوتے تو ہمارا منہ اس قابل نہیں تھا کہ آپ سے ہم کچھ مانگ سکتے، لیکن آپ کے ننانوے ناموں میں سے ایک نام کریم ہے اور کریم کی تعریف محدثین نے یہ کی ہے کہ
اَلَّذِیْ یُعْطِیْ بِغَیْرِ اسْتِحْقَاقٍ وَبِدُوْنِ الْمِنَّۃِ18؎ 
جو بلاحق اور بلاقابلیت دے دے، نااہلوں پر فضل فرمادے لہٰذا ہم اپنی نالائقی اور نااہلیت کے باوجود آپ سے مانگتے ہیں۔ ان شاء اللہ یہ دُعا رَد نہیں ہوگی، گنہگاروں کی دُعا بھی قبول ہوجائے گی، اگر یَاکَرِیْمُ کہہ کر مانگا ورنہ شیطان بہکاتا ہے کہ ارے! تیری دُعا کیا سنیں گے، تیرا منہ اس قابل کہاں؟ میں کہتا ہوں کہ ہم اپنا منہ کیوں دیکھیں، ہم اپنے اللہ کو کیوں نہ دیکھیں جو کریم ہیں۔
ایک بزرگ نے شیطان کو خوب جواب دیا جو ان کو اللہ کی رحمت سے مایوس کرنا چاہتا تھا۔ فرماتے ہیں؎
مجھے اس کریم مطلق کے کرم کا  آسرا  ہے
ابے او  گنہ کے بچے!  مجھے کیا  ڈرا  رہا  ہے
ایران کا ایک بادشاہ تھا، اس نے اپنے ملازم رمضانی سے کہا کہ رمضانی مگساں می آیند، اے رمضانی میرے پاس مکھیاں آرہی ہیں۔ اس نے کہا حضور! ناکساں پیش کساں می آیند، نالائق لائق کے پاس آرہی ہیں۔ اس کی عبارت کی لذت اور ادبیت کو دیکھئے کہ مگساں پر ناکساں کا قافیہ کیسا لگایا، بادشاہ نے اس کو بہت بڑا انعام دیا۔ مولانا شاہ عبدالغنی صاحب رحمۃ اللہ علیہ اس کو پڑھ کر مست ہوجاتے تھے۔ غضب کا جملہ کہا کہ نالائق لائق کے پاس آرہی ہیں۔ بس کیونکہ ہم نالائق ہیں جب ہی تو لائق کے پاس جارہے ہیں اپنے اللہ کے پاس جو کریم ہیں اورکریم وہی ہوتا ہے جو نالائقوں پر مہربانی کردے، جو لیاقت اور صلاحیت دیکھ کر دے وہ سخی تو ہوسکتا ہے کریم نہیں ہوسکتا۔ بس آپ کو زندگی بھر کے لیے اختر یہ نسخہ دے رہا ہے کہ جب بھی دعا مانگیں تو یہ سمجھ کر مانگیں کہ ہمارا پالا ایک کریم مالک سے ہےجو نااہلوں پر اپنی عطاؤں کی بارش کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے کہیے کہ اے اللہ! آپ کریم ہیں، ہم کو اپنی نالائقی کا اعتراف ہے، ہم کو 
_____________________________________________
18؎  مرقاۃ المفاتیح: 212/3، باب التطوع،  المکتبۃ الامدادیۃ، ملتان
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 پیش لفظ 5 1
3 تسلیم و رضا 7 1
Flag Counter