پیش لفظ
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
مُرشدی و مولائی حضرت اقدس مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب اطال اللہ بقاء ہم و ادام اللہ برکاتہم و انوارہم ۳ رمضان المبارک ۱۴۰۹ھ مطابق۱۰ اپریل ۱۹۸۹ء بروز دوشنبہ سفر ہندوستان سے واپس کراچی تشریف لائے، یہاں آکر معلوم ہوا کہ حفیظ الرحمٰن صاحب جو حضرت والا کے ہم وطن ہیں یعنی پرتاپ گڑھ کے رہنے والے ہیں اور پڑوس میں قریب ہی رہتے ہیں، ان کی والدہ کا انتقال ہوگیا اور صبح ہی تدفین ہوئی ہے۔اِنَّالِلہِ وَاِنَّآاِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔
اگلے دن ۴ رمضان المبارک ۱۴۰۹ھ مطابق ۱۱ اپریل ۱۹۸۹ء صبح تقریباً گیارہ بجے حضرت والا اُن کے گھر تعزیت کے لئے تشریف لے گئے اور گھر والوں کی تسلی کے لئے کچھ کلمات فرمائے۔ سننے والے جانتے ہیں کہ حضرت والا کے کلام میں اللہ تعالیٰ نے عجیب تاثیر عطا فرمائی ہے وہ یقیناً ایک سحر حلال اور ازدل خیزد بردل ریزد کا مصداق اور غمزدہ و شکستہ دلوں کے لئے ایک مرہم و تسکین ہے اور یو ں محسوس ہوتا ہے جیسے کسی نے آگ پر پانی ڈال دیا اور سامعین اپنے تمام غموں کو بھول کر اللہ کی محبت سے مست اور تسلیم و رضا کی کیفیت سے سرشار ہوجاتے ہیں اور بزبان حال کہتے ہیں ؎
خوشا حوادثِ پیہم خوشا یہ اشکِ رواں
جو غم کے ساتھ ہو تم بھی تو غم کا کیا غم ہے
بلکہ اس سے بھی بڑھ کر یہ حالت ہوجاتی ہے؎
اُس خنجرِ تسلیم سے یہ جانِ حزیں بھی
ہر لحظہ شہادت کے مزے لوٹ رہی ہے
یہ حضرت مرشدی دامت برکاتہم ہی کا شعر ہے۔ غرض حضرت والا کی تقریر کی لذت کو کیا بیان کروں، کانوں میں رَس گھلتا جاتا ہے اور دل میں اُترتا جاتا ہے، اور افسردہ دلوں کو بادۂ عشق حق سے سرمست کردیتا ہے ؎