Deobandi Books

تسلیم و رضا

ہم نوٹ :

31 - 38
کردیں گے، نتیجہ یہ ہوا کہ یہ تیجا چالیسواں چل پڑا۔ جیسے اکبر الٰہ آبادی نے کہا تھا؎
بُوٹ ڈاسن نے بنایا میں نے اِک مضموں لکھا
ملک  میں مضموں  نہ پھیلا  اور جوتا  چل  گیا
وہی معاملہ ہوگیا۔ یہ رسمیں چل پڑیں اور لوگ ان کو دین سمجھنے لگے حالانکہ ان کا دین سے کوئی تعلق نہیں۔ اب علماء سمجھاتے ہیں تو کہتے ہیں کہ صاحب یہ وہابی لوگ ہیں، ایک عمر تک رسموں میں مبتلا رہنے سے لوگ اسی کو دین سمجھنے لگے اور دین کی بات بتانے والے کو وہابی سمجھنے لگے، اس کی مثال ایسی ہے کہ اگر کسی پکی سڑک پر کچا مکان گرجائے اور سڑک پر دو دو فٹ مٹی جم جائے اور اسی حالت میں سو برس گذر جائیں تو لوگ کہتے ہیں کہ صاحب یہ ہمارے باپ دادا کے زمانے کی سڑک ہے، ہم اس پر چلتے آرہے ہیں لیکن ایک جاننے والے پُرانے شخص نے تاریخ دیکھ کر کہا کہ یہاں تو سیمنٹ کی پکی سڑک تھی اور اس نے پھاوڑا  لاکر کھدائی شروع کردی تو سب سے پہلے اس کو وہابی کا لقب ملے گا کہ یہ شخص ہمارے باپ دادا کے خلاف جارہا ہے لیکن اس نے لوگوں کی گالیاں برداشت کیں اور کہا کہ تم لوگ کچھ دن بعد میرا شکریہ ادا کروگے لہٰذا جب مٹی ہٹادی اور سیمنٹ کی سڑک نکل آئی تب لوگوں نے کہا کہ واقعی صاحب ہم معافی چاہتے ہیں، ہم تو کچی سڑک کو اچھا سمجھ رہے تھے لیکن اب پتہ چلا کہ پکی سڑک کتنی بڑی نعمت ہے۔
ایسے ہی علمائے دین حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی سڑک کو جب بدعت کی مٹیوں سے صاف کردیتے ہیں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کا راستہ مل جاتا ہے تب لوگوں کو پتہ چلتا ہے کہ کہاں باپ دادا کا طریقہ اور کہاں اللہ کے پیغمبر کا طریقہ۔
تو دوستو! یہ تیجا چالیسواں محض رسمیں ہیں، پیسے بھی ضائع ہو رہے ہیں، دیگیں چڑھ رہی ہیں، اس میں صرف واہ واہ ملتی ہے لیکن یہ سنت سے ہٹی ہوئی چیزیں ہیں، نہ مردے کا کوئی فائدہ نہ کرنے والوں کو کوئی ثواب۔
حضرت حکیم الامت مجدد الملت مولانا اشرف علی صاحب نور اللہ مرقدہٗ نے وصیت فرمائی تھی کہ جب میں مرجاؤں تو میرے گھر پر کوئی ایسا اجتماع نہ کرنا، جس کا دل چاہے وہ اپنے گھر پر تنہائی میں تلاوت کرکے مجھے ثواب پہنچادے۔ میں نے بھی اپنی والدہ کے انتقال پر یہی
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 پیش لفظ 5 1
3 تسلیم و رضا 7 1
Flag Counter