Deobandi Books

تسلیم و رضا

ہم نوٹ :

21 - 38
ایک شعر لکھ دیا تھا، اس شعر کو پڑھ کر گھر والوں کو تسلی ہوگئی، وہ شعر کیا تھا؟ فرماتے ہیں؎ 
لوگ  کہتے  ہیں  کہ  مظہر   مرگیا
اور   مظہر    درحقیقت    گھر   گیا
اللہ اکبر! کیا شعر ہے۔ لوگ کہہ رہے ہیں کہ مظہر مرگیا اور مظہر تو اپنے گھر گیا، پردیس سے اپنے وطن چلا گیا، جہاں سے آیا تھا اللہ میاں کے پاس،یہ مرنا نہیں ہے، تبدیلی ہے۔ جیسے ایک شہر سے دوسرے شہر آدمی منتقل ہوجاتا ہے، لہٰذا کوئی اپنے گھر جائے تو آپ کیوں اتنا زیادہ روتے ہیں۔
میں نے جہاں جہاں بیان کیا اس شعر کو سنتے ہی لوگوں کو بڑی تسلی ہوئی۔ ابھی الٰہ آباد میں بھی بیان کیا تھا۔ ایک صاحب بڑے رئیس زمیندار تھے، ان کو  ڈاکوؤں نے فائر کرکے شہید کردیا، ان کے برادرِ نسبتی انیس صاحب الٰہ آبادی ہمارے دوست ہیں۔ وہ کہنے لگے کہ بڑا    حادثہ پیش آگیا،سارے گھر والے بے چین ہیں، میں ان کے یہاں گیا اور تقریر کی، سب نے کہا کہ صاحب دل میں ٹھنڈک پڑگئی، ایسی تسلی ہوئی کہ غم بالکل ہلکا ہوگیا، جیسے ہے ہی نہیں۔      الحمدللہ تعالیٰ! اور تھوڑا سا غم ہونا بھی اللہ کی مصلحت ہے، یہ محبت کا حق ہے، مرنے والے کی محبت کا حق ہے لہٰذا غم تو ہوگا، وقت کے ساتھ آہستہ آہستہ ہلکا ہوجائے گا۔ تب ہی تو تسلی دینا سنت قرار دیا، غم نہ ہوتا تو تسلی دینا سنت ہی نہ ہوتا۔ کسی ایسے شخص کو جاکر تسلی دیجئے جس کو غم نہ ہو تو وہ کہے گا آپ مجھے کیوں پریشان کررہے ہیں، کہیں زخم نہ ہو اور مرہم لگائیے تو کہے گا کہ بھائی آپ مجھے بے وقوف سمجھ رہے ہیں۔ ارے! زخم تو ہے ہی نہیں، پھر مرہم سے کیا فائدہ۔
تو تسلی سنت جب ہے جب غم ہو۔ معلوم ہوا کہ پیاروں کے انتقال سے غم ہوتا ہے، اس لیے غم کو ہلکا کرنے کے لیے تعزیت کو سنت قرار دیا۔ اللہ سے زیادہ کون جانے گا جس نے ہمیں زندگی دی، جو غم اور خوشی کا خالق اور مالک ہے۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے والد حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا جب انتقال ہوا تو بہت لوگوں نے تعزیت کی لیکن ایک بدوی (دیہاتی) بزرگ آئے اور انہوں نے ایسی تعزیت کی جس سے حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کو بہت تسلی
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 پیش لفظ 5 1
3 تسلیم و رضا 7 1
Flag Counter