Deobandi Books

تسلیم و رضا

ہم نوٹ :

19 - 38
آپ سوچئے کہ جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ ہو اس کی کیا قسمت ہے اور اس کے لیے کتنی بڑی دولت کی بشارت ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ مکہ کے نومسلم قریش نوجوانوں کو کچھ بکریاں، کچھ بھیڑ، کچھ اونٹ زیادہ دے دیئے۔ تو شیطان نے بعض انصاری نوجوانوں کے دل میں یہ وسوسہ ڈالا کہ دیکھو ابھی تک رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ والوں سے زیادہ اُنس ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ مکہ والوں کو دیا اور ہم لوگوں کو نہیں دیا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو شیطان کے اس خطرناک زہریلے مکر سے مطلع فرمایا۔ آپ نے سارے صحابہ کو جمع کرکے فرمایا کہ اے مدینہ کے انصار! تمہیں شیطان نے بہکانے کی کوشش کی ہے۔ ہوشیار ہوجاؤ! یہ نہ سمجھو کہ چند بھیڑ اور بکریاں اہل قریش کو دینے کی وجہ سے میری محبت تمہارے ساتھ کم ہے، جو نومسلم ہیں ابھی جلد اسلام لائے ہیں،میں نے ان کی دلجوئی اور ان کو خوش کرنے کے لیے یہ چندبھیڑیں اور بکریاں دے دی ہیں، لیکن خوب غور سے سن لو! یہ قریش مکہ ابھی جب مکہ شریف کو واپس ہوں گے تو میری دی ہوئی چند بھیڑیں، چند بکریاں اور چند اونٹ لے کر جائیں گے اور اے مدینہ والو! تم جب مدینہ واپس ہوگے تو اللہ کے رسول کو اپنے ساتھ لے کر جاؤ گے، میرا مرنا جینا تمہارے ساتھ ہے۔ رسولِ خدا کی عظمت و قیمت تمہارے قلوب میں کیا ہے۔ بس صحابہ اس خوشی میں اتنا روئے کہ آنسو ان کی داڑھیوں سے بہہ رہے تھے۔11؎
تو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو بشارت دی کہ اگر تم سے کوئی چیز چھن گئی، تمہارے باپ چھن گئے، بیٹے کا انتقال ہوگیا تو اللہ تعالیٰ تو تمہارے ساتھ ہے جس پر ہزاروں جانیں قربان ہوں، اولاد قربان ہو، ایسی ذات پاک نے کیسی بشارت دی ہے۔
اور جدائی کا طبعی غم تو ہوتا ہی ہے۔ ظاہر بات ہے کہ ساتھ رہنے سے محبت ہوجاتی ہے جس سے ہم رونے لگتے ہیں اور رونے کی اجازت بھی ہے۔ مگر ایسی بات نہ نکالے کہ ہائے! میری ماں کیوں مر گئی اور اللہ نے کیوں اُٹھالیا؟ کیوں نہ لگاؤ، بس یہ کہو کہ اللہ مجھے اپنی ماں کی جدائی کا غم ہے،یہ کہنا بھی سنت ہے کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بیٹے کا جب انتقال ہوا تو
_____________________________________________
11؎   صحیح البخاری: 261-260/2،باب قول النبی انا بک لمحزونون- التاریخ ابن اثیر من سیرت المصطفٰی: 67/2 
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 پیش لفظ 5 1
3 تسلیم و رضا 7 1
Flag Counter