Deobandi Books

تسلیم و رضا

ہم نوٹ :

16 - 38
اِنَّا لِلہِ وَ  اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ10؎
حضرت حکیم الامت مجدد الملت مولاناا شرف علی صاحب تھانوی نور اللہ مرقدہٗ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس کلمہ اِنَّا لِلہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ میں زبردست تسلی کا مضمون بیان فرمایا ہے۔ اس آیت میں دو جملے ہیں ایک اِنَّا لِلہِ دُوسرا  وَ  اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ۔
اِنَّا لِلہِ کے معنی ہیں کہ ہم سب اللہ کے مملوک ہیں، غلام ہیں۔ لام ملکیت کے لیے آتا ہے یعنی ہم اپنی ذات کے مالک نہیں ہیں۔ اگر اپنی ذات کے مالک ہوتے تو خودکشی جائز ہوتی کیونکہ اپنی چیز میں آدمی کو تصرّف کا حق ہے۔ اگر ہم اپنی چیز ہوتے تو گلے میں پھندا ڈالنا جرم نہ ہوتا لیکن خودکشی اس لیے حرام ہے کہ تم اپنے مالک نہیں ہو،تم ہماری امانت ہو، ہماری چیز ہو، تمہیں اپنا گلا گھونٹنے کا کیا حق ہے۔ یعنی خودکشی کے حرام ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ہم خود اپنے مالک نہیں ہیں، ہمارے جسم و جان کا مالک اللہ تعالیٰ ہے۔ اِنَّا لِلہِ کے معنی ہیں کہ ہم سب اللہ کی ملکیت میں ہیں، لہٰذا اس جملہ میں ایک تسلی تو یہ ہے کہ جب ہم مملوک اور غلام ہیں تو مالک کو ہمارے اندر ہر تصرف کا حق حاصل ہے، جو چیز چاہے ہم کو دے جس کو چاہے ہم سے لے لے۔ کیونکہ صدمہ کے وقت میں دو خیال آتے ہیں ایک تو یہ کہ ہماری ماں، باپ یا شوہر کو جلدی بلالیا، ہم سے چھین لیا۔ اس کا جواب اِنَّا لِلہِ ہے کہ تمہاری ماں، باپ، شوہر یا بیٹا بھی ہماری ملکیت، تم بھی ہمارے غلام۔ اور مالک کو اپنی ملکیت میں تصرف کا حق حاصل ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک عمر ساتھ رہنے سے محبت ہوجاتی ہے۔ اب اس عزیز کی جدائی سے جو غم ہورہا ہے اس کا کیا علاج ہے۔ تو اس کے لیے تسلی کا دوسرا مضمون وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُونَ میں نازل فرمادیا کہ اللہ ہی کی طرف ہم سب کو لوٹ کر جانا ہے۔یہ جدائی دائمی تھوڑی ہے، عارضی جدائی ہے۔ آج تمہاری ماں گئی ہے، ایک دن تم بھی ہمارے پاس واپس آؤگے؎
آج  وہ  کل  ہماری  باری  ہے
اور وہاں سب اعزاء و اقرباء پھر مل جائیں گےاور پھر کبھی جدائی نہ ہوگی لہٰذا کیوں گھبراتے ہو۔
_____________________________________________
10؎   البقرۃ: 156
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 پیش لفظ 5 1
3 تسلیم و رضا 7 1
Flag Counter