Deobandi Books

تسلیم و رضا

ہم نوٹ :

13 - 38
فرماتے ہیں کہ جس نے سر بنایا اس کا بھی کبھی شکر ادا کیا؟ اگر خدا سر نہ دیتا تو تم ٹوپی کہاں رکھتے، گردن پر  رکھتے؟
لہٰذا ذرا اس کا بھی خیال کیا کرو کہ جس نے سر عطا فرمایا، اس کا کتنا شکریہ ادا کرنا چاہئے۔ اس سر کا شکریہ ادا کرو یعنی سجدہ کرو، نمازیں پڑھو۔ جو شخص نماز میں سر سجدہ میں رکھتا ہے، سر کا شکریہ ادا کرتا ہے، جب اللہ کے سامنے جھک گیا آدھے دھڑ کا شکریہ ادا ہوگیا اور جب سجدہ میں سر رکھ دیا تو پورے اعضاہی بچھ گئے۔ سجدہ میں پورا شکر ادا ہوتا ہے، اس لیے اتنا قرب بندے کو کہیں نہیں ملتا جتنا سجدہ میں ملتا ہے۔
شاعر کہتا ہے جس نے سجدہ کا عجیب نقشہ کھینچا ہے؎
پردے  اُٹھے  ہوئے  بھی  ہیں   اُن  کی   اِدھرنظر بھی  ہے
بڑھ  کے  مقدّر  آزما  سر  بھی  ہے  سنگِ  در  بھی  ہے
سنگِ در دروازے کی چوکھٹ کو کہتے ہیں، جہا ں سجدے میں سر ہوتا ہے اللہ کی چوکھٹ ہے وہ۔ اور فرماتے ہیں؎
دن  میں  اسی  کی  روشنی   شب   میں  اسی   کی  چاندنی
سچ تو یہ  ہے کہ  رُوئے یار شمس بھی  ہے  قمر  بھی  ہے
اگر چاند سورج کو اللہ روشنی نہ دیتا تو یہ کہاں سے لاتے، سورج کی روشنی بھیک ہے اللہ کی۔ مولانا رومی فرماتے ہیں؎
گر  تو  ماہ  و  مہر را  گوئی  خِفاء
اے خدا! سورج اور چاند کو اگر آپ فرمادیں کہ تم اندھیرے ہو بے نُور ہو اور؎
گر  تو  قد  سر و  را  گوئی  دوتا
اے اللہ! اگر آپ قدِّ سرو کو جو بالکل سیدھا ہوتا ہے اور شاعر لوگ اپنے محبوبوں کے قد سے تعبیر کرتے ہیں لیکن اے اللہ! آپ قدِ سرو کو یعنی سرو کے درخت کے قد کو کہہ دیں کہ تُو ٹیڑھا ہے اور؎
گر  تو  کان  و  بحر  را  گوئی  فقیر
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 پیش لفظ 5 1
3 تسلیم و رضا 7 1
Flag Counter