علماو مدرسین اور کسب معاش
حالیہ مضاربہ اسکینڈل نے سب کچھ ہی لپیٹ کر رکھ دیا۔ عزت، شہرت اور دولت۔ کئی چولہے بجھ گئے، کئی پگڑیاں اچھلیں اور کئی ایک بدگمانیاں وجود میں آئیں۔ عوام وخواص پریشان بھی ہیں اور پشیمان بھی۔ سب سے بڑھ کر علما و مدرسین نے نقصان اٹھایا۔ پیسے کا، ساکھ کا اور شرعی اصطلاحات کا۔ لوگوں نے ان کے کردار پر انگشت نمائی کی اور شریعت کے اس عظیم پہلو کو ناقابل اعتبار قرار دیا۔ عوام الناس اپنی فطرت کے مطابق آدمی اور آدمی ، نیز مضاربہ اور مضاربہ میں فرق نہ کر سکے۔ تاہم اس سانحے پر جس قدر افسوس کیا جائے، کم ہے۔ علما کی نسبت سے یہ حادثہ کوئی پہلی دفعہ پیش نہیں آیا۔ ایسا ماضی قریب میں بھی کئی بار پیش آچکا ہے۔ لوگ ایک ہی سوراخ سے بار بار ڈسے جاتے رہے۔ اگر غور کیا جائے تو ہر بار سبب ایک ہی تھا۔ وہ ہے: زندگی کی گاڑی کھینچنے کے لیے رقم کا ناکافی ہونا۔ ساتھ ساتھ علمی خدمات میں کل وقتی مصروفیت۔ ایسے میں شاطر لوگ علما کی مجبوری سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں۔ انہیں بیٹھے بٹھائے خاصے بھاری منافع ملنے کا جھانسہ دیتے ہیں۔ تب ان کے اس دام ہمرنگِ زمیں سے کوئی بچ نہیں پاتا۔ لہذا سوچا جانا چاہیے کہ اس ضرورت کا کامیاب ترین حل کیا ہے؟
اس میں شک نہیں کہ اس روز افرزوں مہنگائی میں محدود تنخواہوں میں گزارا ہرگز آسان نہیں۔ ضروریات ہی پوری کرنا مشکل ہیں تو کوئی خواہشات کے لیے بھلا کیونکر سوچے گا۔
اس حوالے سے سب سے بنیادی کردار مہتمم حضرات کا ہے۔ مدارس کے ارباب حل و عقد ایک عالم دین کو24 گھنٹے کا ملازم رکھتے ہیں۔
تنخواہ عموما 5ہزار سے زیادہ نہیں ہوتی۔ زیادہ کا مطالبہ ہو تو مختلف انداز سے دھمکی آمیز رویوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ آپ خود سوچیے ایک مزدور کم ازکم 5سو روپے دیہاڑی ضرور وصول کرتا ہے۔ یوں وہ بھی مہینے بھر کے 15ہزار ضرورکما لیتا ہے۔ کیا آپ اپنے مدرس کو ایک مزدور کی حیثیت بھی دینے کو تیار نہیں ؟ کیاآپ خود بھی اسی عسرت سے زندگی بسر کر رہے ہیں جس طرح آپ کا ماتحت مدرس؟ اس کے ساتھ ساتھ آپ کا مطالبہ یہ بھی ہے کہ وہ مدرسے کے تمام انتظامی امور انجام دے اور آپ اسے اضافی ایک روپیہ بھی نہ دیں۔ آپ کا ’’عین شرعی قانون‘‘ اس پر یہ تازیانہ بھی برساتا ہے کہ وہ فراخی رزق کے لیے اپنے فارغ اوقات میں کوئی سرگرمی اختیار کرنے کا مجاز نہیں۔ آپ ’’کارِ مدرسہ‘‘ کے سلسلے میں ملکوں ملکوں سیر کرتے ہیں اور آپ کے ماتحتوں کی تنخواہ تین تین ماہ لیٹ ہوتی ہے۔ یہ ناسور جانے کب اس طبقے کی جان چھوڑے گا ؟؟ مالی ضروریات فراوانی کے ساتھ پوری کرنے کے لیے دوسرا کردار خود علما و مدرسین کا ہے۔ عدم واقفیت، شرم اور بلاوجہ کی سستی ہمیں برے دن دیکھنے پر مجبور کرتی ہے۔ یہ حالات و واقعات سے ناواقفیت ہی کا نتیجہ ہے کہ نفعے کے ایسے تناسب پر یقین کر لیا گیا جو ایک سمجھ دار تاجر کے نزدیک ہرگز ممکن نہیں تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ کوئی جائز پیشہ اختیار کرنے سے شرماتے ہیں۔ حالانکہ اس کی کوئی حاجت نہیں۔ خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم تاجر تھے۔ باقاعدہ بزنس کیا اور بزنس کے بے شمار فضائل بتلائے۔ دوسری جانب علمائے کرام کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو کوئی ایسا پیشہ نہیں جو علمانے خود اختیار نہ کیا ہو۔ مولانا قاضی اطہر مبارک پوریؒ نے اپنی کتاب ’’علما اور کسب حلال‘‘ میں ایک طویل فہرست دی ہے۔ جس کے مطابق روئی دھننے سے لے کر کتابیں فروخت کرنے اور تعمیرات تک ہر چھوٹا بڑا پیشہ علما نے اختیار کیا۔ رزق کی فراوانی کے لیے۔ حلال کمائی کے لیے۔ محتاجی اور کسی کا دست نگر بننے سے بچنے کے لیے۔ اس سے ظاہر ہے کہ علمائے کرام نے اپنے اپنے وقتوں میں کسب حلال میں کسی بھی شرم اور حجاب کو کبھی آڑے نہیں آنے دیا۔
اگر تجارت کا مزاج یا فرصت نہیں تو کوئی ایسا پیشہ اختیار کیا جا سکتا ہے جو علم سے وابستہ رکھتے ہوئے آپ کی ضروریات کا کفیل بھی ثابت ہو۔ اکابر دیوبند کے حالات زندگی کا جائزہ لیں تو یہ چیز نمایاں نظر آئے گی۔ بعض حضرات تو اپنا کل خرچ ہی کسی ملازمت کے ذریعے پورا کرتے تھے۔ شیخ الحدیث مولانا محمد زکریاؒ نے لکھا ہے : ’’حضرت گنگوہیؒ نے اپنی متعدد تقریظوں میں خود کو کتب فروش لکھا ہے۔‘‘ اسی طرح حضرت نانوتویؒ کے متعلق تحریر فرماتے ہیں: ’’اعلی حضرت نانوتوی رحمہ اللہ نے دارالعلوم دیوبند سے کبھی تنخواہ نہیں لی، جیسا کہ سوانح قاسمی جلد1، صفحہ 536 میں ہے۔ آپ نے ابتدا میں مطبع احمدی میرٹھ میں ملازمت کی۔ یہ چھاپہ خانہ ان کے استاذ مولانا احمد علی صاحب نے قائم کیا تھا۔ آپ اس میں کتب کی تصحیح کیا کرتے تھے۔‘‘ آج کل کی اصطلاح میں اسے ’’پروف ریڈنگ‘‘ کہتے ہیں۔ اگر کسی عالم کو کہیں موقع مل جائے تو وہ اپنی شان سے گرا ہوا کام سمجھنے لگتا ہے۔ حضرت شیخ الحدیثؒ نے اپنے والد گرامی مولانا یحیٰ کاندھلویؒ کے بارے میں لکھا ہے: ’’وہ کتابوں کی تجارت کیا کرتے تھے۔‘‘ (فضائل تجارت
) آپ کمپوزنگ سیکھ سکھتے ہیں۔ کسی اشاعتی ادارے سے وابستہ ہو کر مختلف امور میں حصہ لے سکتے ہیں۔ شام کے اوقات میں کوئی پیشہ اختیار کر سکتے ہیں۔ جسے اپنانے میں کوئی حجاب نہیں ہونا چاہیے۔ یہ عاجز کراچی میں ایک مہتمم صاحب کو جانتا ہے جو صبح کے اوقات میں تدریسی اور انتظامی فرائض سرانجام دیتے ہیں اور شام سے رات تک خود رکشہ چلاتے ہیں۔وہ اپنے مدرسے کو معاش اور کفاف کا ذریعہ نہیں سمجھتے۔ انہوں نے بظاہر عزت نفس کی قربانی دے کر خود کو سب سے بڑا عزت دار اور خوددار بنا لیا ہے۔
بہرکیف! یہ بات طے ہے کہ رقم کمانے کی کوئی شارٹ کٹ نہیں ہوتا۔ جو ہوتا ہے وہ ناجائز ہوتا ہے یا بہت بڑے خطرے کا باعث۔ ہماری کئی ایک بڑے تاجروں سے ملاقات ہوئی۔ انہوں نے بتایا: کاروبار کو کوئی نفع بخش شکل دیتے دیتے کبھی تو ایک نسل گزر جاتی ہے۔ چہ جائیکہ کسی شارٹ کٹ کے انتظار میں رہا جائے یا اس میں مبتلا ہوا جائے۔