Deobandi Books

ہفت روزہ ضرب مؤمن 18 تا 24 جولائی 2014

ہ رسالہ

2 - 8
فلسطینیوں کادُکھ
’’فلسطین فلسطینیوں کا ہے… ‘‘ہر فلسطینی کا یہی کہنا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو صدیوں سے یہاں آباد ہیں۔ یہاں کے چپے چپے پر ان کے آباء واجداد کی جبینوں کے نشانا ت ثبت ہیں۔ یہ وہ خطہ ہے جسے خلافتِ عمر فاروقؓ میں فتح کیا گیا تو پھر یہاں توحید کے زمزمے کبھی خامو ش نہیں ہوئے۔ ہاں! چوتھی صدی ہجری میں یہاں یورپی طاقتوں نے قدم ضرورجمائے اور بیت المقدس پر بھی قبضہ کیا،مگر 90 سال بعد سلطان صلاح الدین ایوبی نے اُمّتِ مسلمہ کو جہاد کا بھولا ہوا سبق یاد دلاکر فرنگیوں کو شام کے ساحل سے ہمیشہ کے لیے مار بھگایا۔ فرنگی اس کے بعد صدیوں تک اس خطے کو للچائی ہوئی نگاہ سے دیکھتے رہے، مگر مسلمانوں کے جذبۂ مقاومت کے آگے انہیں کبھی کامیابی نہیں ہوئی، البتہ 19 ویں صدی میں انہوںنے یہودیوں کو اپنے مقاصد کے لیے بھرپور انداز میں استعمال کیا۔ برطانیہ نے قیام اسرائیل اور خلافتِ عثمانیہ کو سبوتاژ کرنے کے منصوبوں کی پوری سرپرستی کی۔ خلیفہ عبدالحمید ثانی نے فلسطین کا ایک انچ بھی یہودی سوداگروں کو فروخت کرنے سے صاف انکار کردیا تھا۔ اس کی پاداش میں مصطفی کمال پاشا جیسے فری میسنری کو خلیفہ کے خلاف استعمال کیا گیا۔ 1908ء میں بغاوت کرکے ترکی میں جمہوریت قائم کی گئی اور خلافت کو برائے نام حیثیت دے دی گئی۔
پہلی عالمگیر جنگ کے بعد دنیا میں بڑے بڑے انقلابات آئے۔ خلافتِ عثمانیہ کا خاتمہ ہوگیا۔ جب ترکی کے حصے بخرے ہوچکے تو 1917ء میں برطانیہ نے اعلان کردیا کہ فلسطین میں یہودیوں کو ملنا چاہیے، یہ ان کا حق ہے۔ اُس وقت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ نے یہ فتویٰ دیا تھا کہ فلسطین میں

کسی بھی مسلمان کے لیے یہودیو ں کو اپنی زمین بیچنا حرام ہے۔ بہرکیف برطانیہ نے عالمِ اسلام کے احتجاج کو نظرانداز کرتے ہوئے فلسطین یہودیوں کی آبادکاری شروع کردی۔ تین عشروں بعد دوسری عالمی جنگ چھیڑی گئی۔ اس بارصہیونیوںکے ہاتھوں اقوام متحدہ وجود میں آئی۔ جس کے بعد نومبر 1947ء میں برطانیہ نے اعلان کیا کہ یہود کو اُن کا وطن ملے گا، فلسطین میں آزاد یہودی مملکت ناگزیر ہے۔ اقوامِ متحدہ کے قیام کے 3 سال بعد 1948ء میں امریکا کی ایک ریاست کے جج مسٹرسٹرونگ نے ’’خیانت کے علمبردار‘‘ کے نام سے ایک کتاب لکھی جس میں اس نے انکشاف کیا 1897ء میں ہونے والی پہلی عالمی صہیونی کانفرنس میں لیگ آف نیشنر کا تصور ایک باقاعدہ زمانی ترتیب کے ساتھ پیش کیا گیا تھا کہ بالترتیب چند طے شدہ اقدامات کے بعد عالمی ادارہ وجود میں لایا جائے گا۔ اُس کانفرنس میں یہ بھی اعلان کردیا گیا تھا کہ ایسے ادارے کے قیام کے بعد یہودی مملکت کا خواب شرمندۂ تعبیر ہوتے دیر نہیں لگے گی۔


٭ طوفان خیز موجوں میں دوسروں کی ڈوبتی کشتی کو اطمینان سے دیکھنے والے خود بھی زیادہ دیر تک موجوں کی قہرانگیزی سے محفوظ نہیں رہتے۔ ٭

چنانچہ یہی ہوا۔ اقوام متحدہ کے تشکیل پانے کے کچھ ہی عرصے بعد 1947ء میں فلسطین کو یہودیوں اور مسلمانوں کے درمیان تقسیم کرنے کی قرارداد پیش کی گئی۔ اس رائے شماری میں تمام رکن ملکوں کو شامل نہیں کیا گیا تھا، بلکہ چند مخصوص ممالک کو ووٹ دینے کا حق دیا گیا تھا۔ اس کے باوجود یہ قرادداد اتنی بے رحمانہ تھی کہ اس کی مخالفت میں پانچ اور حق میں صرف تین ووٹ آئے۔ قرارداد کو منظور کروانے کے لیے تین ووٹ اور چاہیے تھے۔ چنانچہ بدترین دھاندلی کرتے ہوئے رائے شماری میں فلپائن، ہنگری اور لائبیریا جیسے چند غریب ترین ممالک کو بھی شامل کرلیا گیا۔ ان پر یہودیوں کے حق میں ووٹ دینے کے لیے دباؤ ڈالا گیا۔ ان قحط زدہ ملکوں کی حکومتوں کو مالی رشوتیں بھی دی گئیں۔ اس طرح صہیونی لابی نے اسرائیل کے قیام کی قرارداد منظور کرائی۔
اُس وقت فلسطین میں مقامی مسلمان 94 فیصد اور یہودی صرف 6 فیصد تھے، مگر قراداد کی منظوری کے بعد یہ اعلان کیا گیا
فلسطین میں آباد 33 فیصد یہودیوں کو اس ملک کا 55 فیصد حصہ ملے گا، جبکہ 67 فیصدفلسطینی مسلمانوں کو 45 فیصد رقبہ دیا جائے گا۔ 33 فیصد یہود اور 67 فیصد فلسطینیوں کا پرچار اقوامِ متحدہ کی اپنی مردم شماری کی بنیاد پر کیا جارہا تھا جو دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف تھا۔ پورے عالمِ اسلام میں اس کے خلاف شور ہوا، مگر کوئی شنوائی نہ ہوئی۔ چنانچہ 14 مئی 1948ء کو اسرائیل کے قیام کا اعلان ہوگیا۔ اس کے قیام کے 10 منٹ بعد امریکا نے اسے قبول کرلیا، حالانکہ مسلمانوں کے علاوہ دیگر غیرمسلم ممالک بھی اس بے انصافی پر احتجاج کر رہے تھے۔ سب کو خطرہ تھا کہ اسرائیل کے قیام سے ان کے مفادات خطرے میں پڑ جائیں گے، لیکن کسی کی ایک نہ سُنی گئی۔ امریکا کے ساتھ ایک اور بڑی طاقت روس بھی نے اسرائیل کی حمایت کا اعلان کیا۔
نومبر 1948ء میں جب فلسطین کی جگہ اسرائیل قائم ہوا تو اس کا رقبہ 7993 مربّع میل تھا،مگر صہیونیوں نے اس پر اکتفا نہیں کیا۔ اسرائیل کی صہیونی حکومت مسلسل گرد و نواح کی اسلامی مملکتوں پر تاخت و تاراج کرتی رہی۔ شام کے بڑے علاقے پر قبضہ کرلیا حتیٰ کہ 5 جون 1968ء کو اسرائیل نے القدس پر بھی قبضہ کرلیا۔ عالم اسلام کے سر سے خلافت کی چادر اُترے پون صدی سے زیادہ مدت بیت گئی ہے… اور اتنا ہی عرصہ ہوا ہے کہ فلسطین فلسطینیوں کا وطن ہوکر بھی ان کا نہیں ہے۔ وہ اپنے ہی وطن میں پردیسی ہیں۔ پردیسی بھی نہیں، بلکہ قیدی۔ قیدی بھی ایسے جن کے لیے کوئی قانون نہ ہو۔ جنہیں جس قدر چاہے مارا جائے، پیٹا جائے، روندا اور کچلا جائے۔ ان کی جان و مال اور عزت و آبرو سے کھیلا جائے، ان کے گھروں کو فضائی بمباری سے اڑا دیا جائے، ہسپتالوں میں قتل عام کیا جائے… کوئی پوچھنے والانہیں ہے۔ حالیہ دنوں میں فلسطین پر اسرائیل کی جارحیت ایک بار پھر اس تلخ حقیقت کا اعادہ کررہی ہے۔ غزہ کی پٹی خاص کر اسرائیل کا ہد ف ہے جہاں حماس کی شہری حکومت قائم ہے۔ اسرائیل کو یہ بھی برداشت نہیں کہ حماس اپنے دفاع کے لیے کوئی اسلحہ پاس رکھ سکے۔ حماس کی راکٹ باری کا بہانہ بناکر شہری آبادی کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ صرف منگل کے دن غزہ میں 50 مقامات پر فضائی بمباری ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ اسرائیلی بحریہ بھی ساحل پر گولے داغ رہی ہے۔ یہ سلسلہ ایک ہفتے سے جاری ہے، اس لیے بعض مبصرین کے خیال میں شہیدوں اور زخمیوں کے جو اعداد و شمار بتائے جارہے ہیں وہ غزہ کی صورتحال کی صحیح عکاسی نہیں کررہے اور اتنے بڑے پیمانے پر بمباری سے ہونے والے جانی و مالی نقصانات بیرونی دنیا کے اندازے سے کہیں زیادہ ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر فلسطینی کس جرم کی سزاپارہے ہیں؟ کیا وہ عالمِ اسلام کا حصہ نہیں؟ وہ کلمہ گو نہیں؟ ان کاقبلہ کوئی اور ہے؟ آخر امت مسلمہ ان کے مسائل سے لاتعلق کیوں ہے؟ چندسال پہلے تک پھر بھی یہ رجحان تھا اسرائیلی حملوں کی کم ازکم زبانی مذمت کردی جاتی تھی، مگرا ب تو مکمل خاموشی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ مسلم اُمہ کے سیاست دان یہودیو ںکے خلاف کچھ کہنے پر کسی خود عائد کردہ پابندی کو نبھارہے ہیں۔ عرب ممالک کا کردار سب سے زیادہ افسوسناک ہے کہ انہوں نے کبھی بھی فلسطین کے مسئلے کوقرارِ واقعی اہمیت نہیں دی۔ مصر کو دیکھیے تو اس کی نئی آمرانہ حکومت پورے طور پر اسرائیل کے شانہ بشانہ اور حماس کے خلاف ہے۔ عالم اسلام کو اسرائیلی مظالم کے خلاف جلد کوئی مضبوط موقف اختیار کرنا ہوگا ورنہ جو حشر آج فلسطین کا ہورہا ہے، وہی ہر مسلم ملک کا ہوگا، کیونکہ طوفان خیز موجوں میں دوسروں کی ڈوبتی کشتی کو اطمینان سے دیکھنے والے خود بھی زیادہ دیر تک موجوں کی قہرانگیزی سے محفوظ نہیں رہتے۔
Flag Counter