لہو میں ڈوبا غزہ
غزہ ایک مرتبہ پھر لہو میں ڈوب گیا۔ تباہ کن بمباری، آگ، دھوئیں اور بارود کی اسرائیلی سوغاتیں غزہ کے محصور بچوں، بوڑھوں، خواتین اور جوانوں نے وصول کیں۔ دنیا ورلڈ کپ فٹبال کے نتائج میں مگن ہے۔ کسی ٹیم کی شکست پر حیرت ہے تو کسی ٹیم کی فتح پر شادیانے۔ اسرائیل نے دنیا کو کھیل کی دلچسپی میں غرق پاکر موقع کو غنیمت سمجھا اور غزہ کو بموں کے نشانے پر رکھ لیا۔ دنیا کو اس سے تو دلچسپی ہے کہ فلاں ملک کا فلاں مشہور کھلاڑی زخمی ہوکر میدان سے نکل گیا ہے، لیکن اس پر اتنا درد اور فکر نہیں ہے کہ روزانہ درجنوں کی تعداد میں فلسطینی بچوں کی لاشیں قطار در قطار رکھی ہوتی ہیں جنہیں نمازِ جنازہ پڑھ کر دفن کردیا جاتا ہے تو اگلے دن اتنی ہی لاشیں اور گرتی ہیں۔ فلسطینیوں کا کام لاشیں اُٹھانا، دفن کرنا اور مزید لاشیں اُٹھانا رہ گیا ہے۔ شہیدوں میں 6 ماہ کے بچوں سے لے کر 80 سالہ بزرگوں تک سب شامل ہیں۔ یہ ارض شہیدان ایک مرتبہ پھر شہادتوں کی فصل اُگارہی ہے اور غزہ کے در و دیوار پر لہو کی برسات ہے۔
زخموں کے پھول ہیں، شہادتوں کے تمغے ہیں۔ یہ قصور کس کا ہے؟ کیا ان عرب ممالک کی کمزوری کا جن کے پاس دولت اتنی ہے کہ خرچ کرنے کے مواقع ختم ہوگئے ہیں؟ تیل اتنا ہے کہ غیرمسلم دنیا کوڑیوں کے مول لے جاتی رہتی ہے پھر بھی ختم نہیں ہوتا۔ یہ ممالک درجنوں کی تعداد میں ہیں۔ ایک دوسرے کے خلاف سخت ترین حساسیت رکھتے ہیں، مگر فلسطینیوں کی قطار در قطار لاشوں کو دیکھ کر نظر پھیردیتے ہیں۔ فٹبال میں دلچسپی لیتے ہیں، مہنگی مہنگی گاڑیوں، سامان تعیش، اونچی اونچی عمارتوں میں دوڑ اور مقابلہ بازی یہ ان کے مشغلے ہیں۔ کیا ان کو قصور دلائیں گے تو غزہ پر برستی آگ رُک جائے گی؟ کیا ان غیر عرب مسلم
ممالک کو ذمہ دار قرار دیا جاسکتا ہے جن میں حکمران طبقے کے ہاں اُمت مسلمہ کے حوالے سے وحدت اور ہمدردی کا جذبہ مدتوں سے ٹھنڈا پڑا ہوا ہے؟ جن میں اقتدار کی رَسّی کشی اور بدعنوانی کا چکر ہی واحد اہم سیاسی سرگرمی ہے؟ کیا ایک دوسرے کو نااتفاقی، بزدلی اور کم ہمتی کا طعنہ دینے سے یہ مسئلہ حل ہوجائے گا؟ کیا اس بین الاقوامی برادری کو، اقوام متحدہ کو، یورپ اور امریکا کو غزہ کی معصوم لاشوں کا قاتل قرار دیا جائے جن کی حمایت سے اسرائیل لاشوں کے انبار لگارہا ہے؟ کیا کسی کو ذمہ دار قرار دینے سے غزہ کے محصور و مجبور مسلمانوں کی دادرَسی ہوسکتی ہے؟ نہیں نہیں! ہر گز نہیں۔
ذمہ دار قرار دینے اور ایک دوسرے کو بزدلی کا طعنہ دینے کا عمل 50 سالوں سے جاری ہے۔ اس سے کچھ نہ ہوا، آیندہ بھی کچھ نہ ہوگا۔
ہاں! ایک ہی دروازہ ہے۔ ایک ہی راستہ جس سے اُمت مسلمہ کے یہ زخم، فلسطین کے بدن سے رستا ہوا یہ لہو تھم سکتا ہے۔ الٰہ العالمین کا دروازہ کھٹکھٹائو، روزہ کی مبارک ساعتوں میں اپنے ربّ کو گڑگڑا کر پکارو، اپنے گناہوں کی معافی مانگو، اپنی ذاتی اصلاح کرو، اس کو منائو جس کے ہاتھ میں کائنات کا تصرف ہے، جس کے ارادے کے بغیر کوئی پتہ بھی نہیں ہل سکتا، اگر تمہارا ایمان ہے کہ وہ ہر چیز پر قادر ہے تو یہ دعا ضرور کرو کہ وہ تمہارے دل جوڑ دے، تم میں اتفاق پیدا کردے، تمہیں ایک ہاتھ کی طرح متحد و مضبوط بنادے۔ اس کے ارادے کے بغیر تم بکھرے ہی رہوگے، منقسم رہوگے اور تمہاری کوئی طاقت نہیں بنے گی۔
قرآن کہتا ہے کہ اللہ نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے دلوں میں اُلفت پیدا کردی (جس سے وہ ایک مضبوط اور متحد اُمت بنے) حالانکہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) اگر پوری دنیا کی دولت صرف کرتے تو بھی ان کے دلوں میں وہ قرب اور وحد پیدا نہیں کرسکتے تھے۔ اس ربّ کو منائو جو عزت و ذلت سب کا خالق و مالک ہے۔ وہ تمہیں عزت دینا چاہے تو کوئی ذلیل نہیں کرسکتا اور اگر ذلیل کرنا چاہے تو کوئی عزت دے نہیں سکتا۔