Deobandi Books

ہفت روزہ ضرب مؤمن 18 تا 24 جولائی 2014

ہ رسالہ

3 - 8
عالمی استعمار کی نئی سازش’’گریٹر اسرائیل ‘‘
13 جون کو اسرائیل کے تین باشندے اغواء ہوئے۔ اسرائیل نے پورے ملک میں منادی کرادی۔ ملکی ادارے حرکت میں آئے۔ فورسز الرٹ کر دی گئیں، لیکن اس کے باوجود یہ نوجوان برآمد نہ ہو سکے۔ معاملہ 17 دن تک طوالت اختیار کرگیا۔ 17 دنوں بعد تینوں نوجوانوں کی نعشیں مغربی کنارے کے کھیتوں سے ملیں۔ اس کے ساتھ ہی اسرائیل آپے سے باہر ہو گیا۔ لاشیں ملتے ہی اسرائیل نے اس کا ذمہ دار حماس کو ٹھہرادیا۔ اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو نے واشگاف الفاظ میں حماس کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: ’’ہم ان تین نوجوانوں کی ہلاکت کا بدلہ لیں گے۔ ‘‘ جواب میں حماس کی طرف یہ بیان جاری کیا گیا: ’’اگر اسرائیل نے پنگا لینے کی کوشش کی تو اس پر جہنم کے دروازے کھول دیں گے۔ ‘‘
تینوں نوجوانوں کی نعشیں برآمد ہوتے ہی اسرائیل نے اپنی فوجیں بارڈر پر لگا دیں۔ فلسطینیوں کو زدوکوب کرنا شروع کر دیا۔ اسی دوران اسرائیلی فوجیوں اور فلسطینی نہتے نوجوانوں میں جھڑپ ہوئی جس میں ایک فلسطینی نوجوان ابو خضیر کو حراست میں لے لیا گیا۔ اسے عقوبت خانے لے جایا گیا۔ اس پر تشدد کے پہاڑ توڑے گئے۔ اس کے بعد اس کو زندہ جلا دیا گیا۔ اس بہیمانہ ظلم کی ویڈیو بھی بنائی گئی۔ اس کے بعد اسرائیلی فوجیوں نے اس ویڈیو کو پبلک کر دیا۔ یہ ویڈیو منظر عام پر آئی تو فلسطین میں آگ لگ گئی۔ یہ نہتے لوگ باہر نکلے۔ انہوں نے اسرائیلی فوجیوں کے مظالم اور جارحیت کے خلاف نعرے بازی کی۔ اس دوران معاملہ طول پکڑ گیا۔ اسرائیلی فوج نے فلسطینیوں پر میزائل داغنا شروع کردیے۔ یوں جواب میں حماس بھی میدان عمل میں آ گئی، لیکن نہتے فلسطینی پچھلے ایک ہفتے سے

اسرائیلی آگ و بارود کا لقمہ بن رہے ہیں۔ اسرائیل اب تک 200 سے زائد مقامات کو نشانہ بنا چکا جس کی وجہ سے یہ مقامات خاک کا ڈھیر بن گئے۔ ان حملوں میں اس وقت تک 120 معصوم فلسطینی شہید ہو چکے ہیں جن میں اکثریت معصوم بچوں اور خواتین کی ہے۔


اسرائیل کے چاروں طرف 26 اسلامی ممالک ہیں لیکن ان اسلامی ممالک کی خاموشی بذدلی اور امریکہ کے کاسہ لیں ہونے کی علامت ہے

3 اسرائیلی نوجوان کی ہلاکت کو بہانہ بناکر اسرائیل نے ایک بار پھر فلسطین پر ظلم کا راستہ کھولنے کا جواز تلاش کیا ہے۔ یہ راستہ کھل چکا اور اسرائیل کے جنگی جہاز فلسطین پر بمباری کر رہے ہیں۔ زمینی فوج فلسطین کی طرف پیش قدمی میں مصروف ہے، مگر پوری دنیا خاموشی سے نہتے فلسطینیوں کے چیتھڑے اڑتے دیکھ رہی ہے۔ فلسطینی اپنے ننھے بچوں کی نعشیں اٹھائے چیخ رہے ہیں۔ مائیں جگرگوشوں کے لہو سے لت پت چہروں کودیکھ کر فریاد کررہی ہیں۔ باپ اپنے بچوں، اپنی بیویوں کے چیتھڑے اعضاء تلاش کر رہے ہیں، لیکن دنیا کا ہر ملک، دنیا اور ان ممالک کے حکمران چاہے وہ غیر مسلم ہو یا مسلمان خاموش بت بنے بیٹھے ہیں۔ دنیا کے کسی ملک میں اتنی جرات نہیں وہ اسرائیل کی لگام کھینچ سکے۔
امریکی صدر نے اگرچہ اسرائیلی وزیراعظم کو فون کیا، لیکن یہ فون بھی حملے روکنے کے لیے نہیں، بلکہ جنگ بندی میں معاونت کے لیے کیا۔ اوباما کی جنگ بندی میں معاونت کی پیش کش کے جواب میں اسرائیلی وزیراعظم نے اسے کلی طور پر مسترد کرتے ہوئے فلسطین پر حملے تیز کرنے کا اعلان کر دیا۔ دنیا کے انسانی حقوق کے دعویدار ادارے اقوام متحدہ تک محتاج، کمزور اور لاغر دکھائی دے رہے ہیں۔ ان میں اتنی جرات نہیں کہ وہ بے لگام اسرائیل کو نکیل ڈال سکیں۔ طرفہ تماشا یہ کہ اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری بانکی مون جنہیں اسرائیل کی اس درندگی کا فوری نوٹس لینا چاہیے تھا، جنہیں ہنگامی بنیادوں پر اسرائیل سے جواب مانگنا چاہیے تھا، وہ مظلوم فلسطینیوں کی بجائے اسرائیل کی طرفداری اور ہمدردی کرتے نظر آئے۔ بانکی مون نے اسرائیل پردبائو بڑھانے کی بجائے حماس سے مطالبہ کیا کہ وہ اسرائیلی سرزمین پر راکٹ پھینکنا بند کر دے۔ امریکا، برطانیہ، جرمنی، فرانس اور اقوام متحدہ سے کوئی شکوہ نہیں، کیونکہ اسرائیل ان سب کا بغل بچہ ہے۔ یہ سب غیر مسلم نہ صرف اسرائیلی جارحیت کو سپورٹ کرتے ہیں بلکہ یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ فلسطین پر مظالم بڑھانے اور اسرائیل کو گریٹر اسرائیل بنانے کے درپے بھی ہیں۔ یورپی یونین بھی اسرائیل کے دوام اور فروغ کے لیے ہمہ تن مصروف عمل ہے۔ ہمیں ان غیر مسلموں سے توقع بھی نہیں رکھنی چاہیے، لیکن مجھے افسوس امت مسلمہ کی سردمہری پر ہے۔
آپ دیکھ لیں اس وقت دنیا میں 62اسلامی ممالک ہیں۔ ان ممالک میں سعودی عرب، ترکی، ملائشیا، انڈونیشیا، ایران اور پاکستان بڑے ممالک ہیں۔ اسرائیل کے چاروں اطراف 26اسلامی ممالک ہیں، لیکن ان اسلامی ممالک کی خاموشی معنی خیز ہونے کے ساتھ ساتھ بزدلی اور امریکا کے کاسہ لیس ہونے کی علامت ہے۔ فلسطینی صدر یاسر عرفات نے ایک بار کہا تھا: ’’اگر اسلامی ممالک کے عوام اسرائیل کی جانب ایک ایک بار تھوک ہی دیں تو اسرائیل اس تھوک میں ڈوب کر ختم ہو جائے‘‘،
مگر حقیقت یہ ہے کہ 62اسلامی ممالک میں کوئی ایک ایسا لیڈر، کوئی ایک ایسا حکمران نہیں جو اسرائیل کی اس درندگی کو روکنے کے لیے آواز بلند کرے۔ حیرت تو اس بات کی ہے تیل سے مال مالا ملک اگر ایک دن کے لیے یورپ اور امریکا کا تیل بند کرنے کا اعلان کر دیں۔ اسلامی ممالک صرف ایک ماہ کے لیے یورپ اور امریکا کی مصنوعات کا بائیکاٹ کر دیں تو گھنٹوں میں اسرائیلی جارحیت کا راستہ روکا جا سکتا ہے، مگر امت مسلمہ کی بے حسی کا عالم یہ ہے امریکا اور اس کے حواری عراق اورافغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجاچکے۔ تیونس، مصر اور شام کو نشانہ بنا چکے، لیکن ہم میں سے ہر ملک یہ سوچ کر خاموش ہے کہ ہم پوری اسلامی دنیا کے ٹھیکیدار ہیں۔ عراق جانے اور عراقی جانیں۔ افغانستان تباہ ہوتا ہے ہو افغان عوام خود نمٹیں۔ اسی طرح آج فلسطین میں لہو مسلم سے درودیوار رنگین ہیں۔ قبلہ اول کے منبرو محراب لہو سے تر ہیں۔ اسرائیلی غنڈے دندناتے مسجداقصیٰ میں وارد ہوتے ہیں۔ مسلمانوں کے پہلے قبلہ کی توہین کرتے ہیں، لیکن کہیں سے غیرت ایمانی جوش نہیں مارتی۔ آپ پوری دنیا پر نظر دوڑائیں۔ چہار جانب صرف مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ ہے۔
امت محمدی آج اپنے تمام تر اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر ارض مقدس سے یہودیوں کو پاک کرنے کا فیصلہ کر لے۔ مسلم دنیا کے صرف دس بڑے ممالک ایک پلیٹ فارم پر آجائیں۔ یہودیوں کے ارض مقدس سے انخلاء تک امریکا کا ہر قسم کا بائیکاٹ کر دیں تو ایک ہفتے کے اندر اندر مشرق وسطیٰ کے جسم کے ناسور’’ اسرائیل‘‘ کا خاتمہ ہو سکتا ہے، لیکن اس کے لیے جرات چاہیے۔ اس کے لیے غیرت ایمانی چاہیے۔ یہ جرات اور یہ غیرت ہاتھ میں کشکول لے کر سر نہیں اٹھا سکتی، لہٰذا پھر اپنی اپنی باری کا انتظار کریں۔ یا خدانخواستہ اس وقت کا بھی انتظار کریں جب ارض مقدس فلسطین تاریخ کے قبرستان میں دفن ہو جائے گا اور اس کی جگہ گریٹر اسرائیل کا پرچم لہرا ہو گا۔
Flag Counter