Deobandi Books

ہفت روزہ ضرب مؤمن 18 تا 24 جولائی 2014

ہ رسالہ

1 - 8
صہیونی جارحیت کا علاج
جنونی اسرائیل نے ایک بار پھر محصور فلسطینیوں کو آگ و خون کی بارش میں نہلادیا ہے۔ نہ ماہ رمضان کا تقدس نہ شہری آبادی میں موجود بچوں اور عورتوں کا لحاظ، ظلم و درندگی کی ایسی داستانیں ہیں کہ لگتا ہے انسانی احساسات نام کی چیز نہ یہود میں ہے نہ اس مغرب میں جو اس سے سو درجہ کم حرارت کے واقعے پر آسمان سر پر اُٹھالیتا ہے۔ ہم ذیل میں ایک دو واقعات کی روشنی میں یہود کی اس سنگدلانہ و خونخوار نفسیات کا تجزیہ کریں گے تاکہ سمجھ میں آسکے کہ اس شوریدہ سر قوم سے کس طرح نمٹا جاسکتا ہے۔
محمود شیت خطاب ماضی قریب میں عرب کے مشہور ادیب گذرے ہیں۔ کئی اعلیٰ پائے کی نگارشات ان سے یادگار ہیں۔ ان کو اللہ تعالیٰ نے سلیس اور شستہ قلم عطا فرمانے کے ساتھ انسانی زندگی کے رواں دواں واقعات کا مشاہدہ کرنے اور ان کی مدد سے دلچسپ تجزیہ کرنے کی نکتہ رس اور باریک بین صلاحیت عطا فرمائی تھی۔ انہوں نے کچھ وقت عراقی فوج میں بھی اچھے عہدے پر گذارا۔ اپنے مشاہدات پر مشتمل چھوٹے چھوٹے واقعات سے قیمتی سبق اَخذ کرکے ایک کتاب ترتیب دی جس کا نام ’’عدالۃ السمائ‘‘ یعنی آسمان کی عدالت یا ’’آسمانی فیصلے‘‘ تھا۔ اس میں وہ اپنا چشم دید واقعہ… جو یہودی نفسیات کا گہرائی کے ساتھ تجزیہ کرتا ہے… لکھتے ہیں کہ 1948ء میں میں عراقی فوج کی اس یونٹ میں خدمات انجام دے رہا تھا جو فلسطین میں ’’جنین‘‘ نامی مقام پر اسرائیلی فوجیوں کے بالمقابل ڈیوٹی دے رہی تھی۔ ان دنوں یہ مقام عراقی فوج کے زیر نگرانی تھا۔ جب عراق کی فوج یہاں سے چلی گئی تو یہ علاقہ انگریزوں نے ص

ہیونی فوج کے قبضے میں دے دیا۔ میری ذمہ داریوں میں سے ایک چیز یہ بھی تھی کہ اقوام متحدہ کے نمایندے جو وہاں مبصر کے طور پر موجود تھے،ا ن کی راہنمائی کروں یا ان کی ممکنہ ضرورت پوری کروں۔ ایک دن میں تین نمایندوں کے ساتھ ’’اُم الفخم‘‘ نامی گائوں کے قریب گشت کررہا تھا۔ یہ علاقہ اسرائیلی توپوں کی زد میں اسرائیلی مورچوں کے بالکل سامنے تھا اور کافی خطرناک سمجھا جاتا تھا۔ جب ہم اپنی گاڑیوں پر گشت کرتے ہوئے یہودی فوج کے قریب پہنچنے لگے تو میں نے اقوام متحدہ کے نمایندوں کو خبردار کیا کہ تھوڑی دیر بعد ہم اسرائیلی توپوں کی زد میں ہوں گے اور یہود ایسی سرکش اور بددماغ قوم ہے کہ اگر ہم مخصوص علاقے سے آگے بڑھے تو کچھ خبر نہیں کس وقت ہم پر بڑا فائر کھول دیں۔ انہوں نے کوئی پروا نہ کی، بلکہ ان میں سے ایک نے کہا: ’’ہم جنگِ عظیم دوم میں جرمنوں کے گولوں سے نہیں ڈرے تو کیا آج یہود کی گولیوں سے ڈریں گے؟ پھر بات یہ ہے کہ ہم نے آنے سے پہلے ان کی اعلیٰ کمان کو اطلاع دے دی ہے، انہیں ہماری یہاں موجودگی کا علم ہے، اس لیے اس کا احتمال بھی نہیں کہ وہ ایسی کوئی حرکت کریں گے۔ آپ بالکل مطمئن رہیں۔‘‘
میں نے انہیں سمجھایا کہ یہودیوں کو شرافت اور اصول و اخلاقیات کا لحاظ چھوکر بھی نہیں گذرا۔ میں انہیں جانتا ہوں وہ ضرور ہم پر گولہ باری کریں گے۔ ہمارے مارے جانے کو اپنی فتح سمجھیں گے اور پھر جب آپ کے نمایندے یہاں آئیں گے تو ان سے کہیں گے: ’’یہ فائر غلطی سے ہوگیا تھا۔ ہم اس کی تحقیق کرتے ہیں۔‘‘ پھر اس کے بعد کچھ بھی نہ ہوگا۔ میرے سمجھانے کے باوجود ان نمایندوں نے آگے جانے اور حدود سے گذرنے پر اصرار کیا۔ مجھے اندیشہ ہوا کہ اب میں نے کچھ کہا یا ان کا ساتھ نہ دیا تو یہ عراقی فوجیوں کو بزدلی کا طعنہ دیں گے جو میرے لیے ناقابلِ برداشت تھا، لہٰذا میں نے اس بے عزتی پر موت کو ترجیح دی اور خاموشی سے ان کے ساتھ ہولیا۔ وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ جیسے ہی ہم مخصوص جگہ سے آگے نکلے، یہودی فوجیوں نے بے دھڑک ہم پر گولہ باری شروع کردی۔ تمام نمایندے زمین پر لیٹ گئے۔ میں بھی زمین کا حصہ بن گیا۔ تھوڑی دیر تک زبردست گولہ باری ہوتی رہی۔ ہاون کے گولے میرے دائیں بائیں اور اوپر سے گذر رہے تھے۔ جب یہ طوفان تھما تو میں اپنی جگہ چھوڑ کر مہمان نمایندوں کی طرف دوڑا۔ ان میں سے ایک شدید زخمی تھا اور کہہ رہا تھا: ’’سچ ہے یہود سے زیادہ بزدل قوم دنیا میں نہیں، نہ ان میں شرافت ہے اور نہ انسانی ضمیر۔‘‘ چند گھنٹوں بعد وہ انتقال کرگیا۔.


غضب خدا کا! بے گناہ شہریوں کی بیسیوں لاشیں گرادی گئی ہیں۔ شہری آبادی سے اُٹھنے والے شعلوں نے آسمان ڈھانپ لیا ہے اور ہمارے ہاں کے اسرائیلی مُلّا، مسجد اقصیٰ کی تولیت کے لیے فکرمند رہنے والے اسکالر مُلّائوں سمیت دنیا بھر کی زبانیں خاموش ہیں اور خاموش ہی رہیں گی، کیونکہ یہود کی لالی پاپ ہوتی ہی ایسی ہے کہ زبان تالو سے چپکا دیتی ہے۔

اس نمایندے کا آخری جملہ بہت حد تک یہودی نفسیات کی پیچیدہ گرہیں کھولنے میں مدد دیتا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ ان میں نہ خاندانی شرافت و اخلاقیات ہیں نہ انسانی اقدار کا انہیں کچھ لحاظ ہے۔ تبھی تو ان پر متعدد مرتبہ خدائی عذاب کا کوڑا برسا اور انہیں القدس کی زمین سے دھتکار کر جلاوطن کردیا۔ اب 4 ہزار سال کے بعد واپسی ہوئی ہے، لیکن ان کی فطرت نہیں بدلی۔ وہی سنگدل فطرت جس کے تحت یہ انبیاء و اولیاء کو شہید کرتے نہیں شرماتے تھے، آج فلسطینی مسلمانوں کا قتل عام کررہی ہے اور جس طرح ان کے انبیاء و حواری بے چارے اکیلے اور مادّی طور پر بے سہارا ہوتے تھے، اسی طرح آج فلسطینی مسلمان بے سہارا ہیں۔ روئے زمین پر ترکی کے علاوہ ان کی حمایت میں دو لفظ کہنے والا نہیں۔
دوسرا واقعہ میرے ایک جاننے والے صاحب کا ہے۔ انہیں فلسطین جانے اور سجدہ گاہ انبیاء میں ماتھا ٹیکنے کا بہت شوق تھا۔ میں نے ان سے عرض کیا کہ ویزا لے کر ایرپورٹ کے ذریعے جانا تو صرف ان کے لیے ممکن ہے جو اپنا ضمیر یہود کے ہاتھ گروی رکھ چکے ہوں، تبھی تو یہ فقیر ان حضرات کو جو خود کو عالم بھی کہلواتے ہیں اور اسرائیل کی یاترا بھی باضابطہ طریقے سے کرتے ہیں، ’’اسرائیلی مُلّا‘‘ کہتا ہے۔ چاہے وہ اس کی جو بھی تاویل کریں، لیکن سچ یہ ہے کہ یہود کی رضاجوئی کی قیمت وہ اپنے ایمان کی فروختگی کی شکل میں دے چکے ہیں۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ اردن کی سرحد سے جانے والے مغربی سیاحوں کی ٹولی میں شامل ہوکر راہداری بناکر چلے جائیں۔ پاکستانی پاسپورٹ چھپاکر کر رکھ دو اور عام حلیے میں ارمان پورا کر آئیں۔ اس کے علاوہ بھی میں نے انہیں چند گُر کی باتیں بتائیں۔ انہوں نے بتایا کہ آپ کی بہت سی ہدایات پر عمل کرنے کے باوجود جب میں اردنی فوجی کے پاس سے گذرا تو اس نے کہا اس حلیے میں تمہیں یہودی فوجی گولی پہلے مارے گا بعد میں مجھے کوسے گا۔ یہ لوگ چونکہ بزدل بہت زیادہ ہیں، پھر انہیں مغربی اقوام کی پشت پناہی مل چکی ہے، لہٰذا یہ خود کو انتہائی خونخوار ظاہر کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ خاندانی بزدل کو کسی عیار کندھے کی طاقت مل جائے تو وہ بائولا بھیڑیا بن جاتا ہے۔ اسرائیل کے سرپرست مشرق وسطیٰ کو تقسیم کرکے مسلمانوں کو اپنی بقا کی فکر میں ڈال چکے ہیں۔ صدر صدام کے
بعد ان کے سامنے کوئی رکاوٹ نہیں۔ یہ عرب ممالک میں واحد شخص تھا جس نے عالمی معاشی دہشت گردوں کو اپنے ملک کی دولت سے کھیلنے کی اجازت نہ دی تھی۔ اس کے بعد اللہ ہی اللہ ہے۔ جنرل سیسی جیسے یہودن جنے کے لیے کروڑوں ڈالر کی امداد ہے اور صدر مرسی کے لیے آہیں اور آنسو بھی نہیں، لہٰذا جبکہ مسلمان اپنے زخموں کو رفو کرنے سے فارغ نہیں، یہود کو کھل کھیلنے کی چھٹی مل گئی ہے۔
غضب خدا کا! بے گناہ شہریوں کی بیسیوں لاشیں گرادی گئی ہیں۔ شہری آبادی سے اُٹھنے والے شعلوں نے آسمان ڈھانپ لیا ہے اور ہمارے ہاں کے اسرائیلی مُلّا، مسجد اقصیٰ کی تولیت کے لیے فکرمند رہنے والے اسکالر مُلّائوں سمیت دنیا بھر کی زبانیں خاموش ہیں اور خاموش ہی رہیں گی، کیونکہ یہود کی لالی پاپ ہوتی ہی ایسی ہے کہ زبان تالو سے چپکا دیتی ہے۔
مسئلے کا حل کیا ہے؟ کیا ہم عالمی ضمیر فروشوں سے اپنے لیے حمایت طلب کریں؟ نہیں! سیرتِ نبوی اور حیاتِ صحابہ کرام میں ہمارے لیے ہر مشکل کی رہنمائی موجود ہے۔ قوم یہود کے تین قبیلے مدینہ منورہ میں رہتے تھے۔ تینوں اپنی سرکش فطرت، بے باک زبان اور خدائی مار کے سبب خیبر اور شام کی طرف یکے بعد دیگرے جلاوطن کیے گئے۔ یہ ان کا ’’حشر اوّل‘‘ تھا۔ جب باز نہ آئے تو خیبر سے بھی مار نکالے گئے۔ یہ ان کا ’’حشرِ ثانی‘‘ تھا۔ اب یہ ’’حشرِ ثالث‘‘ کے منتظر ہیں۔ یہ ان کا اصل علاج ہے اور یہ وہی علاج ہے جو اب تک خود تورات کے مطابق ان کو اپنی بدعہدیوں، نافرمانیوں اور کمزوروں پر ظلم کے عوض قید و قتل اور دربدر ہونے کی شکل میں بھگتنا پڑا۔ القدس کی مٹی ان کے لیے اور یہ القدس کے لیے بنے ہی نہیں ہیں۔ ان کا ظلم جیسے جیسے عروج کی طرف جارہا ہے، ان کے آخری دن ویسے ویسے قریب آرہے ہیں۔ آج تو ان کو امریکا برطانیہ نے پناہ دی ہے، کل پتھر اور درخت بھی ان کو پناہ نہ دیں گے۔ بس اتنا سمجھنے کی دیر ہے کہ کیا ہم لوگ اپنے ایمان و عمل اور جذبہ و جُہد کے لحاظ سے اس مقام پر پہنچ گئے ہیں کہ جب شجر و حجر مسلم مجاہد کو پکارے گا کہ اس خوفزدہ پناہ گزین میں یہودی کا خاتمہ کرو! جو میرے پیچھے چھپا ہے، تو کیا ہم اس پکار کا مخاطب بننے کے، اس فضیلت کو حاصل کرنے کے قابل ہوگئے ہیں یا نہیں؟ فلسطین کا مستقبل اس سوال کے جواب میں پوشیدہ ہے۔
Flag Counter