یہی وقت کی آواز ہے
اخبارات اور چینلز پر ان دنوں حضرت شیخ الا سلام کاتوتی بول رہا ہے۔ نقار خانے میں طوطی کی آواز کسی کو سنائی نہیں دے رہی، ہر شخص اپنی اپنی راگنی سنارہا ہے... بھانت بھانت کی بولیاں ہیں جو اخبارات کی زینت بن رہی ہیں... حضرت شیخ الاسلام کو تقریباً سبھی آڑے ہاتھوں لے رہے ہیں... ڈیڑھ سال پہلے بھی کچھ ایسے ہی مناظر پاکستان کے سارں لوگوں نے دیکھے تھے۔ اس وقت علامہ صاحب کا نعرہ تھا : ’’ ریاست بچائو۔‘‘ یعنی میں ریاست بچانے کے لیے آرہا ہوں۔
آج یہ نعرہ سنائی نہیں دے رہاتو کیا اس مرتبہ ان کا کوئی ایجنڈ نہیں ہے...؟ اس بار حضرت ریاست بچانے کے لیے تشریف لائے ہیں یا ان کی آمد میں کوئی اور غر ض پنہاں ہے...؟ ابھی تک یہ بات واضح نہیں ہو سکی... حضرت صاحب کوئی تو اعلان فرما دیتے کہ میں اس مرتبہ اس غر ض سے آیا ہوں اور پاکستان کے لوگ یہ بات کم از کم بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ غرض مند دیوانہ ہوتا ہے... محاورۃً نہیں، حقیقتاً۔ ویسے اس سلسلے میں کچھ بھی کرنے کی ضرورت نہیں... بلاوجہ آسمان اور زمین ایک کیے جا رہے ہیں، صرف اور صرف پس منظر میں جھانک لیا جائے تو بہتوں کا بھلا ہوگا اور عوام سکھ کا سانس لے سکیں گے... سکھ کے وہ سانس جو ہر پاکستانی سے چھنتے جا رہے ہیں اور چھنتے ہی چلے جا رہے ہیں۔ چھننے کا یہ عمل اس قدر مسلسل ہے اس عمل کو بھی سانس لینا نصیب نہیں ہو رہا... پے در پے واقعات آندھی اور طوفان کی طرح پاکستان کی جھولی میں گرتے ہی چلے جاتے ہیں... اس جھولی میں جس میں پہلے ہی سو چھید ہو چکے ہیں... انشا جی ٹھیک ہی کہا کرتے تھے : ’’ جس جھولی میں سو چھید ہوئے، اس جھولی کا پھیلانا کیا بے چارے لوگ ایک واقعے سے سنبھل نہیں پاتے کہ دوسرا انہیں آلیتا ہے
... یوں لگتا ہے جیسے سارے جہاں کا درد بے چارے پاکستانیوں کے جگر میں آسمایا ہے... اور کچھ ایسا آسمایا ہے کہ نکالے نہیں نکل رہا۔
خیر چھوڑیں! بات تو ہو رہی تھی حضرت کی... اس وقت حضرت جی کو پُراسرار ترین شخصیت کے طور پر تسلیم کیے بغیر کوئی چارہ نہیں... ان کی شخصیت کے گرد اسرار ہی اسرار ہیں... گویا انہیں اس وقت کا پُراسرار ترین شخص ہونے کا اعزاز حاصل ہے... اور جب تک ہم ان کے ماضی میں نہیں جھانکیں گے، یہ معمہ حل ہونے سے انکاری ہی رہے گا۔ نئی پود کے لیے ان کے ماضی میں جھانکنا شاید ممکن نہ ہو، لیکن پاکستان میں ان گنت لوگ ایسے ہیں جن کے لیے ایسا کرنا ذرا بھی مشکل نہیں، یعنی : دل کے آئینے میں ہے تصویرِ یار جب ذرا گردن جھکائی دیکھ لی
مطلب یہ کہ پاکستان میں اب بھی ان گنت لوگوں کو اس زمانے نابغۂ روز گار علامہ صاحب اچھی طرح یاد ہیں... اور ان کی باتیں از بر ہیں... تو آیئے! میرے ساتھ... آپ بھی ان کے ماضی میں جھانک لیجیے... یہی وقت کی آواز ہے، یہی درویش کی صدا ہے، وقت کی آواز پر لبیک کہے بنا چارہ نہیں، اس لیے کہ عوام کو یارا نہیں... بے یارو مدد گار ہیں بے چارے... صحرا میں گھوم رہے ہیں کہ یہ آخر ہمارے ساتھ ہو کیا رہا ہے؟ ہم نے ایسا کون سا جرم کر ڈالا ہے... ہمیں یہ سزا ئیں مل رہی ہیں... ہر پل کوئی نہ کوئی ہّوا کھڑے ہونے کے لیے تیار ملتا ہے... جیسے ان ہوّوں کو اور کوئی کام ہی نہ ہو۔ بات پھر ادھر سے ادھر ہو ئی جاتی ہے... میں اس جرم کا ذکر کالم کے آخر میں کروں گا۔
میرے سامنے اس وقت 8 جولائی 1993ء کے اخبار کا تراشہ ہے۔ اسے میں نے شاید آج کے دن کے لیے تراش لیا تھا۔ ہائی کورٹ کے جج مسٹر جسٹس اختر حسین کے فیصلے کا متن شائع ہوا ہے... یہ فیصلہ فاضل جج نے 8 اگست 1990 کو سنایا تھا۔ عدالت نے یہ فیصلہ کیوں سنایا؟ یہ مقدمہ کیوں درج ہوا؟ پہلے یہ جان لیں۔ علامہ طاہر القادری کی رہائش گاہ واقع بلاک ایم، ماڈل ٹائون پر 21 اپریل 1990 کو صبح ایک بج کر 15 منٹ پر فائرنگ کا سانحہ پیش آیا تھا۔فائرنگ کرنے والے نامعلوم افراد کون تھے... پولیس کی تفتیش کے سلسلے میں جو حقائق
سامنے آئے، ان کی بنیاد پر مسٹر جسٹس اختر حسین صاحب نے فیصلہ سنایا تھا۔ان کے فیصلے کی ذیلی سرخیاں ملا خط فرمائیں :
’’ طاہر القادری پر فائرنگ کے مقدمے میں لاہور ہائی کورٹ کے جج کے فیصلے کا متن۔‘‘ طاہر القادری محسن کش، ناشکر گزار، خود غرض، جھوٹے، دولت کے پجاری، خود پرست اور شہرت کے بھوکے ہیں۔‘‘ ’’ پہلے عورت کے حکمران ہونے کی مذمت کی، پھر اس کے بعد برعکس کردار ادا کیا۔‘‘ ’’ میاںشریف ( وزیر اعظم محمد نواز شریف کے والد ِ مرحوم ) نے ان کالندن میں اور ان کی اہلیہ کا بھارت میں علاج کرایا۔ ادارے کے لیے 180 کنال کا پلاٹ دیا، سیمنٹ کی ایجنسی بھی دی۔‘‘ ’’ انہیں سیاست میں آنے کا بہت شوق تھا، مذہب سے محبت محض ڈھونگ ہے، جس انداز سے انہوںنے پیسہ اکٹھا کیا، ایسے عالم دین سے اس کی توقع نہیں۔‘‘
’’میاں شریف کی مدد سے انہوںنے گھر خریدا۔ بیٹوں کے لیے سیمنٹ کی ایجنسی لی اور پیسے لیے۔ ان کی گاڑیاں استعمال کیں۔ پھر ان کے احسانات کی کوئی پروا نہیں کی۔‘‘
’’ان کے رویے میں احسان شناسی اور شکر گزاری کا کوئی عنصر نہیں، میاں شریف نے بے پناہ وسائل دیے تو وہ قناعت نہ کرکے اور محسن کے خلاف محاذ کھڑا کر دیا۔‘‘
’’ پیپلز پارٹی سے بڑی رقم وصول کی، ان کے طرز ِ عمل سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ وہ ذہنی طور پر بیمار آدمی ہیں... وہ دشمن فوبیا کا شکار ہو گئے ہیں۔‘‘
’’اپنے خوابوں کو بیان کرنے کے لیے بے قرار رہتے ہیں، اپنی شخصیت کو خاص رنگ دیتے ہیں، اس ذہنی ساخت کی شخصیت سے کچھ بھی ممکن۔‘‘
’’ یہ تمام سرخیاں اس فیصلے سے لی گئی ہیں... ورنہ فیصلہ بہت طویل ہے... اور عدالت اس نتیجے پر پہنچی تھی کہ شیخ الاسلام نے اپنی رہائش پر فائرنگ خود کرائی تھی، یعنی فائرنگ کا ڈرامہ رچایا تھا... دیکھا جائے تو ڈراموں اور قادری صاحب کا چولی دامن کا ساتھ ہے اور یہ ساتھ ساتھ ساتھ چلا ہی آرہا ہے... انہوں نے ڈراموں کا پیچھا نہیں چھڑا یا پھر ڈراموں نے ان کا پیچھا نہیں چھوڑا... البتہ ہم ان سے اس فیصلے کی روشنی میں درخواست کر سکتے ہیں یہ پاکستان کا پیچھا ضرور چھوڑ دیں... ملک پہلے ہی ان گنت مسائل میں الجھا ہوا ہے... اور پھر یہ اپنا کوئی عجوبہ ایجنڈا لے کر آجاتے ہیں... اور جاتے ہوئے بتا کر بھی نہیں جاتے کہ میں کیوں آیا تھا...؟ ایک آدھ ماہ بعد پھر یہی ہونا ہے... آپ دیکھ لیجیے گا۔ویسے لگے ہاتھوں ایک بات اور...اُس فائرنگ میں اور اس فائرنگ میںمماثلت دکھائی دیتی ہے۔
اب رہ گئی یہ بات کہ آخر اس قسم کے واقعات اس قدر تسلسل سے پاکستان کا مقدر کیوں بن گے ہیں؟ ہم نے ایسا کیا جرم کر ڈالا ہے...؟ تو جواب اس کا یہی بنتا ہے... ہم نے پاکستان یہ اعلان کرکے حاصل کیا تھا... ’’پاکستان کا مطلب کیا، لا الہ الا اللہ۔‘‘ اور ہم نے اس مقصد کو پس پشت ڈال دیا ہے... یہ ہے ہمارا اصل جرم۔