Deobandi Books

ہفت روزہ ضرب مؤمن 4 تا 10 جولائی 2014

ہ رسالہ

3 - 8
ایثار اور ہمدردی کا مہینہ
’’کرسمس‘‘، ’’ایسٹر‘‘، ’’تھینکس گوئنگ ڈے‘‘ اور ’’بلیک فرائیڈے‘‘ امریکا میں بڑے تہواروں کے طور پر منائے جاتے ہیں۔ ان دنوں سارے امریکا میں ہر طرح کی ضروریاتِ زندگی 50 فیصد تک سستی کر دی جاتی ہیں۔ ایسٹر اپریل میں منایا جاتا ہے، جبکہ باقی تینوں تہوار ایک ماہ کے اندر منا لیے جاتے ہیں۔ ہر سال نومبر کی آخری جمعرات تھینکس گوئنگ ڈے، جمعہ بلیک فرائیڈے اور 25 دسمبر کرسمس کے دن ہیں۔ لوگ ان دنوں اتنی خریداری کرتے ہیں کہ باقی سارا سال اس کے مقابلے میں پیچھے رہ جاتا ہے۔ امریکا کے بڑے بڑے اسٹور عوام کے لیے دن رات کھلے رہتے ہیں۔ ہرشے ارزاںنرخوں پر دستیاب کر دی جاتی ہے۔ معاشی طور پر کمزور امریکی قطاروں میں کھڑے ہو جاتے ہیں۔ وہ اس موقع سے بھر پور فائدہ اٹھاتے ہیں۔ آن لائن سودے طے ہوتے ہیں۔ نرخ ادا کیے جاتے ہیں۔ سامان گھروں تک پہنچا دیا جاتا ہے۔ ان دنوں سارے امریکا کو خریداری کا بخار طاری رہتا ہے۔ امیر لوگ غریبوں کو خوشیوں میں شامل کرنے کے لیے اپنا فالتوقیمتی سامان مفت بانٹتے پھرتے ہیں۔
وہ اسے اپنے گھروں کے دروازوں پر ڈھیروں کی صورت لگا دیتے ہیں۔ ضرورت مند آتے اور مطلوبہ اشیا اٹھا کر چل پڑتے ہیں۔ اس طرح سارے ملک میں معیارِ زندگی لگ بھگ ایک جیسا ہی ہو جاتا ہے۔ غریبوں کو بھی ساری اشیا مفت مل جاتی ہیں جن سے ان کی زندگیوں میں سکھ اور آرام کی چھائوں آجاتی ہے۔ امریکی حکومتیں جو دنیا بھر میں قتل وغارت گری کے منصوبے سوچتی ہیں۔ اپنے عوام کے لیے ان دنوں ہر طرح کی سہولیات فراہم کرتی ہیں۔

یورپ میں کرسمس پر ہو بہو ایسا ہی طرز عمل دیکھنے میں آتا ہے۔ کسی قسم کی کوئی ذخیرہ اندوزی کا نام و نشان نہیں ملتا۔ منافع خوری کے ہتھکنڈے نہیں آزمائے جاتے۔ اشیائے خوردونوش مارکیٹوں سے غائب نہیں کی جاتیں۔ چیزوں کو مہنگا کر کے فروخت کرنے کے لیے کوئی حربے استعمال نہیں کیے جاتے۔ الٹا ان دنوں نایاب اشیا بھی دوکانوں پر مناسب نرخوں میں دستیاب کر دی جاتی ہیں۔ ہندومت اور بدھ مت مذہبوں والے ملک میںبھی ہم اسی طرح کی مثالیں دیکھتے ہیں۔ دیوالی پر تیل کے نرخ حکومتی سرپرستی میں گھٹا دیے جاتے ہیں۔ ہولی پر رنگوں کے دام کم ہو جاتے ہیں۔ اسرائیل جیسے بدمعاش ملک میں بھی عوام تہواروں پر سستے پن سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ کیمونسٹ ملکوں میں جہاں ریاست مذہب سے ماورا ہے۔ عوام کو ان کی خوشیوں والے تہوار منانے کے لیے حکومتی چھتریاں مہیا کر دی جاتی ہیں۔ بعض اسلامی ملکوں میں بھی رمضان مبارک کے دنوں میںاور دونوں عیدوں کے موقع پر ہر ضرورت زندگی نہایت مناسب نرخون پرمہیا کر دی جاتی ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں رمضان کا مہینہ عوام کے لیے برکتوں کے ساتھ بے شمار زحمتیں لے کر آتا ہے۔ اس مہینے کی آمد سے ہفتہ بھر پہلے ہی اشیائے خوردونوش اسٹور ہونے لگتی ہیں۔ ہر حکومت منافع خوروں کو کھلی چھوٹ دے دیتی ہے۔ ان پر کوئی کنٹرول باقی نہیں رہتا۔ بے رحم سرمایہ دار عوام کی رگوں سے خون نچوڑنے کے لیے آزاد ہو جاتے ہیں۔ وہ خدا خوفی ترک کر کے سفاکیت کی زندہ مثال بن کر سامنے آجاتے ہیں۔
ہر سال کی طرح اس برس بھی رمضان کی آمد سے پہلے ہی روش ربا گرانی نے عوام کو چاروں طرف سے گھیرلیا۔ اشیائے خوردونوش کی قیمتیں بلند پروازی دکھانا شروع ہوگئیں۔ ضروریاتِ زندگی غریب لوگوں کی پہنچ سے بہت دور نکل گئیں۔ عام بازاروں کو چھوڑ کر بات کی جائے تو سہولت بازاروں میں بھی زیادہ اشیا 10 سے 20 اور بعض اجناس 50 فیصد بڑھ گئیں۔
آلو، پیاز، لہسن، ٹینڈا، مرغی اورانڈے گراں فروشی کی زد میں آنے والی صرف چند اشیا ہیں۔ سبزیوں اور پھلوں کی قیمتوں میں اضافہ مسلسل دیکھنے میں آرہا ہے۔ ہر سبزی 70، 80 روپے کلو سے کم نہیں کوئی پھل 100 روپے سے کم پر دستیاب نہیں۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے رمضان میں صورت حال کیا ہوگی۔ دوسری طرف حکومت نے یوٹیلیٹی اسٹورز پر 1500 اشیا کی قیمتوں میں 10 سے 20 فیصد کمی کی ہے۔ یوں دودھ، آئل، گھی، دالوں سمیت 12 اشیا پر 10 روپے رعایت ہو گی۔ آٹا 6 روپے فی کلو سستا ملے گا۔ آٹے کا تھیلا 120 روپے کم قیمت پر میسر ہو گا۔ دال چنا 13 روپے، سفید چنا 18 روپے، بیسن 20 روپے، کھجور 40 روپے سستی ملے گی۔ چائے کا 950 گرام پیک 88 روپے، باسمتی چاول 40 روپے، سیلا چاول 38 روپے، دال مونگ 38 روپے، دال مسور 12 روپے، دال ماش 15 روپے، ٹیٹرا پیک 12 روپے فی لیٹر کم نرخوں پر دستیاب ہوگا۔ حکومت کا شکریہ کہ اس نے غریب عوام کے لیے یہ سہولیات فراہم کیں، مگر ملک میں یوٹیلیٹی اسٹورز کی تعداد اس قدر کم ہے کہ کروڑہا عوام اس دست شفقت سے محروم ہی رہے گے۔ یوٹیلیٹی اسٹورز پر کڑی دھوپ میں روزوں کے دنوں میں قطاریں بنا کر یہ رعایت لینا ایک کوہ گراں بن جائے گا۔ یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ یوٹیلیٹی اسٹورز پر دستیاب بعض اشیا کا معیار انتہائی درجہ ناقص ہوتا ہے۔ یوں جوئے شیر لانے کے بعد بھی فرہادوں کی قسمت میں ہاتھوں کے چھالوں کے سو کچھ نہ آئے تو اندازہ کیجیے کہ بے بسی کا عالم کیا ہو گا۔
کروڑوں کے ملک میں چند لاکھ لوگوں کے لیے رعایت دینا ایک بالکل عارضی بندوبست ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے ڈالر سستا کرنے کا کرتب دکھانے کے بعد بھی ہم مہنگائی کے سیلاب میں اسی طرح بہہ جارہے ہیں۔ ہماری پہلی اور سب سے نازک ذمہ داری تو یہ ہونی چاہیے کہ جسم و جاں کا ناطہ بر قرار رکھنے والی ہر شے پر حکومتی گرفت بہت مضبوط ہو۔ ہمارے وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ کو 24 گھنٹوں میں سے ایک گھنٹہ اس تگ ودو میں گزارنا چاہیے کہ آیا عوام کی زندگیوں میں ان کی پالیسیوں سے سکھ چین آرہا ہے یا جارہا ہے؟ بڑی بدقسمتی یہ ہے ہمارے لیڈروں کو پُرتکلف کھانوں، پروٹوکول، غیرملکی دوروں سے فرصت نہیں ملتی۔ یوںمنافع خور ایک ذخیرہ اندوز موقع سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ وہ رمضان کی آمد سے پہلے ہی اپنے گوداموں کو بھر لیتے ہیں۔ مارکیٹ میں اشیا کی قلت پیدا ہوتی ہے۔ رمضان آتے ہی یہ من چاہے ریٹوں پر سامان بیچنے لگتے ہیں۔ ان پر حکومتی گرفت بالکل ہی نہیں ہوتی۔ یوں ملک بھر میں سحراور افطار کے لیے درکار خوراک کئی گنامہنگی ہو جاتی ہے۔ غریب عوام کی چمڑی ادھیٹری جاتی ہے۔ ان کے روحانی انہماک کو چور چور کیا جاتا ہے۔ وہ ہر سحر اور افطار اپنے سامنے پڑی خوراک کی گرانی پر کڑھتے ہیں۔ ہر سال اسی طرح ہوتا ہے۔ یوں اس بیمار معاشرے میں عبادات کا مہینہ عوام کے لیے اذیت رسانی کا بڑا سبب بن جاتا ہے۔
بڑے سرمایہ داروں کا اکھٹھ کروڑوں اربوں سمیٹ کر ایک طرف ہو جاتا ہے۔ حکومتیں سرد مہری سے یہ سب ہوتے ہوئے دیکھتی رہتی ہیں۔ وہ غریب غربا کو کوئی ڈھال فراہم نہیں کرتیں۔ یوں ہم ایک ایسے ملک میں بستے ہیں۔ جہاں حکومتیں تو ہوتی ہیں، حکمرانی ہوتی، ستم ظلم پیہم سروں پر ٹوٹتے ہیں، مہربانی کرم نوازی کہیں بھی نظر نہیں آتی۔ وقت کی اہم ترین ضرورت ہے ملک بھر میں فوڈ انسپکٹروں کی تعداد کو فوراً کئی گنا بڑھایا جائے۔ دیانت دار افراد بھرتی کیے جائیں۔ وہ بازاروں، مارکیٹوں پر کڑی نگرانی رکھیں۔ ہر دکان پر ریٹ لسٹ آویزاں ہو۔ صوبائی اور مرکزی حکومت خوراک کی ترسیل پر مسلسل نظر رکھے۔ مارکیٹ سے غائب ہونے والی اشیا کے لیے Cartel بنانے والے ہر سرمایہ دار کی گرفت ہو۔ جیسے ہی کوئی اہم ضرورت زندگی کمیاب ہونے لگے اس کی فی الفور دستیابی ممکن بنائی جائے۔ ہمیں ترقی یافتہ ملکوں کی مثال سامنے رکھنا ہو گی۔ وہاں حکومتوں کے فوڈ ڈیپارٹمنٹ کے پاس خوراک کے وافر ذخیرے جمع رہتے ہیں۔ جیسے ہی کسی شے کی قلت دکھائی دے محکمے فوراًاسے مارکیٹ میں ڈال دیتے ہیں، یوں ریٹ متاثر نہیں ہوتے۔ ان میں ایک خاص قسم کی یکسانی متواتر رہتی ہے۔ یہ محکمے جب دیکھتے ہیں کہ ان کے پاس اسٹور خوراک کچھ عرصے میں زائد المعیاد ہونے جارہی ہے تو یہ ملک میں ان اشیا کی امپورٹ کو وقتی طور پر التوا میں ڈال کر اپنا ذخیرہ بازاروں میں لے آتے ہیں۔ جیسے ہی یہ ذخیرہ ختم ہونے کے قریب آتا ہے، اشیا دوبارہ امپورٹ کر لی جاتی ہیں جو مارکیٹ کے علاوہ فوڈکے محکمے کے گوداموں کو بھی بھر دیتی ہیں۔ یوں ایک سرکل چلتا رہتا ہے جس سے عوام کی زندگیوں میںسہولت و آرام سے بڑی ذمہ داری سمجھتی ہیں۔ اگر کبھی کوئی ضرورت زندگی اس کی ناک میں دم کر دیتی ہے۔ چند دنوں ہی میں ذمہ داری انجام دے دینے کے بعد حالات واپس اپنی ڈگرپر آجاتے ہیں۔ زندگی دوبارہ اسی طرح رواں دواں ہو جاتی ہے۔ ہمارے لیڈر وژن، عقل، فہم سے عاری لوگ ہیں۔ ہمارے نمایندے عوامی دُکھ کو کبھی محسوس ہی نہیں کرتے۔ حکومتیں اپنی عیاشیوں سے فارغ ہی نہیں ہوتیں۔ امرا اور روسا سے بھری اسمبلیاں اپنی مراعات انجوائے کرتی رہتی ہیں۔ نیچے عام عوام کو کند چھریوں سے ذبح کیا جارہا ہوتا ہے۔ ان کی خون پسینے کی کمائی کو آگ لگائی جارہی ہوتی ہے۔ ان کے تن سے کپڑے اتارے جارہے ہوتے ہیں۔ حکومت یوٹیلیٹی اسٹور پرتھوڑی بہت رعایت دے کر حاتم طائی کی قبر پر لات رسید کر دیتی ہے۔ یوں سرمایہ داری کے منوں وزنی پہیوں کے نیچے عوام کچلی جاتی رہتی ہے۔ رمضان کا سارا مہینہ ہم مہنگائی میں غرق رہتے ہیں۔
عید نزدیک آتی ہے تو یہی سرمایہ دار اس کے حسن کو بھی گہنا دیتے ہیں۔ ملبوسات کی قیمتوں میں کئی گنا اضافہ ہو جاتا ہے۔ یوں ایک گرداب ہے جس میں پاکستان کئی دہائیوں سے چکر کھا رہا ہے۔ اگر ہمارے لیڈروں میں ذرا سا بھی عوام کا درد ہے تو انہیں اپنی سب سے اہم اور بڑی پالیسی یہ بنانا ہو گی کہ خوراک کم سے کم نرخوں پر ہر آدمی کو مہیا ہو۔ وہ رمضان کے مہینے میں اپنی دعائوں میں معاشی چنگیز خانوں کو بددعائیں نہ دیتا ہے۔ وہ پوری یکسوئی سے عبادات و نوافل پر توجہ دے سکے۔ اس کے ذہن میں مہنگائی اپنے جالے نہ بنتی رہے۔ اس کی توجہ اس طرف نہ بٹی رہے۔ اگر حکمران عوام سے دعائیں لینا چاہتے ہیں تو انہیں سارا سال اور بالخصوص رمضان میں ہر طرح کی اشیائے خوردو نوش کم سے کم قیمت پر مہیا کرنا ہوں گی۔ میرا یقین ہے کہ یوں حکمرانوں کی حکمرانی کا عرصہ خاصا دراز ہو جائے گا۔ انہیں کسی لانگ مارچ، دھرنے، ہڑتال کا ڈر نہ رہے گا۔ عوام ان کے ساتھ ہوں گے۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو حکومتیں مضبوط بنیادوں سے محروم رہیں گی۔ ان کے اقتدار کا محل ریت پر استوار رہے گا۔ وہ ہلکے سے ارتعاش پر بھی زمین میں دھنس جائے گا، حکمرانوں کو غم و غصے کا پاتال نگل جائے گا۔
Flag Counter