Deobandi Books

ہفت روزہ ضرب مؤمن 4 تا 10 جولائی 2014

ہ رسالہ

4 - 8
آوازنہیں آرہی!
شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کے آغاز کے بعد لاکھوں قبائلی مسلمانوں کے بے گھر ہونے کی اطلاعات نے کچھ ایسا بے چین کردیا کہ ہم سے رہا نہ گیا اور ہم اپنے دو دوستوں انور ذہین اور جمال الدین کے ہمراہ جنوب سے شمال کی جانب عازم سفر ہوگئے۔ ہم متاثرین کے لیے کوئی امدادی سامان لے کر جانے کی پوزیشن میں تو نہیں تھے تاہم متاثرہ بھائیوں کے درمیان جاکر ان کے دُکھ درد میں شریک ہونے کا جذبہ ہی ہمارا وہ سامان سفر تھا جس کے بل بوتے پر ہم نے ایک لمبے راستے کا نتخاب کیا۔
اگلے روز ہم قبائلی علاقوں سے آئے متاثرین کے ایک بڑے کیمپ میں موجود تھے۔ یہاں چھوٹے چھوٹے خیموں میں پورے پورے خاندان بسے ہوئے تھے اور ہر خیمے کے اندر دُکھ، درد، پریشانی، غم اور مشکلات کی ایک الگ کہانی تھی۔ کہیں بڑے بوڑھے خاندان کے لیے راشن اور ضروریات زندگی کے حصول کے لیے سرگردان تھے تو کہیں پھول جیسے بچے چلچلاتی دھوپ اور سخت گرمی کے موسم میںننگے سر اور ننگے پیر اِدھر اُدھر چلتے دکھائی دے رہے تھے۔ ان کے معصوم چہروں پر خوف و دہشت، بے یقینی اور اپنے گھر بار، اسکول، کھلونوں اور جانوروں سے دور ہونے کے دکھ کا احساس صاف طور پر پڑھا جاسکتا تھا۔
ہم نے کندھے پر راشن کا تھوڑا سا سامان اٹھائے ہوئے ایک قبائلی کو روک کر اسے اس کی مشکلات کا پوچھا تو اس نے سامان نیچے رکھتے ہوئے پہلے تو ایک لمبا سانس لیا اور پھر گویا ہوا: ’’بھائی! ہمارا سب کچھ لٹ گیا ہے، یہ ٹھیک ہے کہ یہاں اس کیمپ میں ہمیں اپنے بچوں کے لیے تھوڑا سا راشن مل جاتا ہے،

مگر ہم اس طرح مانگ کر کھانے کی زندگی کے تو عادی نہیں ہیں۔ ہم دوسروں کو کھلانے کو ترجیح دیا کرتے ہیں۔ ہمیں اپنے بھر ے پرے گھر چھوڑنے پڑے ہیں۔ یہاں اس گرمی میں ہمیں ایک عذاب کا سامنا ہے، نجانے کب تک ہم اس طرح کسمپرسی میں رہیں گے۔ یہاں بچوں اور پردہ دارخواتین کے لیے رہنا بہت مشکل ہے۔ ہم نے مشترکہ عارضی بیت الخلائوں اور غسل خانوں کے استعمال کا کبھی تصور بھی نہیں کیاتھا۔ ‘‘
قبائلی تفصیل کے ساتھ ہمیں اپنا دکھ بیان کر رہا تھا لیکن گرمی شدت اتنی تھی کہ ہمارے لیے کھڑا رہنا محال ہوگیا۔ ہم اندازہ کرسکتے تھے کہ آگ بر ساتا سورج خیموں کے اندر موجود بزرگوں، بیماروں، خواتین اور بچوں پر کیا کیا قیامتیں ڈھا رہا ہوگا۔ ہمارے ساتھی انور ذہین نے اپنا ڈیجیٹل کیمرہ نکالا اور دُکھ اور دَرد کے ان مناظر کو کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کرنا شروع کردیا تاکہ سوشل میڈیا اور اخبارات کے ذریعے عامۃ امسلمین اور مخیر حضرات کو متاثرین کی امداد کی طرف متوجہ کیا جاسکے۔ ’’خاموش پکار‘‘ عنوان سے روزنامہ اسلام کے فرنٹ صفحے پر دُکھ بھری داستانیں لکھ رہے ہیں۔ ہمارے پاس کیمرہ تو نہیں تھا، تاہم ہمیں یہاں ایک عدد خورد بین کی ضرورت محسوس ہوئی، کیونکہ ننگی آنکھ سے ہمیں یہاں جوکچھ دکھائی دے رہا تھا، اس میں بھوک اور پیاس سے بلکتی انسانیت تو نظر آرہی تھی، مگر انسانیت کے وہ خیر خواہ اور غم خوار کہیں دکھائی نہیں دے رہے تھے جو میڈیا میں ہمیشہ انسانیت کی بات کرتے ہیں، جن کی نیندیں دکھی انسانیت کی خاطر حرام ہوجایا کرتی ہیں۔
ہم کسی این جی او، سول سوسائٹی کی تنظیم یا غیر ملکی ادارے کے کسی ایک فرد کو دیکھنے کے متمنی تھے جو ہمیں بتاتا کہ اس میدان غم و آلام میں سسکتے انسانوں کے لیے وہ کیا کچھ کر رہے ہیں۔ ہمیں ان صحافیوں، اینکرز اور کالم نگاروں سے بھی یہاں ملنے کا اشتیاق تھا جو صبح شام حکومت اور فوج کوقبائلی علاقوں میں آپریشن کرنے کی ہلا شیری دے رہے تھے۔ ہمیں ان سیاسی جماعتوں کے کارکنوں سے بھی ملنا تھا جن کے رہنما ’’مارو اور کچل دو‘‘ کے نعرے لگاکر حکمرانوں کو قبائل میں کشت و خون پر اکسا رہے تھے، مگر اے بسا آرزو کی خاک شدہ۔ ہمیں یہاں مذکورہ تمام طبقات میں سے کوئی ایک فرد بھی دکھائی نہیں دیا۔
یہاں اگر کچھ چلت پھرت نظر آئی تو ان چندڈاڑھی اور پگڑی والے افراد اور دینی رفاہی اداروں کے کارکنوں کی نظر آئی جن کو دہشت گرد اور انتہا پسند قرار دیا جاتا ہے، جن پر پابندیاں لگائی جاتی ہیں، جن کے اثاثے منجمد کیے جاتے ہیں۔ ہمیں یہ صورت حال عجیب لگی۔ ہمیں ایسا لگا جیسے ہم کسی اور دنیا میں ہیں۔ ہم نے صورت حال کو سمجھنے اور قبائلی متاثرین کے لیے انسانیت کے مقامی اور عالمی علم برداروں کی خدمات اور سرگرمیوں کی تفصیلات معلوم کرنے کے لیے اپنے دوست مسٹر کلین کو فون ملایا اور انہیں بتایا کہ ہم متاثرین کے کیمپ میں موجود ہیں، یہاں دہشت گرد تنظیموں کے ارکان تو کام کر رہے ہیں، مگر این جی اوز کا کہیں وجود نہیں، اس کی کیا وجہ ہے؟ مسٹر کلین نے ہماری بات سن کر پہلے تو کہا: ’’ آپ کی آواز نہیں آرہی۔ ‘‘ ہم نے فون کاٹ کر دوبارہ ملادیا تو کہنے لگے: ’’ملاجی! اس وقت میری فیورٹ ٹیم برازیل کا میچ چل رہا ہے، اس ٹاپک پر بعد میں بات کریں گے…‘‘ یہ کہہ کر مسٹر کلین نے فون بند کرلیا۔ ٭٭٭
Flag Counter