Deobandi Books

ہفت روزہ ضرب مؤمن 4 تا 10 جولائی 2014

ہ رسالہ

5 - 8
عرب بہار یاخزاں؟
’’عرب بہار‘‘ کا آغاز تیونس سے ہوا تھاجہاں حکومت کا دھڑن تختہ ہوا۔ اس کے بعد لیبیا میں قذافی کا تختہ الٹا گیا۔ پھر مصر میں حسنی مبا رک کا بوریا بستر گول ہوا۔ صدر مرسی نے منتخب جمہوری صدر کے طور پر اقتدار سنبھالا۔ اس کے بعد شام میں بشارالاسد کی آمریت کے خلاف تحریک شروع ہوئی۔ اب عراق میں ایک بار پھر بڑی شدت سے خانہ جنگی کے شعلے بھڑک اُٹھے ہیں۔ مصر کی صورتحال سے توسبھی واقف ہیں کس طرح وہاں فوجی آمر نے عالمی طاقتوں کی شہ پر حکومت پر قبضہ کیا۔ کس طرح وہاں الاخوان کو مسلسل کچلا جارہا ہے۔ حال ہی میں الاخوان کے رہنما محمد بدیع کوسزائے موت سنادی گئی ہے۔
شام کے حالات اس وقت سب سے نازک اور عجیب تر ہیں۔ بشارالاسد کی حکومت کے ناجائز ہونے میں کسی کو شک نہیں ہوسکتا۔ وہ شامی عوام پر جو مظالم ڈھارہا ہے، انہیں دیکھنے بلکہ سننے کے لیے بھی جگر چاہیے۔ لوگ بھوک سے مررہے ہیں اور کتے بلیاں کھانے پر مجبور ہیں۔ اس نے کیمیاوی ہتھیاروں کے استعمال تک سے دریغ نہیں کیا۔ اب تک لاکھوں مسلمان ان کی بہیمیت کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ ایسے میں شامی حریت پسندوں کا حکومت کے خلاف اُٹھ کھڑے ہونا ایک بالکل فطری ردّعمل تھا، مگر اچنبھے میں ڈالنے والی بات یہ ہے کہ امریکا اس جنگ میں بالکل وہی کردار ادا کررہا ہے جو روس کے خلاف افغانستان میں کیا تھا۔ امریکا کی طرف سے وہاں مجاہدین کی جو مدد کی جارہی ہے وہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ حال ہی میں امریکی صدر اوباما نے شامی مجاہدین کی مددکے لیے 50 کروڑ ڈالر جاری کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ یہ بھی سب جانتے ہیں شامی مجاہدین میں القاعدہ نمایاں ترین کردار ادا کررہی ہے۔ اس کے جوان گولان کی پہاڑیوں

کے قریب پہنچ گئے ہیں جو اسرائیل کی سرحد اور نہایت نازک عسکری پوائنٹ ہے۔ ایسے میں امریکا جو القاعدہ کو اپنا دشمن نمبر ایک قرار دیتا آیا ہے، آخر کس لیے مجاہدین کی امداد کررہا ہے؟ یہ سوال بہت نازک ہے۔ اس کا صحیح جواب جان کر ہی ہم آیندہ کے حالات کا اندازہ لگاسکتے ہیں۔ یہ تو ہر شخص دیکھ رہا ہے کہ امریکا جنگ کو طول دے رہا ہے۔ نہ ہی وہ مجاہدین کی ایسی بھرپور مدد کررہا ہے کہ وہ فوراً غالب آجائیں، نہ وہ انہیں نہتا ہونے دے رہا ہے۔ اس سے محسوس ہوتا ہے کہ وہ شام میں ایک طویل خانہ جنگی کے ذریعے کچھ مذموم مقاصد کی تکمیل کے لیے کوشاں ہے۔
شامی مجاہدین کے اخلاص اور ان کے جذبۂ جہاد کو ہم سلام پیش کرتے ہیں۔ جیسے حالات ان پربیت رہے ہیں شاید ان کے پاس کسی بھی قسم کی امداد کو قبول کیے بغیر کوئی اور چارہ بھی نہیں، مگر یہ بہت بعید ہے کہ امریکا کی شام میں بڑی سرمایہ کاری کرنے کے بعد بھی مجاہدین اپنا نفع وصول کرنے سے باز رہے۔ یہ نفع کس شکل میں وصول ہوگا؟ ممکن ہے شام کی نئی حکومت کو سعودی عرب کے خلاف استعمال کرکے ایک اور جنگ شروع کی جائے۔ ممکن ہے اسے کسی اور ملک سے لڑایا جائے۔ یہ طے ہے کہ امریکا عرب دنیا میں کسی طرح اتحاد نہیں ہونے دے گا اور ان جنگوں کو اتناطو ل دے گا جتنا کہ ممکن ہوسکے۔
افغانستان سے رُوس کو دھکیلنے کے بعد امریکا نے مجاہد دھڑوں میں جو پھوٹ ڈلوائی وہ اس کی طویل منصوبہ بندی کا ایک حصہ تھی۔ اس کے بعد طالبان کا اقتدار یقینا اس کی توقع کے خلاف تھا، اس لیے اس نے انہیں پھلنے پھولنے کا موقع نہیں دیا۔ ان کی حکومت کے پورے 7 سالوں میں وہ شمالی اتحاد کو منظم کراکے ان سے لڑاتا رہا۔ یہ جنگیں طالبان کے ظہور سے لے کرامارتِ اسلامیہ افغانستان کے خاتمے تک مسلسل جاری رہیں۔ پھر طالبان کو امریکا نے جس طرح عالمی طاقتوں کے ساتھ مل کر دہشت گردی کا نشانہ بنایا وہ سب کو معلوم ہے۔ آج بھی وہاں جنگ جاری ہے۔ گزشتہ 40 سال سے مجموعی طور پر پور ے افغانستان میں ایک دن کے لیے بھی امن قائم نہیں ہوا۔ ماضی میں دنیا کاخوش حال ترین ملک سمجھا جانے والا خطہ آج اپنی بدحالی پر نوحہ کناں ہے۔ امریکا کچھ یہی حالات پور ی عرب دنیا میں پیدا کرنے جارہا ہے۔ ہر جگہ خانہ جنگی کی آگ بھڑک رہی ہے۔ کوئی بعید نہیں یہ لڑائیاں 10، 15 سال تک چلتی رہیں۔ ایسے میں یہ مسلم ممالک جو کچھ مدت پہلے تک اقتصادی لحاظ سے قابلِ رشک تھے، مفلس و قلاش ہوجائیں گے، وہاں کروڑوں لوگ مہاجر کیمپوں میں ہوں گے جنہیں اقوامِ متحدہ احسان جتاکر اور این جی اوز ایمان بٹورنے کی کوشش کرکے دو وقت کی روٹی دیں گے۔
خانہ جنگیاں عام طور پر ملکوں کی تقسیم پر ختم ہوتی ہیں، اس لیے اگر یہ سلسلہ نہ رُکا تو انجام یہی دکھائی دیتا ہے کہ عرب ممالک چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تبدیل ہوجائیں گے جنہیں بدحالی اور غربت کی وجہ سے اپنا سفر زیرو سے شروع کرنا ہوگا۔ یہی امریکا کا مقصودِ اصلی ہے۔ وہ چاہتا ہے اسرائیل کے ارگرد کے مسلم ممالک کو اتنا بدحال اور منتشر کردے کہ وہ کبھی بھی اسرائیل کے لیے کوئی خطرہ نہ بن سکیں۔ حالات کو غورسے دیکھیں تو مستقبل کا منظرنامہ کچھ ایسا ہی دکھائی دیتا ہے۔
شام کے ساتھ اس وقت عراق میں بھی خانہ جنگی تیزتر ہوگئی ہے۔ حریت پسند وہاں بغداد کی طرف گامزن ہیں۔ انہوںنے ملک کی سب سے بڑی تیل کمپنی پر قبضہ کرلیا ہے۔ ایسے میں سب سے افسوسناک بات یہ ہے کہ ایران اور شام دونوں عراقی سرکار کی مدد کے لیے خفیہ طور اپنی افواج بھیج رہے ہیں۔ سب جانتے ہیں عراق میں نورالمالکی کی حکومت امریکا کی کٹھ پتلی ہے۔ امریکا برابرا س کی مدد کررہا ہے۔ چند دنوں پہلے اوباما نے 30 فوجی مشیر نوری المالکی سے تعاون کے لیے بھیجے ہیں۔ اس کے علاوہ 30 امریکی ڈرون روزانہ عراقی حدود میں پرواز کررہے ہیں۔ ایسی حکومت کی مدد امریکا کی مدد کے مترادف ہے۔ اب یہ ایک معما نہیں تو اور کیا ہے کہ ایک طرف امریکا شامی حکومت کے خلاف مجاہدین کی امداد کررہا ہے، مگر دوسری طرف امریکا اور شامی حکومت میں اس قدر گٹھ جوڑ ہے کہ عراق میں شامی فوج امریکی کٹھ پتلی کو بچانے کے لیے لڑ رہی ہے۔ یہی سوالیہ نشان ایران پر عائد ہوتا ہے جو امریکا مخالف ہونے کا دعویدار بھی ہے، مگر اس کے بغل بچہ عراقی حکومت کی عسکری مدد بھی کررہا ہے۔ ان معموں کی حقیقت یہ ہے ایک مدت سے یہ مسلم ممالک امریکی مہروں کے طور پر استعمال ہورہے ہیں، مگر امریکا صرف اسی پر اکتفا نہیں چاہتا کہ حکمران اس کے زیرِ سایہ ہوں، بلکہ ا س کی منصوبہ بندی یہاں تک ہے کہ حکومتوں کے علاوہ انقلابی تحریکیں بھی ا س کی یرغمال ہوں۔
اس نازک اور عجیب ترین صورتحال میں بہت سوچ سمجھ کرفیصلے کرنا ہوں گے۔ باقی ہوگا وہی جو اللہ چاہے گا۔ عرب کی جس بہار سے پھول کھلنے کی توقعات تھیں، و ہ خزاں ثابت ہورہی ہے۔ کسی ایک ملک میں بھی اسلام زندہ نہیں ہوا، بلکہ حالات مزید اَبتر ہوتے جارہے ہیں۔ بہار کے سندیسوں کو عالمی طاغوتوں نے کہیں جلادیا، کہیں دبا دیا اور کہیں غیرمحسوس طور پر وہ انہیں اپنے لیے استعمال کررہے ہیں۔ ان حالات میں اللہ سے دعا کریں وہ کفریہ طاقتوں کی ان چالوں کو انہی پر اُلٹ دے۔ جہاں جہاں امریکا جن مذموم مقاصد کے لیے سیاسی و عسکری مداخلت کررہا ہے، وہاں بازیاں الٹ جائیں، پانسے پلٹ جائیں اور خزاں سے پھر بہار کے شگوفے پھوٹ نکلیں۔ اللہ کی طاقت و قدرت سے کچھ بھی بعید نہیں۔ ماہِ رمضان کی مبارک ساعات میں دشمنانِ اسلام کے چنگل سے پوری اُمتِ مسلمہ کی نجات کے لیے نہایت خشوع و خضوع سے دعائیں کریں، کیونکہ ہم اُمت کا ایک حصہ ہیں۔ کسی بھی خطے کی تکلیف ہماری تکلیف ہے۔
Flag Counter