Deobandi Books

ہفت روزہ ضرب مؤمن 20 تا 26 جون 2014

ہ رسالہ

8 - 8
بجنگ آمد!
گزشتہ ہفتے سندھ و بلوچستان کے ساحلی علاقے طوفانی لہروں کی زد میں رہے۔ میڈیا نے اپنی عادت سے مجبور ہوکر طوفان کے خطرے کو کچھ اس انداز میں پیش کیا ،جیسے یہاں سب کچھ بہہ جانے کا امکان ہے، اس لیے ساحلی علاقوں میں رہنے والے لوگ خاصے سراسیمہ رہے۔ یہ انہی دنوں کی بات ہے۔ شہر میں ہلکی پھلکی بوندا باندی ہورہی تھی۔ بچوں اور نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد گلی میں نکلی ہوئی اس بوندا باندی سے ’’مستفید‘‘ ہورہی تھی اور ہم یہ سارا منظر دیکھ کر محظوظ ہورہے تھے۔ اتنے میں دیکھا، ہمارے دوست مسٹر کلین سر پر اخبار کا شیڈ سا بنائے آرہے ہیں، مگر ان کے چہرے پر تازگی کی بجائے خوف و دہشت کے سے آثارردکھائی دے رہے ہیں۔ موصوف گرد و پیش سے بے نیاز ہمارے پاس سے گزرنے لگے تو ہم نے انہیں اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے ان کے حسبِ حال ایک شعر پڑھا؎
کاغذ کی ناؤ سر پہ سجا کے چلی حیات
نکلی برون شہر تو بارش نے آلیا!
مسٹر کلین نے چونکنے کے انداز میں ہماری طرف دیکھا۔ چہرے پر طاری خوف کی کیفیت چھپانے کی کوشش کرتے ہوئے کہنے لگے

: ’’کیوں ملا جی! بارش کے سہانے اور رومانٹک موسم میں بھی آپ لوگوں کو موت سے ڈرانے کا فریضہ سر انجام دینے نکلے ہیں کیا؟ کچھ انجوائے کرنے دیں بچوں کو…۔‘‘ ہم نے عرض کیا: ’’دیکھیں! ہم تو خود بھی انجوائے ہی کر رہے ہیں موسم کو۔ ہم نے آپ کو حسب حال شعر سنایا ہے تو اس کا مطلب ہے ہم بھی اس رومانٹک موسم سے متاثر ہوئے ہیں۔ ہمیں تو آپ کے چہرے پر ہوائیاں اُڑتی دکھائی دے رہی ہیں۔لگتا ہے میڈیا پر طوفان کے خطرے کی پیشینگوئی نے آپ کو پریشان کردیا ہے ۔ کچھ نہیں ہوتا، میڈیا تو چائے کی پیالی میں بھی طوفان اُٹھاتا رہتا ہے۔ آپ خواہ مخواہ ڈر گئے؟‘‘
مسٹر کلین نے کہا: ’’اس طوفان سے کون ڈرتا ہے؟ اس طرح کے طوفان تو معمول کی بات ہے۔ میں تو اس طوفان سے ڈر رہا ہوں جو مشرق وسطیٰ اور خلیج میں آیا ہوا ہے۔‘‘ یہ کہتے ہوئے مسٹر کلین نے سر پر دھرا اخباری شیڈ اُتار دیا جو نیم تر ہوچکا تھا۔ اخبار کھول کر ہمارے سامنے رکھ دیا،
جس میں عراق اور شام میں مزاحمت پسند گروپوں کی پیش قدمی کی خبریں اور تصویریں شامل تھیں۔ مسٹر کلین نے کہا: ’’دیکھیں! یہ سب کیا ہورہا ہے؟ ان جہادی لوگوں نے پوری دنیا کو فساد کی آماجگاہ بنادیا ہے۔یہ کون سا جہاد ہے کہ یہ لوگ اپنے ہی مسلمانوں کے علاقے فتح کر رہے ہیں؟ آپ کیا سمجھتے ہیں؟ دنیا خاموشی سے یہ سب ہوتا دیکھتی رہے گی۔ مجھے لگتا ہے، دنیا میں ایک بڑی جنگ چھڑ جائے گی۔ اس کا نقصان اسلامی دنیا کو ہوگا اور اس کی ذمہ داری ان جہادی عناصر پر ہوگی۔‘‘ ہم نے عرض کیا: ’’دیکھیں! بات یہ ہے کہ خلیج اور مشرقِ وسطیٰ میں جو بھی ہورہا ہے، عمل اور ردّعمل کے سائنسی اصول کے تحت ہورہا ہے۔ وہاں عالمی طاقتوں نے کچھ مقامی فرقہ پرست عناصر سے مل کر جو ایک جعلی نظام بنایا تھا، جس میں اصل قوتوں کو دیوار سے لگاکر ایک مخصوص گروہ کو مسلط کرنے کا جو انتظام کیا تھا، وہ اب ناکام ثابت ہورہا ہے۔
ظلم و جارحیت کے شکار طبقات نے تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق ہتھیار اٹھالیے ہیں۔ اس جنگ کے نتائج کیا نکلیں گے؟ یہ تو وقت بتائے گا تاہم اب تک اتنی بات واضح ہوگئی ہے کہ خلیج اور مشرقِ وسطیٰ کے مظلوم عوام نے منافقت، جعل سازی اور دھونس دھاندلی پر مبنی عالمی نظام کے خلاف علم بغاوت بلند کردیا ہے۔ عالمی برادری کا اگر کہیں وجود ہے اور وہ روئے زمین پر امن و استحکام دیکھنا چاہتی ہے تو اسے اس نظام کی اصلاح پر توجہ دینا ہوگی اور منافقت کا طرز عمل ترک کرنا ہوگا…‘‘ ہم یہاں تک پہنچے تھے بوندا باندی تھوڑی تیز ہونے لگی۔ مسٹر کلین نے ایک بار پھر اخبار کا شیڈ بنالیا اور سر پر رکھ کر اپنے گھر کی طرف روانہ ہوگئے۔
Flag Counter