Deobandi Books

ہفت روزہ ضرب مؤمن 20 تا 26 جون 2014

ہ رسالہ

4 - 8
دہلیز
ملک کی صورت ِحال عجیب و غریب کب نہیں تھی کہ یہ بات ایک بار پھر کہی جائے، کہنے کا فائدہ بھی کیا...؟ الیکشن سے پہلے جو وعدے کیے گئے تھے، ان میں سے ایک یہ تھا کہ عوام کو ان کے حقو ق ان کی دہلیز پر پہنچائیں گے... عوام اس انتظار میں ہیں ان کے حق ان کی دہلیز پر کب پہنچیں گے...؟ عوام پُرامید ہیں اور حکمران ان سے زیادہ پُراُمید کہ ان شا ء اللہ ایسا ہو گا... وہ دن ضرور آئے گا... جب ہر شخص کو اس کے حقوق گھر بیٹھے ملا کریں گے... اور لوگ حکومت کے گن گایا کریں گے... ’’دہلیز‘‘... یہ لفظ اپنے اندر ایک ایک خاص قسم کی اپنائیت لیے ہوئے ہے... اس کا عام ترجمہ ہے ڈیوڑھی... ہم اس لفظ کو اپنی کہانیوں میں، اپنے مضامین اور اپنے کالموں میں خوب استعمال کرتے ہیں...انسان یوں بھی اپنی دہلیز میں خود کومحفوظ خیال کرتا ہے... اسے اطمینان ہوتاہے میں اپنی دہلیز میں ہوں...
ہمارے حکمران عوام کے حقوق ان کی دہلیز تک پہنچاتے ہیں یا نہیں...؟ یا کب تک پہنچاتے ہیں؟ اور کس حد تک پہنچاتے ہیں؟ اس سے قطع نظر... ’’دہلیز‘‘ بار بار میرے سامنے آجاتی ہے... پتا نہیں، اس میں کیا بات ہے... جب سے کسی کالم میں یہ بات پڑھی ہے کہ حکمرانوں نے الیکشن سے پہلے بلند بانگ دعوے کیے تھے ’’عوام کو ان کے حقوق ان کی دہلیز پر ملیں گے...‘‘ اسی وقت سے نہ جانے کیوں لفظ ’’دہلیز‘‘ دماغ میں ہل چل مچائے جا رہا ہے

... میرے دماغ میں ایک کھچڑی سی پک رہی ہے۔ یہ کھچڑی اورنگ زیب عالم گیرؒ کی کھچڑی کی یاد تازہ کر رہی ہے... جی ہاں! انہوں نے بھی تو ایک بار کھچڑی پکوائی تھی... صرف اپنے با ورچی کی خاطر... چلیے! یہ تو زیادہ دور کی بات نہیں... اس با ورچی کو بھی اپنی ’’دہلیز‘‘ پر سب کچھ مل گیا تھا...
ہوا یوں تھا اورنگ زیب عالم گیرؒ کے لیے ایک نیا باورچی رکھا گیا... پرانا باورچی بوڑھا ہو گیا ہوگا... شاید اس لیے... باورچی بہت خو ش تھا کہ وہ بادشاہِ ِ ہند کا باورچی بن گیا ہے... بس اس کے وارے نیارے ہیں... لیکن وہ ان واروں نیاروں کو ترس گیا... اورنگ زیبؒ تو طرح طرح کے کھانے کھاتے ہی نہیں تھے... وہ تو کھچڑی کھالیتے تھے... اس بے چارے کو انعام و اکرام کیا ملتا... تنگ آکر اس نے اورنگ عالم گیرؒ کے سامنے ہاتھ جو ڑ دیے۔ کہنے لگا : ’’حضور! میں تو بھر پایا... ایسی ملازمت سے... مجھے تو آپ فارغ کردیجیے۔‘‘ بادشاہ نے حیران ہو کر وجہ پوچھی تو اس نے کہا: ’’میرا خیال تھا... شاہِ ہند کا باورچی بن گیا ہوں... روز روز طرح طرح کے کھانے پکانے ہوا کریںگے... اور ان کے ذائقوں پر انعام پر انعام ملا کریں گے... لیکن آپ تو دال، دلیا اور ساگ پات کے سواکچھ کھاتے ہی نہیں... مجھے انعام کیسے ملے...؟‘‘
اورنگ زیب عالمگیرؒ اس کی بات سمجھ گئے... مسکرائے اور کہنے لگے : ’’اچھا! آج تم ایسا کرو کہ آدھ پائو دال کی کھچڑی پکائو۔‘‘ باورچی کا منہ بن گیا کہ لو... یہ انعام دینے کی تیاری ہو رہی ہے... لیکن مرتا کیا نہ کرتا، کھچڑی تو پکانی پڑی... وہی کھچڑی جو میرے دماغ میں یہ کالم لکھتے وقت پک رہی ہے... شاہی باورچی کھچڑی تیار کر کے لے آیا۔ اورنگ زیب عالمگیرؒکے سامنے رکھ دی... بادشاہ نے اپنے وزرا اور امرا کے حساب سے اس کھچڑی کی چھوٹی چھوٹی ڈھیریاں ایک تھال میں لگا دیں۔
پھر اس سے بولے : ’’میر ے تمام وزرا اور امرا کے پا س جائو... ان سب کو ایک ایک ڈھیری دینا اور ان سے کہنا، بادشاہ کی طرف سے یہ آ پ کو تحفہ بھیجا گیا ہے۔‘‘
یہ سن کر با ورچی کا منہ بن گیا کہ اس سے کیا ہوگا...؟ یعنی کھچڑی کی چھوٹی چھوٹی ڈھیریوں سے میرا کیا بھلا ہو گا...؟ ظاہرہے، اس وقت اس باورچی کے دما غ میں بھی کھچڑی پک رہی ہو گی... جیسی آج کل عوام کے دماغوں میں پک رہی ہے... لیکن وہ با ورچی تھا اورنگ زیب عالمگیرؒ کا... اور ہم عوام ہیں اپنے حکمرانوں کے... ہماری دہلیزیں تو لوڈ شیڈنگ سے مالا مال ہیں۔ ہاں! یہ ضرور کہا جا سکتا ہے... حکمرانوں کا وعدہ تھا... عوام کے حقوق ان کی ’’دہلیز‘‘ پر پہنچا ئے جائیں گے... ہم دیکھ رہے ہیں... لوڈ شیڈنگ ہر دہلیز پر موجود ہے... حکمرانوں نے یہ وعدہ تو پورا کر دیاہے... ابھی 4 سال باقی ہیں... باقی وعدے بھی اسی طرح ’’دہلیز‘‘ پر پہنچیں گے۔
اورنگ زیبؒ کے باورچی کی بات درمیان میں رہ گئی... وہ بے چارہ بھی کیا سوچے گا... کھچڑی کی ڈھیریوں والا تھال سرپر رکھے جب وہ پہلے وزیر کے پاس گیا اور اسے بتایا کہ بادشاہ نے آپ کو تحفہ بھیجا ہے تو وہ اُچھل پڑا... نہایت ادب اور احترام سے بادشاہ کا تحفہ وصول کیا... اور با ورچی کو انعام واکرام سے لا د دیا... باورچی بے چارے کے تو وہم وگما ن میں بھی نہیں تھا کہ ایسا ہو گا... اب تو اس کی باچھیں کھل گئیں... کیونکہ ابھی تو اس نے صرف ایک ڈھیری ’’سرو‘‘ کی تھی... اس کے پاس تو انعام و اکرام سے لدنے کے لیے بہت سی ڈھیریاں موجود تھیں... وہ باری باری سب کے پاس آیا... او ر سب نے اسے انعام واکرام سے لاد دیا... گویا دیکھتے ہی دیکھتے... ہر چیز اس کی دہلیز پر پہنچ گئی... وہ میری یا آپ کی دہلیز نہیں تھی... مغل بادشاہ کے باورچی کی دہلیز تھی... یہ بات مجھے اس لیے بھی یاد آگئی ہمارے موجود ہ حکمرانوں کوبھی مغلیہ حکمرانوں سے ایک نسبت ہے... انہیں چاہیے اس نسبت کا ہی کچھ خیال کریں۔ لوگوں کی دہلیز پر ان کے حقوق پہنچا ئیں... یہ ان کا وعدہ بھی تو ہے نا!... ان کی معلومات میں اضافے کے لیے یہ بھی بتادینا ضروری ہے کہ لوگوں کے حقوق ان کی دہلیز تک پہنچا نے کا مطلب کیا ہے...؟ مطلب یہ کہ اب میں مطلب کی بات پر آتاہوں... مہربانی فرما کر آپ مجھے مطلبی نہ سمجھیں...
حضرت عمرؓ یعنی مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ رات کے وقت رعایا کے حالات جاننے کے لیے گشت کر رہے تھے... ایک بد و اپنے خیمے سے باہر بیٹھا نظر آیا... آپ جاکر اس کے پاس بیٹھ گئے۔ اس سے ادھر ادھر کی باتیں شروع کر دیں... ایسے میں خیمے میں تکلیف میں مبتلا خاتون کی آواز یں آنے لگیں... حضرت عمرؓ نے پوچھا : ’’یہ کون رو رہا ہے؟‘‘ ا س نے بتایا: ’’میری بیوی درد ِ زہ میں مبتلا ہے... اور اس کی مدد کے لیے کوئی خاتون یہاں ہے نہیں۔‘‘ یہ سن کر آپ فوراً اُٹھے، گھر آئے... اپنی زوجہ محترمہ حضرت اُمِ کلثومؓ سے فرمایا : ’’اٹھیں! آپ کو میرے ساتھ چلنا ہے... ایک خاتون کو آپ کی ضرورت ہے۔‘‘ آپ نے انہیں صورت ِحال بتائی تو انہوں نے ضرورت کی چیزیں ساتھ لے لیں۔ آپ انہیں ساتھ لے کر خیمے پر آئے... بدو کو بتایا : ’’یہ میری بیوی ہیں... کیا انہیں اندر جانے کی اجازت ہے؟‘‘ بد و نے حیرت کے عالم میں سر ہلا دیا... حضرت اُمِ کلثومؓ خیمے میں داخل ہوگئیں... وہ اندر اپنے کام میں مصروف ہوگئیں... آپ خیمے سے باہر بد و سے باتیں کرنے لگے... ایسے میں بچے کے رونے کے آواز آئی... ساتھ ہی حضرت اُمِ کلثومؓ نے اندر سے کہا: ’’امیرالمؤمنین! اپنے دوست کو مبارک باد دیجیے ! اللہ تعالیٰ نے انہیں بیٹا عطا فرمایا ہے۔‘‘
بدو نے امیرالمؤمینن کا لفظ سنا تو اُچھل پڑا... اب اسے پتا چلا جو شخص اپنے گھر سے اپنی بیوی کو رات کے وقت اس کی بیوی کی مدد کے لیے لایا ہے... وہ مسلمانوں کے خلیفہ حضرت عمرؓ ہیں... وہ دھک سے رہ گیا۔ آپ کے سامنے با ادب ہو گیا، ورنہ اس سے پہلے تو وہ ان سے ایک عام آدمی کی طرح باتیں کرتا رہا تھا... امیرالمؤ منین حضرت عمرؓ نے اس کے چہرے پر گھبراہٹ کے آثار دیکھے تو فرمایا : ’’کچھ خیال نہ کرو... ( یعنی گھبرانے کی ضرورت نہیں ) کل میرے پاس آنا، میں بچے کا وظیفہ مقرر کر دوں گا۔‘‘ آپ نے دیکھا... حقوق ’’دہلیز‘‘ پر پہنچے یا نہیں...؟ اسے کہتے ہیں دہلیز پر حقوق پہنچنا... اگرچہ اس بے چارے بدو کی کوئی دہلیز نہیں تھی... لیکن دہلیز کے نہ ہونے سے کیا ہوتا ہے... اصل بات تو حقوق کے پہنچانے کی ہے... اور ملاحظہ فرمائیں :
ایک رات حضرت عبد الرحمن بن عوفؓ عنہ کے دروازے پر پہنچ گئے... حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ باہر آئے تو آپ کو دیکھ کر عرض کیا : ’’آپ نے کیوں تکلیف کی...؟ مجھے بلا لیا ہوتا۔‘‘ آپؓ نے فرمایا : ’’مجھے ابھی ابھی معلوم ہو اہے شہر سے باہر ایک قافلہ آیاہے... وہ لوگ تھکے ماندے ہوں گے... آئو چل کر ان کا پہرہ دیں۔‘‘ چنانچہ دونوں صاحبان گئے۔ رات بھر پہر ہ دیتے رہے... ایک روز آپ لوگوں کو کھانا کھلا رہے تھے... ایک شخص کو دیکھا، وہ بائیں ہاتھ سے کھانا کھا رہا تھا... آپؓ نے اس کے پاس جا کر کہا: ’’دائیں ہاتھ سے کھائو۔‘‘ اس نے کہا: ’’جنگ موتہ میں میرا دایاں ہاتھ جاتا رہا۔‘‘ حضرت عمرؓ یہ سن کر اس کے پاس بیٹھ گئے اور رونے لگے۔ ساتھ میں کہنے لگے : ’’افسوس ! تمہیں وضو کون کراتا ہو گا...؟ سرکون دھوتا ہوگا؟‘‘ پھر آپؓ نے اس کے لیے ایک خادم مقرر کر دیا... اس کے بعد تمام ضرور ی چیزیں مہیا کر دیں... یعنی اس کی دہلیز پر پہنچا دیں... یہ مضمون دہلیز سے شروع ہواتھا... دہلیز پر ختم ہو رہا ہے... اللہ سے دعا ہے... ہمارے حکمران اس ’’دہلیز‘‘ کا کچھ خیال کر لیں... اور درویش کی صدا کیا ہے...
Flag Counter