Deobandi Books

ہفت روزہ ضرب مؤمن 20 تا 26 جون 2014

ہ رسالہ

5 - 8
مشرقِ وسطیٰ کی تقسیم کی تیاریاں یا پھر
’’کولڈ وار‘‘ یعنی سرد جنگ کا ایک زمانے میں بڑاغلغلہ تھا۔ دنیا کو یہ باور کرایا جا رہا تھا امریکا اور سوویت یونین ایک دوسرے کے دشمن ہیں۔ یہ دو انتہائیں ہیں جو کسی بھی وقت ٹکرا سکتی ہیں۔ اس سے دنیا میں تباہی و بربادی نازل ہو جائے گی۔ ظاہری دو متحارب فریق اندریں خانہ ایک تھے۔ مثلاً ایک عرصے تک ان کے عزائم، مقاصد، ترجیحات اور اہداف یکساں رہے۔ دونوں میں سے ہر ایک’’اکلوتا عالمی استعمار‘‘ اور ’’بلاشرکت غیرے سامراج‘‘ بننے کا متمنی رہا۔ دونوںحرص مال اور حرص سلطنت کے مارے تھے۔ دونوں غریب کش مہم کے پیروکار تھے۔ دونوں یہودی مفادات کی پاسبانی کے لئے اکٹھے تھے۔ دونوں عالمِ اسلام کی پشت میں خنجر گھونپنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتے۔ دونوں کا بڑا مقصد امت مسلمہ کی نظریاتی و جغرافیائی وحدت کو پارہ پارہ اور اُمت محمدی کے اتحاد کو سبوتاژ کرنا تھا۔ دنیا جانتی ہے مشرقِ وسطیٰ کی شہ رگ پر اسرائیل سرطان کے پھوڑے کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس پھوڑے کی تولید و تخلیق امریکااور سوویت یونین کامشترکہ مشن تھا۔
سر زمین فلسطین پر ان دونوں سامراجی طاقتوں کی پشت پناہی نے اسرائیل نامی ناجائز ریاست کو جنم دیا۔ سوویت یونین نے اسرائیل کو افرادی قوت، انفراسٹرکچر اور عسکری امداد فراہم جبکہ امریکا نے اس کی شہری ترقی، زرعی آبادکاری، معاشی استحکام، دفاعی مضبوطی، ریاستی سلامتی اور جغرافیا

ئی توسیع کے لیے ہمہ جہتی امداد کے در وا رکھے۔ یہ سچائی بھی موجود کہ برطانیہ بھی اس ’’کارخیر‘‘ میں پیش پیش رہا، لیکن ظاہری دشمن باطنی پر ایک ہی مشن پر گامزن رہے۔ یہ دونوں ممالک مشرقِ وسطیٰ کے سادہ لوح عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے ایک دوسرے کو للکارتے رہے۔ 60ء کے عشرے کے آخری سالوں میں اسرائیل ان دونوں سامراجی قوتوں کی شہ پر عرب ممالک پر چڑھ دوڑا۔ اس جنگ کے دوران اگرعرب ممالک کی شہری آبادیوں اور عسکری تنصیبات پر فضائی حملے کرنے والے طیارے امریکی تھے تو ان پر کارپٹ بمبنگ کرنیوالے پائلٹ روسی۔ دوسری عالمگیر جنگ کے بعد امریکی و مغربی میڈیا نے سرد جنگ کا ڈرامہ رچایا۔ دنیا بھر کے بھولے بھالے شہریوں کو گمراہ اور بدراہ کرنے کے لیے ایک دوسرے کیخلاف پراپیگنڈہ کی یلغار کی گئی۔ حقیقت حال اس سے بھی ثابت ہو جاتی ہے کہ اگر سوویت یونین امریکی عزائم کا حقیقتاً مخالف تھا تو قیام اسرائیل کے منصوبے کی حمایت کیوں کی ؟
یہ اسرائیل مشرق وسطیٰ کا وہ ناسور ہے جس نے دنیا کا مستقبل دائو پر لگا دیا ہے۔ پوری دنیا کے یہودی اس اسرائیل کو بچانے، محفوظ بنانے اور عالم اسلام کے خلاف کھڑا کرنے کے لیے ہر طرح کی مدد اور سپورٹ کر رہے ہیں۔ امریکا اسرائیل کی بقاء اور دوام کے لیے مشرق وسطیٰ میں اکثر مہرے بدلتا رہتا ہے۔ امریکا جانتا ہے جب تک سولہ اسلامی ممالک میں گھرا اسرائیل محفوظ نہیں ہوگا اس وقت تک امت مسلمہ کے خلاف بڑا قدم نہیںاٹھایا جا سکتا۔ مشرق وسطیٰ کے سینے پر اسرائیلی پھوڑے کی تخلیق ہی مسلم امہ بالخصوص مشرق وسطیٰ کے اسلامی ممالک کے خلاف ایک بڑی سازش تھی۔ امریکا اب اس اسرائیل کے استحکام کے لیے نئی چال اور سازش بن رہا ہے۔ ان دنوں عراق میں آئی ایس آئی ایس نامی گروپ بڑا متحرک ہے۔ اس گروپ کا پورا نام دولت اسلامیہ فی عراق و الشام ہے۔ اس گروپ کا اصل مقصد عراق، شام، ترکی، لبنان، فلسطین، اردن اورقبرص کے کچھ علاقوں پر مشتمل ایک نئی ملت اسلامیہ کا قیام ہے۔ یہ گروپ 2003ء میں سامنے آیا۔ ابتدائی نام جماعت التوحید والجہاد تھا۔ پھر تنظیم قیادت جہاد فی البلاد رکھا۔ اب دولت اسلامیہ فی عراق و الشام۔ اس گروپ کے سربراہ ابوبکر ال بغدادی ہیں۔ یہ بغداد کے شمالی علاقے سامرہ میں پیدا ہوئے۔ 2003ء سے امریکی حملے کے خلاف ہونے والی مزاحمت میں شامل ہوئے۔ اس گروپ کا تعلق القاعدہ سے تھا بعدازاں اختلافات کی وجہ سے یہ گروپ علیحدہ ہو گیا۔ اب اس کے ہزاروں جنگجو عراق، شام اور ترکی میں پھیلے ہیں۔ عراق میں ان دنوں ان کی کارروائیاں عروج پر ہیں۔


٭ مشرقِ وسطیٰ کی شہ رگ پر اسرائیل سرطان کے پھوڑے کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس پھوڑے کی تولید و تخلیق امریکااور سوویت یونین کامشترکہ مشن تھا۔ ٭
اسرائیل، مشرق وسطیٰ کا وہ ناسور ہے جس نے دنیا کا مستقبل دائو پر لگا دیا ہے۔ پوری دنیا کے یہودی اس اسرائیل کو بچانے، محفوظ بنانے اور عالم اسلام کے خلاف کھڑا کرنے کے لیے ہر طرح کی مدد اور سپورٹ کر رہے ہیں۔ ٭

اس گروپ نے اس سے قبل بھی نمایاں فوجی کامیابیاں حاصل کیں۔ اس گروپ نے 2013ء میں شام کے شہر رقہ پر قبضہ کر لیا تھا۔ جنوری 2014ء میں اس گروپ نے عراق کے فلوجہ شہر پر قبضہ کر لیا۔ رمادی کے بڑے حصے پر بھی قابض رہا، مگر تازہ ترین کارروائیوں نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اس گروپ نے پچھلے دس دنوں میںتکریت، دیالہ صوبے میں سعدیہ اور جلولہ اور عراق کے دوسرے بڑے شہر موصل پر بھی قبضہ کر لیا۔ تکریت اور موصل پر قبضے کے بعد عام تاثر یہی پھیل رہاہے کہ یہ گروپ عنقریب بغداد پر بھی چڑھ دوڑے گا جس کے بعد عراقی حکومت کو بچانا مشکل ہو جائے گا۔ اس وقت شام کا ایک شہر اور عراق کے چار شہر اس گروپ کے زیر کنٹرول ہیں۔
مشرقِ وسطیٰ میں اور بھی کئی گروپ برسرپیکار ہیں۔ کئی گروپوں کے پاس اسلحہ بھی امریکن ساختہ ہے۔ ایم 16 گن، ایم 60 مشین گن، ایم 240 مشین گن اور آر پی جیز بھی امریکی ہیں۔ اسی طرح ہمویز، ایم آر اے پی ایس، ایم 113، اے پی سی ایس اور ٹی 55 ٹینک بھی امریکن ہیں۔ ان کی یونیفارم بھی امریکی ہے۔ امریکا ان کی مالی و عسکری مدد کر رہا ہے، لیکن کچھ لوگوں کا کہنا ہے اس گروپ کے پاس امریکن اسلحہ عراق جنگ میں چھینا گیا۔ یہ امریکن وردی اس لئے پہنتے ہیں تا کہ کارروائیوں میں دشمن کو دھوکا دے سکیں۔ دوسری تھیوری یہ ہے کہ یہ خالصتاً جہادی تنظیم ہے۔ القاعدہ طرز پر منظم ہے۔ یہ ان ممالک میں اسلامی مملکت کے لئے سرگرداں ہے۔ یہ اسلامی ممالک میں صہیونی طاقتوں کی ریشہ دوانیوں کا قلع قمع کا عزم کئے ہوئے ہے۔ یہ امریکا اور اس کے حواریوں کے خلاف برسرپیکار ہے۔
امریکا اب افغانستان سے انخلاء کے بعد مشرق وسطیٰ پر اپنی خونی نظریں گاڑھ چکا ہے۔ امریکی صدر باراک حسین اوباما اس کا اظہار دورہ افغانستان اور ویسٹ پوائنٹ امریکی ملٹری اکیڈمی میں خطاب کے دوران کر چکے۔ انہوں نے واشگاف الفاظ میں کہا:’’افغانستان سے انخلاء کے بعد امریکا کی توجہ مشرق وسطیٰ پر مرتکز ہوگی۔ امریکا مشرق وسطیٰ اور افریقہ میں القاعدہ گروپس کا پیچھا کرے گا‘‘ صدر اوباما اور امریکا کی اس پالیسی کی حقیقت جاننے کے لیے میں یہاں آپ کو یہ بھی بتاتا چلوں کہ امریکا مشرق وسطیٰ میں ہنگامی طور پر فوجی اڈے کی تعمیر پر کاربند ہے۔ کچھ عرصہ قبل اسی حوالے سے امریکا کے ہی ایک اخبار ’’یو ایس اے ٹو ڈے‘‘ نے دعویٰ کیاتھا کہ امریکی بحریہ مشرق وسطیٰ میں ایک ہنگامی فوجی اڈے کے قیام کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔ اس فوجی اڈے کا مقصد
مشرق وسطیٰ میں امریکی مفادات کے تحفظ کے ساتھ ساتھ خطے میں جاری بحرانوں سے نمٹنے میں مدد فراہم کرنا ہے۔ اس اڈے پر موجود فوجی طیارے حکم ملنے کے ایک گھنٹے کے اندر اندر آپریشن کردیں گے۔ یہ ہنگامی بحری بیڑہ بحرین کے ساحل پر ہو گا جہاں سے کچھ ہی فاصلے پر امریکا کا پانچواں بحری بیڑہ بھی موجود ہے۔ اس فوجی اڈے پر افغانستان اور مشرق وسطیٰ کے مختلف محاذوں پر سروسز فراہم کرنے والے فوجیوں کو تعینات کیا جائے گا۔ یوں مشرق وسطیٰ بالخصوص عراق، شام اور لبنان وغیرہ اب امریکا کی نئی سازش کے گھیرے میں ہیں۔ عالمی استعماری طاقتیں عالم اسلام کو تنہا کر کے مارنے کے درپے ہیں۔ یہودی مشرق وسطیٰ میں گریٹر اسرائیل کا قیام دیکھ رہے ہیں۔
Flag Counter