Deobandi Books

ہفت روزہ ضرب مؤمن 20 تا 26 جون 2014

ہ رسالہ

2 - 8
کراچی ایرپورٹ پر حملہ
کراچی ایرپورٹ پر حملے نے ایک بار پھر ملک میں امن و امان کے حوالے سے حکومتی منصوبہ بندی اور پالیسی پر سوالیہ نشان لگادیے ہیں۔ اس سے قبل پی پی پی کے دورِ حکومت میں 2009ء میں جی ایچ کیوپر حملہ ہوا تھا۔ 2011ء میں بحریہ کے مہران ایربیس کو نشانہ بنایا گیا۔ 2 سال قبل باچاخان ایرپورٹ اور کامرہ ایربیس پر حملے ہوئے۔ یہ تمام کارروائیاں ثابت کرتی رہیں گزشتہ حکومت خوداپنی حفاظت کے قابل بھی نہیں تھی۔ موجودہ حکومت کے دور میں یہ اس قسم کا پہلا بڑا حملہ ہے جس نے پورے ملک میں تشویش کی ایک لہر دوڑادی ہے۔ پورے ملک کی پروازیں معطل ہوگئیں۔ ہرشخص کو یہ پیغام ملا کہ پاکستان غیرمحفوظ ملک ہے۔ حملہ آور اگر یہی ثابت کرنا چاہتے تھے جیسا کہ بعض تبصرہ نگاروں کا خیال ہے تو کون کہہ سکتا ہے وہ اپنا ہدف پانے میں ناکام رہے؟
حکام کی نااہلی تو اسی سے ثابت ہے کہ وہ 24 گھنٹوں میں کولڈ اسٹوریج میں پھنسے ہوئے افراد کو نہیں نکال پائے جن کے اعزہ و اقارب انہیں بچانے کے لیے دہائیاں دیتے رہے، مگر ڈیوٹی پر تعینات آفیسرز انتہائی غیرذمہ داری کا ثبو ت دیتے ہوئے ٹس سے مس نہ ہوئے۔ جس کے بعد یہ لوگ سڑکیں بلا ک کرنے اور احتجاجی مظاہروں پر مجبور ہوئے۔ جس ملک میں کوئی کام سیدھی طرح نہ ہورہا ہو، بلکہ ہر مظلوم کو احتجاج کی ضرورت پیش آتی ہو اور حکام اسی وقت کسی قضیے کو سنجیدگی سے دیکھتے ہوں۔ جب ان کی جان پر بن آئے تو ایسے میں امن و امان کے قیام کے خواب دیکھنا حماقت کے سوا کچھ نہیں۔ جس قسم کے حالات پاکستان میں ہیں، وہ تاریخ کا کوئی نیا تجربہ نہیں۔ جب بھی معاشرے میں ظلم و ستم کو فروغ ملا ہے، جب بھی قانون کا شکنجہ صرف غریب اور کمزور لوگوں کے لیے خاص کرکے ایوانِ اقتدار کو محاسبے سے بالاتر بنایا گیا، اس کا ردّعمل اسی طرح ظاہر ہوا ہے جیسا کہ ہم آج دیکھ رہے ہیں۔

ا س دوران اگر ایک سال کے لیے بھی پالیسی بدلی گئی تو حالات بھی تبدیل ہوگئے۔ سابقہ پالیسی دوبارہ اپنائی گئی تو پھر وہ ہی ردّعمل شروع ہوگیا۔ تاریخ کے ایسے تجربات کو جمع کیا جائے تو شاید کئی جلدیں بن جائیں، مگر فی الحال میں عمر بن عبدالعزیزؒ کے دورِ خلافت کا ذکر کرتا ہوں جن کی خلافت سے پہلے عالمِ اسلام میں جگہ جگہ بغاوتیں ہورہی تھیں۔ جب انہوں نے حکومت سنبھالی تو شورش پسند گروہوں سے براہِ راست مذاکرات کیے۔ یہ نہیں کہ اپنے نمایندوں کے ذریعے بات چیت کی، بلکہ بحیثیت سربراہِ حکومت انہیں اپنے ساتھ بٹھا کر کھلی بات چیت کی دعوت اور پیغام بھیجا: ’’خوں ریزی سے بھلا کیاحاصل ہوگا؟ آکر مجھ سے بات کرلو۔
میں حق پر ہوا تو تم مان لینا۔ اگر تم حق پر ہوگے تو میں اپنے طرزِ عمل پر غور کرلوں گا۔‘‘ جب وہ آئے تو انہیں پورا تحفظ دیا گیا۔ پوری وسعتِ قلبی سے ان کا موقف سنا گیا۔ انہیں اگر کوئی غلط فہمی تھی تو اس کا ازالہ کیا گیا۔ اگر ان کی کوئی شکایت بجا تھی اور اسے دور کرنا کسی بھی طرح ممکن تھا تو اسے دور کرکے دم لیا۔ پس ان کے دور میں پورے عالمِ اسلام میں مکمل امن رہا۔ کہیں کوئی شورش نہ ہوئی۔ ہرطرف راوی چین ہی چین لکھتا تھا۔ بھیڑیا اور بکری ایک ہی گھاٹ سے پانی پیتے تھے۔


تاریخ یہ بتاتی ہے ایسی مزاحمتی تحریکیں بہت کم کسی کامیاب اور صالح انقلاب کا ذریعہ بنی ہیں۔ اکثر وہ منزل تک رسائی سے پہلے ہی اغیار کے ہاتھوں ہائی جیک ہوجاتی ہیں۔ ٭
مودی کے اختیارات سنبھالنے اور پاکستان میں بدامنی کی نئی لہر شروع ہونے کا وقت ایک ہی ہے۔ ٭

کراچی ایرپورٹ پر حملے نے ظاہر کردیا ہے کہ یہ جنگ ختم ہونے والی نہیں۔ شاید یہ برسوں تک چلے۔ 10، 20 سال توکہیں نہیں گئے۔ جس طرح کشمیر کی جنگ 67 سال سے جاری ہے، کبھی تیز ہوجاتی ہے کبھی دھیمی۔ اسی طرح پاکستان کے طول و عرض میں ہونے والے یہ حملے جن کا مرکز فی الحال شمالی وزیرستان کو بتایا جارہا ہے، اگلے کئی سالوں اور حکومتوں کی تبدیلی کے باوجود ختم ہونے والے نہیں لگتے۔ قدیم ایام سے لے کر جدید تاریخ تک اس کا ثبوت دیتی ہے کہ ایسی تحریکوں کو دبانا آسان ہے، مگر ختم کرنا بے حدمشکل۔ اس وقت ٹی ٹی پی کے مبینہ ٹھکانوں پر فضائی حملے بھی وقفے وقفے سے جاری ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ آیندہ کچھ دنوں یا ہفتوں میں وہاں سوات جیسا کوئی آپریشن کلین اپ شروع کردیا جائے کہ اس وقت اربابِ حکومت اور پاک فوج کے مابین ایک بڑا آپریشن کرنے نہ کرنے پر مشاورت چل رہی ہے۔ بہی خواہانِ قوم تو یہی فریاد کررہے ہیں کہ حکومت اور طالبان جنگ بند کردیں۔ مذاکرات کی میز پر آجائیں، مگر سنتا کون ہے؟ شاید دونوں طرف ایسے لوگ غالب ہیں جو طاقت ہی سے قضیے کو حل کرنا چاہتے ہیں۔
ایک طرف تو تاریخ یہ بتاتی ہے ایسی مزاحمتی تحریکیں بہت کم کسی کامیاب اور صالح انقلاب کا ذریعہ بنی ہیں۔ اکثر وہ منزل تک رسائی سے پہلے ہی اغیار کے ہاتھوں ہائی جیک ہوجاتی ہیں۔ ان میں تقسیم در تقسیم کا عمل شروع ہوجاتا ہے جو انہیں کسی بڑے ہدف کے حصول کے قابل نہیں چھوڑتا، مگر دوسری طرف تاریخ کا سبق یہ بھی ہے کہ ایسے مزاحمت کار جو ظلم کے خلاف کھڑے ہوں اور چھاپہ مار کارروائیوں کے ذریعے سرکاری اہداف کو نشانہ بناتے ہوں، انہیں جگہ بدلتے دیر نہیں لگتی۔ مراکز تبدیل کرلینا ان کے معمولات کا ایک حصہ ہوتا ہے۔ زمینی قبضے ان کا ہدف ہوتے ہی نہیں، اس لیے ان سے زمین چھین لینا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ ان کا موقف چاہے حکومت، اصحابِ اختیار، اہلِ قلم اور اربابِ دانش کے نزدیک قابلِ اعتناء نہ ہو، مگر کٹے ہوئے سر، بکھری ہوئی لاشیں اور سوختہ بستیاں ان کے موقف کو عوام کی نگا ہ میں جاندار بنائے رکھتی ہیں، اس لیے ان کی افرادی قوت کبھی کم نہیں ہوتی۔ اگر ایک دن میں ان کے 10 افراد گرتے ہیں تو آدھے دن میں انہیں مزید 20 افراد مل جاتے ہیں۔ پس تاریخی تجزیے ہوں یا زمینی حقائق سب کا فیصلہ یہی ہے کہ اپنی پالیسی کو عدل و انصاف پر مبنی کیا جائے۔ ظلم و ستم کو ترک کیا جائے۔ اس کے بعد نیک نیتی کے ساتھ فریق مخالف کو مذاکرات کی میز پر بلایا جائے۔ دھوکا دیا جائے نہ دھوکا کھایا جائے۔ فریقین اپنی سیاسی اغراض یا اپنے جذبۂ انتقام کو ملک و ملت کے وسیع ترمفاد کی خاطر بھو ل جائیں۔ ایک دوسرے کے جائز مطالبات تسلیم کرلیں۔ ہمارے پاس زیادہ وقت نہیں ہے۔
سرحدپار ماتھے پر سرخ تلک لگانے والے کب سے برصغیر سے مسلمانوں کو بے دخل کرنے کی تیاری کررہے ہیں۔ بھارت اسلحے کے بے پناہ ذخائر صرف کشمیر پر کنٹرول کے لیے جمع نہیں کررہا۔ مودی جیسے شخص کو وہاں ایسے ہی حکومت نہیں مل گئی۔ میاں نوازشریف نے اس کی تقریبِ حلف برداری میں شرکت کرکے غیروں کا اعتماد تو شاید ہی حاصل کیا ہو، مگر اپنوں میں ان کا وقاریقینا کم ہوا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ مودی بلکہ اس کی پارٹی کا ہر کارکن پاکستان اور مسلمانوں کے بارے میں کیا خیالات رکھتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے مودی کے اختیارات سنبھالنے اور پاکستان میں بدامنی کی نئی لہر شروع ہونے کا وقت ایک ہی ہے۔ اس لیے بعض تبصرہ نگاروں کا یہ کہنا بے محل نہیں کہ بھارت پاکستان میں ایک بہت بڑی خانہ جنگی شروع کرنے کے لیے پسِ پردہ تعاون شروع کرچکا ہے۔ اس ضمن میں ایک نجی چینل کی اس رپورٹ کی تحقیق بھی ضروری ہوجاتی ہے ’’کراچی ایرپورٹ پر حملہ کرنے والوں سے انڈین ساختہ اسلحہ برآمد ہوا ہے۔ ‘‘ اللہ کرے! مسلمانوں میں یہ کشت و خون کسی طرح بند ہو۔ فریقین ہوش کے ناخن لیں۔ جذبات سے بالاتر ہوکر اپنے ان اصل دشمنوں کے عزائم کا نوٹس لیں جو صدیوں سے مسلمانوں کو لڑواکر ان پر حکومت کرنے کے عادی رہے ہیں۔
Flag Counter