Deobandi Books

ہفت روزہ ضرب مؤمن 6 تا 12 جون 2014

ہ رسالہ

7 - 7
قضیہ شام کا
سرزمینِ انبیا ملک شام 1946ء میں آزاد ہو کر بھی آج تک آزاد نہ ہو سکا۔ مسلسل انقلابات کی زد میں رہنے کے بعد 1970ء میں ایک آدم خور نے عنان حکومت سنبھالی اور عوام کی زندگی اجیرن بنا دی۔ 2011ء میں اس بڑے میاں کے بعد چھوٹا میاںبرسراقتدار آیا اور قتل و غارت گری کا بازار گرما دیا۔یوں گزشتہ 35سال سے باپ بیٹا ملک شام کے سیاہ و سفید کے مالک چلے آتے ہیں۔ بشارالاسد کو آج چار سال ہونے کو آئے ہیں، ایک تسلسل کے ساتھ عوام کو ذبح کیا جا رہا ہے۔ عالمی پابندیوں اور تنبیہات کے باوجود کیمیائی ہتھیاروں کا بے دریغ استعمال جاری ہے۔ایک عرب دانشور کے بقول: بشارالاسد جس تسلسل کے ساتھ عوامِ شام کو تہ تیغ کر رہا ہے، شاید سینما کی فلم میں اتنی کثرت سے قتل ہوتے نہ دیکھے گئے ہوں۔
شام کے عوام ایک ڈکٹیٹر شپ کی قہرمانیوں کی زدمیں ہیں۔ ان کی زندگی اجیرن ہو چکی۔ شیطنت کا علمبردار ایک سرکش حاکم ان کے لیے عذاب بن کر مسلط ہے۔ اب تک لاکھوں لوگ موت کے گھاٹ اتار چکا ہے اور اس قتل عام سے کسی بھی طور پر متاثرہ خاندانوں اور افراد کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔ سیکڑوں افراد ملک اور بیرون ملک ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے۔ بے شمار گھروں کومنہدم کر کے اور اجاڑ کر ویرانیوں کو بسا دیا گیا۔ ایسے افراد تو بے شمار ہیں جو بشار کی انا کا شکار ہو کر زندگی کی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔ ایک رپورٹ کے

مطابق شام میں ہر ہفتے اوسطاً ایک ہزارسے زائد افراد لقمہ اجل بنتے ہیں، چنانچہ گزشتہ تین سالوں اور چندماہ میں ایک لاکھ 60ہزار افراداس سربریت کا نشانہ بن چکے ہیں۔
بشار کی اس اندرونی درندگی کے علاوہ بہت سی بیرونی قوتیں بھی اس شام ظلم کو طول دینے میں اپنا حصہ ڈال رہی ہیں۔ وہ اپنے مخصوص مقاصد کے لیے مذہبی منافرت کو ہوا دے کر وہاں کی واضح اکثریت کو مغلوب بنانے میں اپنا پورا زور صرف کر رہی ہیں۔ اسلامی ممالک کی طرف سے اخلاقی تعاون تک کا فقدان نظر آتا ہے۔ چند ایک ممالک کو چھوڑ کر شاید پورے عالم اسلام کے لیے شامی عوام کے اس مسئلے میں کوئی دلچسپی کا عنصر موجود نہیں۔ اس شدید تعاونی بحران کے باوجود شام کے مظلوم عوام کی جرات و شجاعت کو سلام کہیے کہ وہ نہ صرف ایک ظالم کے آگے سر جھکانے کو تیار نہیں ہوئے بلکہ وہ مایوسی کے نام تک سے ناواقف ہیں۔
مسلم حکمرانوں اور عوام الناس کے پاس مظلوم شامیوں کی مدد کے بے شمار طریقے موجود ہیں۔ حکمران بیک آواز ہو کر عالمی دباؤ کے ذریعے اس اندھے ظلم کو رکوائیں۔ اپنا سیاسی وزن انہیں مظلوموںکے پلڑے میں ڈالیں۔ ظلم کا نشانہ بننے والے وہاں کے شہریوں کو مالی تعاون فراہم کریں۔
ان کو اپنے ہاں پناہ دے کر اپنا مذہبی فریضہ ادا کریں۔ میڈیا ذرائع حق ، سچ اور انصاف کی آواز بلند کریں۔ یہ ایک بڑی حقیقت ہے کہ ذرائع ابلاغ اس وقت کا سب سے بڑا جہاد اور دفاع کا ذریعہ ہیں۔ اگر وہ انصاف کے تقاضوں کو پورا کریں، صرف سچ اور حق کو نکھار کر اقوام عالم کے سامنے رکھ دیں، ان کا فریضہ ادا ہو جائے گا۔ ان شاء اللہ جلد یا بدیر مظلوموں کو انصاف مل کر رہے گا۔
حال ہی میں عالم عرب کی ایک معروف اور محبوب شخصیت علامہ ڈاکٹر یوسف القرضاوی نے اپنے ایک فتوے کے ذریعے عالم اسلام کو متوجہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس فتوے میں دنیا بھر کے معززین اور اہل اسلام سے شامی عوام کوظلم سے نجات دلانے کی درخواست کی ہے ۔ ڈاکٹر موصوف نے اس اندھی جارحیت، لٹتی عصمتوں، تباہ ہوتے مکانات اور اسلحے کے ناروا استعمال کے تناظر میں حق سچ کی آواز بلند کرنے کی تلقین کی ہے۔
3جون کو شام میں صدارتی انتخابات ہوچکے ہیں۔ یہ انتخابات ہیںیا ریفرنڈم، یہ تو وقت بتا ہی دے گا، تاہم ماہرین اس معاملے میں متفق نظر آتے ہیں کہ یہ انتخابات بشار الاسد نے اپنے ظلم و ستم کو ایک سیاسی جواز فراہم کرنے کے لیے کروائے ہیں۔ وہ یہ ظاہر کرنا چاہ رہے ہیں کہ شام کے عوام میرے تمام اقدامات کی تائید کرتے ہیں۔ بشار الاسد نے گزشتہ ایک بیان میں کہا تھا کہ ملک میں جاری خانہ جنگی ان کے حق میں جارہی ہے۔ مبصرین کی رائے میں بشار الاسد کا انتخابات منعقد کروانے کا یہ اقدام اس بات کی علامت ہے کہ بشار ملک میں جاری خونریزی کا تسلسل اور اپنے اقتدار کا مزید طول چاہتے ہیں۔
یہ حالات اتنی بات ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں کہ فی الحال مظلوم شامی عوام جمہوریت، حق خود ارادیت اور جاری ظلم سے نجات کے حوالے سے محروم ہیں، جبکہ عالم اسلام بے حسی کا شکار ہے۔ اسلامی ممالک ایک دوسرے کے مسائل بارے شدید غفلت اور مفاد پرستی کا شکار نظر آتے ہیں۔ اگر اہل اسلام اپنا فریضہ ادا کرتے تو شامی عوام پر ظلم کی یہ شب اتنی طویل نہ ہوتی۔ جانبدار میڈیا نے اسدی ظلم کا چہرہ ہی عوام الناس سے پوشیدہ رکھا ہوا ہے۔ عالم اسلام میں ہر حوالے سے کہیں جوڑ تو کہیں توڑ کا سلسلہ جاری ہے۔ اگر نہیں ہے تو مظلوم مسلم ممالک، بالخصوص شام سے متعلق نہیں ہے۔
بحیثیت مسلم برادری ،شامی بھائیوں کا درد ہمارے دل میں جاگزیں ہونا چاہیے۔ آپ یہ حدیث پاک ملاحظہ کیجیے اور اپنے احوال پر ایک نظر ڈالیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’ جو شخص بھی اپنے اس مسلمان بھائی کی مدد کرے جو ایسے ملک میں رہتا ہے جہاں اس آبرو محفوظ نہیں اور جہاں اس کی جان کو خطرہ لاحق ہے تو اللہ تعالی اس مدد کرنے والے کی ایسے ملک میں مدد کرے گا جہاں وہ چاہے گاکہ اس کی نصرت کی جائے۔ جس آدمی نے کسی مسلمان کو بے یارو مدد گار چھوڑ دیا ایسے ملک میں جہاں اس کی جان محفوظ نہیں تو اللہ بھی اسے اس ملک میں تنہا چھوڑ دے گا جہاں وہ چاہے گا کہ اس کی مدد کی جائے۔‘‘سو، آج اگر ہم قدرے بہتر حالت میں ہیں تو اپنے مستقبل کو محفوظ کرنے کے لیے تمام برادر اسلامی ممالک کے مسائل کو اپنے مسائل سمجھیں اور اخلاقی فرائض سے غافل نہ رہیں۔ اس بات سے تو کوئی مسلمان بھی خالی نہ رہے کہ اپنے تمام مظلوم مسلمان بھائیوں، بالخصوص شامیوں کی اس شام غم سے نجات کے لیے اللہ کے سامنے ہاتھ پھیلا کر مسلسل دعا کرتا رہے۔
Flag Counter