Deobandi Books

ہفت روزہ ضرب مؤمن 6 تا 12 جون 2014

ہ رسالہ

3 - 7
وہ دن جو بھلادیا گیا
’’پوکھران‘‘ بھارتی صوبے راجستھان کا ایک پہاڑی مقام ہے۔ 1974ء میں دنیا بھر کی نظریں اس کے پہاڑوں پر مرکوز ہوگئیں۔ مہینوں سے یہاں انتہائی پُراسرار سر گرمیاں دیکھنے میں آرہی تھیں۔ بھارتی فوج نے قرب و جوار کی بستیاں خالی کروالیں۔ ٹرکوں، ہیلی کاپٹروں اور جنگلی جہازوں نے ادھر کا رُخ کرنے جارہے تھے۔ تیاریاں مکمل ہوئیں۔ وزیراعظم اندراگاندھی نے ’’Go Ahead‘‘ کی اجازت دے دی۔ زمین میں بھونچال برپا ہوگیا۔ پہاڑوں کے سنگلاخ پتھر سرمہ بن کر رہ گئے۔ کان پھاڑ دینے والے دھماکے کے بعد بھارت دنیا کی ایٹمی طاقتوں میں چھٹے نمبر پر آگیا۔ سارے بھارت میں جشن منایا گیا۔ انتہا پسند ہندوئوں کی باچھیں کھل گئیں۔ پڑوسی ملک اورسہم کر رہ گئے۔ بھارت جنوبی ایشیا کی سپرپاور بن کر سامنے آگیا۔
ذوالفقار علی بھٹو نے فوراً پاکستانی سائنس دانوں کو ایک جگہ جمع کیا۔ ان سے آرٹ پٹ لی۔ پاکستان نے ایٹم بم بنانے کی سرتوڑ کوششیں شروع کردیں۔ 1976ء میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے کہوٹہ پروجیکٹ کو ٹیک آن کیا۔ 1979ء میں پاکستان نے نیوکلیئر فیول سائیکل کے سب مرحلے عبور کرلیے۔ پاکستان ایٹم بم بنا چکا تھا۔ پر عالمی دبائو کی وجہ سے اس کا تجربہ کرنے کے لیے حوصلہ نہ پار رہا تھا۔ 1980ء سے ہی چاغی میں سرنگیں کھودی جانے لگیں۔ ہم 15 برس تک 24 بموں کے Cord Test کر چکے تھے۔ یہ تجربات کا میابی کی سمت واضح اشارے کر رہے تھے

، البتہ ہم ایٹم بم کا پورے کا پورا تجربہ کرنے کی جرأت نہیں دکھا رہے تھے۔ پاکستان کے ایٹمی سائنسدان بھی اس پوزیشن میں نہیں تھے کہ سو فیصد کامیابی کا واشگاف اعلان کر پاتے۔ تقدیر کو کچھ اور ہی منظورتھا۔ فیصلے کی گھڑیاں آن پہنچیں۔
13 مئی 1998ء کو بھارت نے یکے بعد دیگرے 3 ایٹمی دھماکے کردیے۔ ایک ملک جو پہلے خود کو ایٹمی طاقت منوا چکا تھا، اس کا اندھی طاقت کا یہ مظاہرہ جنون اور پاگل پن کے زمرے میں گنا گیا۔ یہ وحشیانہ قدم پاکستان کے لیے ایک وحشت ناک خواب بن گیا۔ بھارت 12 لاکھ 63 ہزار فوجیوں کا ملک تھا۔ پاکستان کی فوج 6 لاکھ 20 ہزار تھی۔ پاکستان کے پاس اس وقت 5 لاکھ 50 ہزار بری فوجی ہیں۔ بھارت کے پاس 11 لاکھ بری افواج تھی۔ پاکستان بحریہ 25 ہزار جوانوں اور افسروں پر مشتمل تھی۔ بھارت کے پاس 53 ہزار نیوی تھی۔ پاکستان کی 45 ہزار فضائیہ کے مقابلے میں بھارتی فضائیہ ایک لاکھ 10 ہزار افسروں پر مشتمل تھی۔ پاکستان 2 ہزار 3 سو ٹینکوں کے مقابلے میں بھارت کے پاس 4 ہزار ایک سو 75 ٹینک تھے۔ پاکستانی فضائیہ کے پاس 401 طیارے تھے۔
انڈیا کے پاس 772 جدید لڑاکا طیارے تھے۔ پاکستان کے پاس 45 ملٹی پل راکٹ لانچر تھے، بھارت کے پاس 1500 ملٹی پل راکٹ لانچر رکھتا تھا۔ پاکستانی فوج 5 سو مارٹر گولوں کی مالک تھی۔ بھارت کے پاس 1250 ایسے گولے تھے۔ پاکستان کے پاس صرف 400 ڈیفنس توپیں تھی۔ بھارت 2 ہزار 400 ایسی توپوں کا مالک تھا۔ اگر آپ ایٹمی طاقت میں پاکستان اور بھارت کا مقابلہ کریں تو اس وقت بھارت کے پاس 4 سو کلوگرام پلوٹونیم موجود تھی۔ وہ 65 سے 90ایٹم بم بنا سکتا تھا۔ پاکستان کے پاس 2 سو کلوگرام پلوٹونیم تھی جس سے ہم 25 یا 30 ایسے بم بنا سکتے تھے۔ بھارت بری، بحری اور ہوائی فوج اسلحے، بارود، بموں، گولوں، توپوں، جہازوں، ٹینکوں، بکتربندگاڑیوں، ایٹم بموں میں ہم سے کئی گنا زیادہ طاقت کا حامل ملک تھا۔ اس کا پاکستان کو للکارنا اس کی خبیث باطن کا واضح ثبوت تھا۔ وہ جس کی طاقت دنیا جانتی تھی وہ ہماری کمزوری کا اشتہار 13 مئی کو پوری دنیا میں پھیلا چکا تھا۔ یہ گھڑیاں ہمارے لیے نہایت کٹھن تھیں۔
ہم نے ایٹمی دھماکوں کی تیاریاں شروع کردیں۔ دنیا بھر کے زورآور ملک دیوار بن کر کھڑے ہو گئے۔ ہمارا بائیکاٹ کردینے کی دھمکیاں ملنے لگیں۔ برطانیہ، جرمنی، جاپان، روس، فرانس، اٹلی کے سفارت کار تیز رفتارگاڑیوں میں وزیراعظم ہائوس میں آنا جانا شروع ہوگئے۔ دنیا بھر میں پاکستانی سفارت خانوں کے باہر مظاہرین جمع ہونا شروع ہوگئے۔ ہم پرچاروں اطراف سے دبائو پڑنا شروع ہوگیا۔ امریکا نے آنکھیں ماتھے پر رکھ لیں۔ کبھی ننگی دھمکیاں دیتا، تو کبھی 5 ارب ڈالر امداد کی نوید سناتا۔ نواز شریف کو 500 ملین ڈالر کی رشوت کی آفر کی گئی۔ ہمارے قرضے معاف کرنے اور شرح سود میں حیرت انگیز کم کے لیے ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے گماشتے اسلام آباد ایرپورٹ پر برابر اُترنے لگے۔ نئی دہلی نے اپنے دوستوں کوشہ دی وہ ہمیں ایٹمی دھماکوں سے بزور روکیں۔ امریکی خلائی سیارے چاغی پر آنکھیں جمائے سب تیاریاں بغور دیکھے جارہے تھے۔ کوئٹہ سے ملٹری ہیلی کاپٹر پانی لے کر مسلسل چاغی جارہے تھے۔ 4000 افراد اور 400 گاڑیاں کوئٹہ سے چاغی اور چاغی سے کوئٹہ محو سفر تھیں۔ تیاریاں اپنے عروج پر پہنچ گئیں۔ 28 مئی کا سنہری سویرا روشن باب تحریر ہونے جارہا تھا۔3 بج کر 16 منٹ پر چاغی کے پہاڑوں نے سفید چادریں اوڑھ لیں۔ فضا زبردست ارتعاش سے گونج اٹھی۔ بھارت کے 3 ایٹمی دھماکوں کے جواب میں پاکستان کے 5 کامیاب دھماکے کیے۔ یوں 28 مئی کا عام سا دن ہمارے لیے ہمیشہ کے لیے ’’یومِ تکبیر‘‘ بن گیا۔


٭ مسلم تاریخ میں صدیوں بعد آنے والے ایک تاریخی دن کو ہم نے اس کا مقام نہ دیا۔ ہم ہر سال بے رخی سے اس کی طرف دیکھتے ہیں اور وہ خالی ہاتھ اس ملک پر غروب ہو جاتا ہے۔ ٭

اس دن لوگ مبارک بادوں کے پھول ایک دوسرے پر نچھاور کر رہے تھے۔ ان کے چہروں پر مسکراہٹوں کی کہکشاہیں تھیں۔ ان کی آنکھوں میں گہری مسرت کے چراغ ضوفشاں تھے۔ خوشی کا ایک گہرا سیلاب تھا جس نے پاکستان قوم کو اپنے تیز بہائو میں لے لیا تھا۔ امیر غریب، مرد عورتیں، بچے، بوڑھے سب اس میں بہے جارہے تھے۔ مٹھائیاںاتنی بانٹی گئیں کہ حلوائیوں کے گوداموں میں انہیں بنانے والا سامان ختم ہو گیا۔ شیرنیاں بنا بنا کر ان کے ہاتھ سن ہو گئے۔ ہر قلب و روح میں شاد یانے بج رہے تھے۔ لوگ فوجیوں کو دیکھ کر ان کے گال چوم رہے تھے۔ حکومت کی ساری کوتاہیاں فی الفور معاف کردی گئی تھیں۔ نواز شریف کی شہرت اور عظمت کا گراف اپنے انتہائی عروج کو چھو رہا تھا۔ پاکستانی اسٹاک مارکیٹ ہفتوں تک بلند ترین شرح پر رہی۔ اسکولوں کے چھوٹے چھوٹے بچے کئی روز تک پاکستان قوم کی عظمت کے ترانے گاتے رہے۔ ٹی وی، ریڈیو پر ملی نغموں کی بہار آئی ہوئی تھی۔ وہ قوم جس نے 16 دسمبر 1971ء کا منحوس دن دیکھا تھا، اس کے نصیب تیرہ بخت پر 28 مئی کی شام پھلجڑیوں، فانوسوں کی چکا چوندروشنی لے کر آئی تھی۔
پاکستان کی تاریخ میں یہ فتح مبین کا دن تھا۔ بھارت میں ہندوئوں کی سٹّی گم ہو گئی تھی۔ لوک سبھا میں کانگریس نے بی جے پی کے لتے لیے تھے۔ واجپائی اپنے حواس گم کر بیٹھا۔ جنوبی ایشیا میں کمتر فوجی طاقت رکھنے والا پاکستان بھارت سے کوسوں میل آگے نکل گیا تھا۔ کچھوے نے مغرور خرگوش کو دوڑ میں شکست دے دی تھی۔ 28مئی 1999ء کو نواز شریف حکومت نے ’’یومِ تکبیر‘‘ کو ایک جشن کی طرح منایا۔ مشرف کو کوئی کریڈٹ دینے پر تیار نہ تھا۔ اس نے قوم کو ایک لڑی میں پرو دینے والے اس دن سے سرد مہری برتنا شروع کردی۔ رسمی بیانات، ٹی وی اور اخبارات کی زینت بنتے اور بس۔ سب سے سنگین جرم مشرف نے یہ کیا اس ملک کے محسن اعظم ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو قید و بند کی زنجیروں سے باندھ دیا۔ وہ جس کا نام نامی سن کر لوگوں کی گردنیں احترام میں جھک جاتی تھیں، خود اس کی گردن میں سی آئی اے کے تیار کردہ الزامات کا پھندا کس دیا گیا۔
یوں ہم ایک اٹامک طاقت ہوتے ہوئے اور بھارت جیسے کنبہ پرور ملک کا کاندھوں سے کاندھ ملا کر کھڑے ہونے کے بعد بھی خوار و زبوں ہونے لگے۔ یوم تکبیر منانے کے لیے زرداری حکومت کے پانچ سالوں میں بھٹو کی اس بارے میں تحسین پر بات ختم کر دی جاتی تھی۔ زرداری مسلم لیگ سے مسابقت کی وجہ سے نواز شریف کو کوئی بڑا کریڈٹ دینے سے کنارہ کش رہا۔ نواز شریف کے موجودہ دور حکومت میں دوبار یہ تاریخی دن گزرا ہے۔ حکومت کی طرف سے چند توصیفی بیانات اکا دکا تقریبات کے علاوہ اس عظیم الشان دن کو عام دن کی طرح گزار دیا گیا۔ میں نے تمام اخبارات پڑھے، ٹی وی کے چینلوں کے تحت پروگرام دیکھے۔ مجھے بہت افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے ہم نے یومِ تکبیر کو ایک معمولی اہمیت کا دن بنا کر رکھ دیا ہے۔ وہ تاریخی دن جسے ہر سال اگر جذبے لگن اورذوق و شوق سے منایا جاتا تو یہ نسلی منافرتوں، لسانی حدبندیوں، صوبائی تعصابات کی تما دیواروں میں شگاف ڈال سکتا تھا۔ یہ ہماری روحوں میں نور حرارت اور زندگی بھر سکتاتھا۔ ہم وہ بدقسمت قوم ہیں جو ایسے دنوں کی قدر کرنا فراموش کر چکے ہیں۔ ہم بھول گئے ہیں یہ جوہری ہتھیار ہمارا کتنا بڑا اثاثہ ہے۔
امریکا، اسرائیل اور بھارت ہم پر ہاتھ ڈالتے ہوئے گھبراتے ہیں وہ دہشت کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ان کے زہریلے عزائم جھاگ کی طرح بیٹھ جاتے ہیں۔ وہ خوف سے تھر تھر کانپتے ہیں۔ ان کی گھگھی بندھ جاتی ہے۔ وہ جانتے ہیں ایسے ملک کے خلاف جارحیت ان کو کس قیمت پر مول لینا پڑے گی؟ ’’سی آئی اے‘‘، ’’موساد‘‘ اور ’’را‘‘ اس آہنی دیوار سے ٹکراتی ہیں، اپنا سر پھوڑتی ہیں۔ وہ جانتی ہیں ایٹم بم کے حامل ملک سے سیدھی محاز آرائی ان کے ملکوں کو شمشان گھاٹ بنا سکتی ہے۔ مسلم تاریخ میں صدیوں بعد آنے والے ایک تاریخی دن کو ہم نے اس کا مقام نہ دیا۔ ہم ہر سال بے رخی سے اس کی طرف دیکھتے ہیں اور وہ خالی ہاتھ اس ملک پر غروب ہو جاتا ہے۔ ہم وہ بدنصیب ہیں جو ملکی تاریخ کے سب سے روشن دن کو بے حسی سے رخصت ہوتے دیکھتے رہتے ہیں۔
Flag Counter