Deobandi Books

ہفت روزہ ضرب مؤمن 6 تا 12 جون 2014

ہ رسالہ

4 - 7
چاغی سے واہگہ تک / کیا ہونے والا ہے؟
پہلے چند خبریں سنیے : ’’ افغانستان میں ہماری موجودگی سے پا ک فوج مطمئن ہے۔‘‘امریکا۔ ’’نوا ز شریف سے حکومت میں آنے کے بعد تعلقات بہتر ہو ئے۔‘‘امریکا۔ ’’نریندر مودی کے بر سر ِاقتدار آنے پر انڈیا کے مسلمان سہم گئے ہیں۔‘‘ قومی اخبارات۔ ’’پاک فوج ہر حال میں قبائلی بھائیوں سے تعاون جاری رکھے گی۔‘‘ ’’دہشت گردوں کے گرد گھیرا تنگ کیا جا چکا ہے، ان کی تعداد کم ہو رہی ہے۔‘‘ آرمی چیف۔ ’’ طالبان سے مذاکرات کے مثبت نتائج نکلے، جاری رکھنا چاہتے ہیں۔‘‘وزیر ِداخلہ۔ ’’دھماکوں کی گونج میں بات نہیں ہو سکتی، پاکستانی وزیرا عظم کو بتادیا ہے کہ دہشت گردی کا خاتمہ ضرروی ہے۔‘‘ ’’شمالی وزیر ستان میں پھر کرفیو نافذ... ڈرون کی نیچی پروازیں... جاسوس طیارے گھومتے رہے۔ ’’ کہا تھا: مذاکرات کامیاب نہیں ہونے والے۔‘‘ مولانا فضل الرحمن۔ ’’طالبان سے مذاکرات یا آپریشن... دو ہفتوں میں فیصلہ متوقع۔ یہ تمام خبریں فوری تبدیلی کی طرف اشارہ کر رہی ہیں... نریندر مودی کے اقتدار میں آجانے کے بعد ملک کی خارجہ پالیسی میں واضح تبدیلی کے آثار نمودار ہو رہے ہیں۔
آنے والے دو ہفتوں میں جو فیصلہ ہونے والا ہے۔ وہ فیصلہ بھی دراصل اس نئے تناظر میں ہونے والا ہے اور ظاہر ہے، وہ آپریشن کا ہی ہو گا... آٹھ دس ماہ سے جاری مذاکرات کی بازگشت آخر دم توڑنے لگی ہے... اور یوں سمجھ لیں... آخری سانسیں لے رہی ہے..

. چلیے! ایک بات تو کنارے لگی... دیکھنا تو اب یہ ہے... حکومت جو فیصلہ کرنے چلی ہے... وہ ہمارے حق میں کہاں تک مفید ہو گا...؟ کہیں ایسا تو نہیں اس کے نتیجے میں پورا ملک آگ کی لپیٹ میں آجائے گا، اللہ نہ کرے... ایسا وقت آئے... لیکن اگر آپریشن کا فیصلہ کر لیا گیا تو پھر امکانات یہی ہیں کہ ہمیں آگ او ر خون میں زندگی بسر کرنی ہوگی... اسی آگ اور خون کے کھیل میں مدد دینے کے لیے امریکی انخلا بھی کھٹائی میں جا پڑا ہے... وہ اس آگ کو بھڑکانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دے گا اور اس معاملے میںبھارت کی نئی حکومت ا س کے شانہ بشانہ ہوگی... کیونکہ امریکا کا یہ بیان اسی طرف اشارہ کر رہا ہے افغانستان میں ہماری موجودگی سے پاک فوج مطمئن ہے... اور یہ کہ نواز شریف کے حکومت میں آنے سے تعلقات بہتر ہوئے ہیں...
ان حالات میں ہم نے 28مئی کے یومِ تکبیر سے بھی کوئی کام نہیں لیا... حکومت ا س دن سے بھر پور فائدہ اٹھا سکتی تھی... بس اتنا ہوا ہے کہ حسبِ معمول اخبارات نے کالم شائع کر دیے۔ چینلز نے یومِ تکبیر کا ذکر کر دیا اور بس... کوئی عملی کام نہیں کیا گیا... میں آپ کو یاد دلاتا چلوں... 65 ء کی جنگ کے بعد ہر سال 6ستمبر کو شہدا کی قبروں پر جانے کا ایک معمول اختیار کیا گیا تھا...
بڑے بڑے فوجی افسران، سول افسران اور صحافی حضرات اور ادیب حضرات جمع ہو کر ایک جلوس کی شکل میں شہدا کی قبروں پر جاتے تھے اور انہیں نذرانہ عقیدت پیش کرتے تھے... پھر یہ خبریںفوراً اخبارات کی زنیت بنتی تھیں، اس سے قوم میں ایک جذبہ ابھرتا تھا، لیکن ہم نے تو یہ معمول بھی ترک کر دیا ہے... یہ بات میں نے اپنی ناقص معلومات کی بنیاد پر لکھی ہے... کیونکہ اب اخبارات میں 6ستمبر کو یہ ذکر پڑھنے میں نہیں آتا... اسی طرح یومِ تکبیر کے ذریعے قوم کے جذبات کو ولولہ عطا کیا جا سکتا تھا... حکومت 28مئی کے دن عملی پروگرام ترتیب دیتی... بہت سے وزرا، اُمرا، صحافی، اخبار نویسی اور ادیب حضرات چاغی جایا کرتے... وہاں قوم کے ساتھ مل کر یومِ تکبیر کے نعرے لگوائے جاتے... ان نعروں کی گونج ا س قدر بلند ہوتی چاغی سے واہگہ تک
سنائی دیتی... بلکہ نعرہ لگتا چاغی میں اور جواب دیا جاتا واہگہ بارڈر سے... اس نعرے کی گونج سے انڈیا میں مسلمانو ں کے چہروں پر ضرور رونق آجاتی... لیکن ہم نے ایسا کچھ نہیں کیا... تاہم ابھی کچھ نہیں بگڑا... 6ستمبر آیاچاہتا ہے... اس تاریخ کو دہرانے کا معمول اب بھی اپنا یا جاسکتاہے... قوم کو بتایا جا سکتا ہے... ہم کیا ہیں... ہمارے پاس کیا کچھ ہے... ہم کون ہیں، ہمیں ایک مسلمان کی زبان میں بات کرنی چاہیے... ہمیں ہر آن یہ بات یاد رہنی چاہیے... ہم ایٹمی قوت ہیں... ہمارے بچے بچے میں یہ احسا س موجزن ہونا چاہیے... ہم ایٹمی طاقت ہیں... چاغی کے پہاڑ اس بات کے گواہ ہیں اور ہم زندہ قوم ہیں... 6ستمبر کے شہدا کی قبریں اس بات کی گواہ ہیں...
Flag Counter