Deobandi Books

ہفت روزہ ضرب مؤمن 6 تا 12 جون 2014

ہ رسالہ

2 - 7
اسکول اور مدارس کے طلبہ تعطیلات کیسے گزاریں؟
شعبان، رمضان اورشوال کے ابتدائی دو ہفتوں کے دوران دینی مدارس میں تعطیلات رہتی ہیں۔ اگر چہ یہ تعطیلات اسکولوں کی تعطیلات کی طرح نہیں ہوتیں کہ مین گیٹ پر تالا لگا ہو اور اندر جھانکنے پر محسوس ہو یہاں بھوت پریت بسیرا کرنے لگے ہیں۔ ایک چوکید ار کے سوا اندر کوئی ذی نفس احاطے میں موجودنہ ہو۔ مدارسِ دینیہ میں چھوٹے سے چھوٹا مدرسہ بھی سارا سال آباد دکھائی دے گا۔ چھٹیاں ہوں، تب بھی چند اساتذہ اور کچھ نہ کچھ طلبہ وہاں ضرور ملیں گے۔ بعض ایسے مدارس بھی ہیں جہاں اکثر اساتذہ تعطیلات میں باقاعدہ آتے رہتے ہیں۔ کوئی نہ کوئی دینی خدمت انجام دیتے رہتے ہیں۔ ابھی کچھ ہی دنوں پہلے ایک دیہی مدرسے کے مہتمم صاحب سے ملاقات کے دوران میں نے کہا وفاق کے امتحانات کے بعد تومصروفیات کم ہوجائیں گی۔ فرمانے لگے: ’’کوئی خاص فرق نہیں پڑتا۔ ہمارے تمام اساتذہ چھٹیوں میں بھی مدرسے میں رہتے ہیں اورکسی نہ کسی ترتیب میں کام ہوتا رہتا ہے۔‘‘
شہروں میں جہاں بڑے بڑے جامعات قائم ہیں۔ مختلف قسم کے دورے کرائے جاتے ہیں۔ کہیں دورۂ تفسیر ہورہا ہے۔ کہیں دورئہ مناظرہ و ردِ فتن، کہیں دورئہ صرف چل رہا ہے کہیں دورئہ نحو۔ ان دوروں میں علوم و فنون کے ائمہ طلبہ کوفیض یاب کرتے ہیں۔

بعض مدارس اور بعض علمائے کرام کے دورے تو اتنے مشہور ہیں ان میں ملک بھر سے سینکڑوں طلبہ ہی نہیں علماء بھی آکر شریک ہوتے ہیں۔ غرض ہر مدرسے میں آپ کو چھٹیوں میں بھی دینی تعلیم، تبلیغ، تذکیر اور ذکر و تلاوت کے معمولات جاری و ساری دکھائی دیں گے۔ بہرحال! تعطیلات میں معمولات بدل ضرورجاتے ہیں۔ اکثر طلبہ اپنے گھروں میں ہوتے ہیں۔ نصابی کتب کی تدریس کاسلسلہ منقطع رہتاہے۔ بہت سے طلبہ دوردراز کے علاقوں سے آتے ہیں۔ وہ ٹرین یا بس سے طویل سفر کرکے اپنے دیس جاتے ہیں۔ 9 ماہ سے قائم ماحول یک دم بد ل جاتا ہے۔ شروع میں تو جی بہت خوش ہوتا ہے کہ ’’کل جدید لذیذ‘‘، مگر کوئی مصروفیت نہ ہو تو پھر یہی چھٹیاں کاٹ کھانے کو دوڑتی ہیں۔ بندہ چارپائی پر کروٹیں بدل بدل کر کہتا ہے: ’’یا اللہ میں کی کراں۔ ‘‘
اس کایہ مطلب نہیں چھٹیاں کوئی فضول چیز ہیں۔ جی نہیں! یہ تو بہت ضرو ری ہیں۔ انسان کا ذہن مہینوں تک ایک ہی قسم کی مصروفیت میں لگارہے تو مضمحل ہوجاتاہے۔ بڑے بوڑھے کہا کرتے تھے: ’’جسم کاآرام تو یہ ہے انسان لیٹ جائے، سوجائے، مگر ذہن کا آرام یہ ہے مشغولیت تبدیل ہوجائے۔‘‘ پرانے زمانے میں علماء ایک وقت میں ایک ہی علم و فن پڑھتے تھے۔ اگرصرف پڑھنی ہے تو صبح سے شام تک پورا سال صرف میر، ارشاد الصرف اور شافیہ پر محنت ہورہی ہے۔ نحو کاشوق ہے تو نحومیر، ہدایۃ النحو، کافیہ، تحریرِ سنبٹ، شرح جامی ہی پیشِ نظر ہوں گی۔ یہ بھی طے تھا پہلے سارے فنون پڑھے جائیں گے جیسے صرف و نحو، منطق اورفلسفہ۔ پھر علوم کی باری آئے گی۔ تفسیر، فقہ اورحدیث کادرس بعد میں دیاجائے گا، مگر جوں جوں وقت گزرتا گیا اور قویٰ کمزور ہوتے گئے۔ 
ترتیب بدلنے کی ضرورت سامنے آتی چلی گئی۔ فنون میں عمریں گزر جاتی تھیں۔ بعض نوجوان اصل علم سیکھنے سے پہلے ہی تعلیم چھوڑ دیتے، اس لیے بعد کے علما ء نے طے کیا شروع ہی سے کچھ نہ کچھ تفسیر، حدیث اورفقہ شاملِ نصا ب کی جائے۔ دوسری بڑی وجہ وہی تھی جس کے لیے یہ ساری تمہید باندھی ہے۔ وہ یہ ایک ہی قسم کی مصروفیت سے طبائع تھک جاتی تھیں، اس لیے کئی کئی مضامین پڑھاکر ذہنی آرام کی شکل نکالی گئی۔


٭ سب سے پہلے ایک نظام الاوقات بنائیں۔ طے کریں چھٹیوں میں صبح جاگنے سے لے کر سونے تک معمولات کیا ہوں گے؟ اس نظام الاوقات میں کوئی چیز لایعنی نہ ہو۔ ہر کام بامعنی ہو، جس کاکوئی نہ کوئی فائدہ ہو۔ ٭

اب آپ نصاب ِ وفاق المدارس کو دیکھیں گے تو ا س میں ایک عجیب حکیمانہ تناسب دکھائی دے گا۔ ہر درجے میں کچھ کتب و مضامین مشکل ہیں اور کچھ آسان۔ مشکل مضامین عموماً دو تین ہوتے ہیں۔ باقی آسان ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر اولیٰ میں علم الصرف، علم النحو اور نورالایضاح کچھ مشکل ہیں۔ جمال القرآن اور الطریقہ العصریہ سمیت باقی مضامین آسان ہیں۔ ثانیہ میں علم الصیغہ اور منطق مشکل لگتے ہیں۔ قدوری اور ہدایۃ النحومیں متوسط محنت درکارہ ہوتی ہے۔ باقی القرأۃ الراشدہ، معلم الانشائ، زاد الطالبین، ترجمہ عم پارہ وغیرہ آسان ہیں۔ یہی حال باقی درجات کی کتب کاہے۔ پس متعدد مضامین پڑھنے میں دماغی تکان بھی دورہوجاتی ہے۔ مختلف انواع کے علوم سے استفادے کاموقع بھی مل جاتاہے۔ سالانہ چھٹیوں کامقصدبھی یہی ہے سال میں ایک مناسب وقفہ دیاجائے۔ مصروفیات تبدیل ہوجائیں تاکہ دل و دماغ تازہ ہوکر پھر سے سخت محنت کے لیے تیار ہوسکیں۔ طلبہ سے راقم کی گزارش ہے چھٹیوں کے پس پردہ اس حکمت کو سمجھ کر انہیں بہترین انداز میں استعمال کریں۔ ا س انمول وقت کو ضایع نہ کریں۔ درج ذیل چند نکات کو عمل میں لائیں تو ان شاء اللہ! آپ کاوقت قیمتی بنے گا:
(1)سب سے پہلے ایک نظام الاوقات (ٹائم ٹیبل) بنائیں۔ طے کریں چھٹیوں میں صبح جاگنے سے لے کر سونے تک معمولات کیا ہوں گے؟ اس نظام الاوقات میں کوئی چیز لایعنی نہ ہو۔ ہر کام بامعنی ہو، جس کاکوئی نہ کوئی فائدہ ہو۔

(2) پنج وقتہ نمازیںمسجد میں باجماعت اداکریں۔ کوشش کریں تکبیر ِاولیٰ بھی فوت نہ ہو۔ حضرت مفتی عبدالستارؒتکبیرِ اولیٰ کا چلہ لگواتے تھے۔ چالیس دن تک تکبیرِ اولیٰ فوت نہ ہونے کی مشق کراتے تھے۔ اسے آزمائیں اور احادیث میں مذکور بشارتوں کے مستحق بنیں۔ ایسانہ ہو نمازوں کی پابندی بس مدرسے میں ہو اور باہر جماعتیںچھوٹ رہی ہوں۔
(3)روزانہ ذکر وتلاوت کا کچھ معمول بنالیں۔ کم ازکم آدھ گھنٹہ۔ اگر کسی شیخ سے بیعت ہیں توا ن کے مشورے سے معمولات عمل میں لائیں۔
(4) کچھ کتب مطالعے کے لیے طے کرلیں۔ کسی اسلامی کتب خانے کی سیر کریں۔ اچھی اچھی کتب خریدیں۔ اگر جیب اجازت نہ دے تو کسی لائبریری کی رکنیت حاصل کرکے یہ شوق پوراکیاجاسکتاہے۔ اس کے علاوہ دوستوں سے پڑھنے کے لیے کتب کاتبادلہ بھی کیا جاسکتا ہے، مگر کتاب واپس کرنا نہ بھولیں۔
(5) جو طلبہ حافظ ہیں، وہ اپنی منزل پختہ کریں۔ للہ فی اللہ تراویح میں سنائیں۔
(6) ماں باپ کے پاس بیٹھنا، ان کی دعائیں لینا اور خدمت کرنابھی بہت ضروی ہے۔ پورا سال اس کا موقع نہیں ملتا۔ اب کوشش کریں اس کمی کاازالہ کریں۔
(7) ویسے تو پورا سال آپ پڑھنے اور دین کی خدمت ہی میں لگے رہے ہیں، مگر ذوق اور ہمت ہو ا تو اپنے رجحان کے مطابق کوئی دورہ یا کورس کرلیں۔ دورۂ صرف ونحو، دورۂ ردِ فتن، دورۂ تفسیر، ختم نبوت کورس، صحافت کورس …ایسے اشتہارات آپ کی نگاہ سے ان دنوں ضرورگزریں گے۔ ان سے فائدہ اٹھائیں۔
(8) جو علم سیکھا ہے، اسے اُمت تک پہچانے کے لیے دعوت و تبلیغ کا کام سیکھیں۔ چلے میں نکل جائیں۔

(9) کسی شیخ سے اصلاحی تعلق نہیں ہے تو قائم کریں۔ اگر پہلے سے قائم ہے تو ان کی صحبت میں کچھ دن گزاریں۔ ممکن ہو تو رمضان میں اعتکاف کریں۔ ان شاء اللہ! آپ کی یہ تعطیلات زندگی کا ایک یادگار تحفہ بن جائیں گی۔
Flag Counter