Deobandi Books

ہفت روزہ ضرب مؤمن 6 تا 12 جون 2014

ہ رسالہ

1 - 7
افغانستان سے مشرق وسطیٰ کی طرف
سرخ ریچھ کے بعد اب سفید ہاتھی بھی سنگلاخ کوہستانوں کی سرزمین افغانستان میں بُری طرح تھک جانے کے بعد واپس ہورہا ہے۔ شکست، ناکامی، افسردگی اور شرمندگی کے ساتھ دنیا کا واحد ٹھیکہ دار امریکا میدان چھوڑ رہا ہے۔ امریکی صدر اوباما نے نیویارک میں فوجی اکیڈمی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جنگ کا آغاز آسان، جبکہ اس کا خاتمہ مشکل ہوتا ہے۔ اوباما نے تسلیم کیا ہے کہ افغانستان امریکا کے لیے خوشگوار جگہ نہیں ہے۔ امریکی صدر نے کہا کہ افغانستان کو پُرامن بنانا امریکا کی ذمہ داری نہیں ہے۔ امریکا نے اپنے مقاصد حاصل کرلیے ہیں۔

امریکا کی یہ رُسوا کن پسپائی بلاشبہہ افغانوں کی بے مثال حریت پسندی اور جانبازی کا نتیجہ ہے۔ امریکا اور اس کے اتحادیوں کو ناکام و نامراد واپس بھیج کر افغانوں نے تین بڑی عالمی طاقتوں کو شکست دے کر ہیٹ ٹرک مکمل کرلی ہے۔ یہ عالمی ریکارڈ دنیا کے کسی قوم کے پاس نہیں ہے جس نے اپنے وقت کی سب سے بڑی تین عالمی طاقتوں کو شکست دی ہو۔ برطانیہ کا عروج تھا تو اس وقت اس کے پائے کی کوئی عسکری طاقت کرئہ ارض پر نہیں تھی۔ ہر جگہ فتوحات سمیٹنے والا برطانیہ افغانستان میں دھاک، ساکھ اور ناک گنوا بیٹھا۔ اس کے بعد بگولے کی طرح آس پاس کے ممالک کو لپیٹنے والی سوویت یونین آئی۔ اس آندھی نے وسط ایشیا کی تقریباً ساری ریاستوں کو نگل لیا اور یورپ میں جبڑے پھنسادیے۔ آدھا یورپ نگلنے کے بعد افغانوں نے سنگین پہاڑوں

میں اس کا سردباکر پھوڑ دیا۔ اس کے بعد دنیا کا واحد تھانیدار سمجھا جانے والا امریکا اپنے 50 سے زائد حمایتیوں کے ساتھ، جدید ترین جنگی ٹیکنالوجی، لاجواب فضائیہ اور پوری دنیا کے انچ انچ پر نظر رکھنے والے سیٹلائٹ نظام کے ساتھ افغانستان میں داخل ہوا۔

اس کا غرور گزشتہ دونوں سے زیادہ تھا۔ جدید ترین جنگی صلاحیت اور اتحادیوں کی کثرت نے دھوکے میں مبتلاکردیا۔ آج 12 سالوں کے بعد امریکا اتحادیوں سمیت وہی کہتا ہوا جارہا ہے جو رُوس کے آخری فوجی نے افغانستان چھوڑتے ہوئے کہا تھا کہ یہ ایک مشکل سرزمین ہے، اس پر حملہ کرنا خودکشی کے مترادف ہے۔ بعینہٖ یہی الفاظ آج صدر امریکا اوباما ادا کررہے ہیں۔ امریکا کی شکست برطانیہ اور سوویت یونین کی شکست سے بڑی ہے، کیونکہ اس وقت کا حملہ آور اتنا طاقت ور نہیں تھا۔ ان دونوں کے پاس اتنی جدید ٹیکنالوجی نہیں تھی۔ ان کے اتحادیوں کی تعداد بھی اتنی نہیں تھی، امریکا اور اتحادیوں کی شکست امریکا سمیت تمام عالمی طاغوتی قوتوں کی واضح شکست ہے۔ یہ قوتِ ایمانی کے مقابلے میں ہتھیاروں اور جدید ٹیکنالوجی کی شکست ہے۔ یہ مادّیت کی شکست ہے۔ یہ دولت کی شکست ہے۔ یہ طاقت کی شکست ہے۔ یہ ایمان کی فتح ہے۔ یہ ا للہ پر توکل کی فتح ہے۔


یہ مادّیت کی شکست ہے۔ یہ دولت کی شکست ہے۔ یہ طاقت کی شکست ہے۔ یہ ایمان کی فتح ہے۔ یہ ا للہ پر توکل کی فتح ہے۔ یہ خدائی نصرت ہے ٭ حقیقی معنوں میں عالمی طاقتوں کی شکست اس وقت واضح ہوگی جب بیرونی مداخلت کی ہر صورت کو افغان عوام مسترد کردیں گے۔

یہ خدائی نصرت ہے جس کے سامنے مادّی دنیا کا ہر تجزیہ اور ہر قیاس آرائی، ہر اندازہ مٹی میں ناک رگڑ رہا ہے۔ اس فتح پر سب سے پہلے ان سرفروش افغانوں کو عقیدت کا سلام، ان کے معاونین کو، ان کے اہلِ خانہ کو، پوری افغان قوم کو بے مثال استقلال اور لاجواب حوصلہ مندی، استقامت اور بے نظیر قوت مزاحمت پر ہزاروں تبر یک۔
دوسرے درجے میں پاکستانی قوم کو بھی سلام ہے جس نے افغانوں کی اس مزاحمتی تحریک میں ان کا ہرممکن ساتھ دیا۔ ان کے ساتھ اپنی بساط کے مطابق تعاون کرتی رہی اور افغان بھائیوں کی مشکلات میں کام آئی۔ اس میں شک نہیں ہے کہ پاکستان کے بعض ناعاقبت اندیش حکمرانوں کے غلط فیصلوں کی وجہ سے افغانوں کے خلاف امریکی جارحیت کو راستہ مل گیا۔ یہ ایک ظالمانہ عمل تھا جس میں پاکستانی قوم کی مرضی بالکل شامل نہیں تھی، چنانچہ افغانستان پر حملہ شروع ہونے کے وقت پاکستان کے طول و عرض میں افغان بھائیوں کے ساتھ یک جہتی کے لیے اور امریکی حملوں کے خلاف بے مثال تحریک چلی۔ پوری قوم نے یک زبان ہوکر اس وقت کے ایک آمر حاکم کے فیصلے کو مسترد کردیا، مگر اس بے شعور نے پوری قوم کی مرضی کے خلاف امریکا کو راستہ دینے کا خودغرضانہ فیصلہ کردیا جس کا وبال وہ خود اور پوری قوم آج تک بھگت رہے ہیں۔ یقینا اس جنگ میں بہت نقصان ہوا۔ جتنا افغانوں کا نقصان ہوا اس سے زیادہ پاکستانیوں کا ہوا اور دونوں کا دُشمن ایک ہے جو آج شکست کی رُسوائی سے دوچار ہے، اس لیے یہ سمجھنے میں کوئی عار نہیں ہے کہ آج پاکستان کا ایک بہت بڑا دُشمن بھی شکست کھارہا ہے۔
امریکی صدر نے جو یہ کہا ہے کہ افغانستان کو پُرامن بنانا ہماری ذمہ داری نہیں ہے۔ یہ بات تو ساری افغان قوم اور پاکستانی قوم شروع سے کہہ رہی ہے کہ امریکا کا مقصد امن نہیں ہے۔ امن کا پُرفریب دعویٰ تو امریکا اور اس کے اتحادیوں نے خود کیا تھا، افغانوں کو یہ توقع کہاں تھی کہ ان کا دُشمن ان کے لیے امن و استحکام لائے گا؟ امریکا کی طرف امن سے براء ت کا مطلب یہ معلوم ہوتا ہے کہ امریکا اس خطے میں امن ہونے نہیں دے گا۔ اس خطے میں جنگ کے اندر بہت سے فریق شامل ہوتے ہیں۔ ہر ایک کا اپنا مفاد ہوتا ہے۔ شاید امریکا یہ کہنا چاہتا ہے کہ ہم اس خطے میں رہ نہ سکے تو یہاں کوئی بھی امن سے نہیں رہے گا۔
افغان بھائیوں سے عاجزانہ درخواست ہے کہ وہ امریکا کے اس عزم کو بھی اسی طرح خاک میں ملادیں جس طرح کے اس کے غاصبانہ اور قابضانہ عزائم کو خاک میں ملادیا۔ پہلے تو سارے مل کر اس بات پر متفق ہوجائیں کہ ان سب کی اوّلین ترجیح بیرونی افواج کا اخراج ہے۔ کسی بھی طویل یا مختصر مدت کے لیے کسی شرط پر بھی بیرونی افواج کا وجود قبول نہ کریں۔ پھر جب وہ نکل جائیں تو اس میں بھائی بھائی بن کر ایک دوسرے کو برداشت کریں۔ جو قوم دُشمن کی ہلاکت خیز بمباریوں کو برداشت کرسکتی ہے، وہ اپنے بھائیوں کے کسی نامناسبت رویے کو بھی آسانی سے برداشت کرسکتی ہے۔ حقیقی معنوں میں عالمی طاقتوں کی شکست اس وقت واضح ہوگی جب بیرونی مداخلت کی ہر صورت کو افغان عوام مسترد کردیں گے۔
Flag Counter