عقیدت و محبت کے مرکز میں
دارالعلوم دیوبند کی مسجد رشید میں اس عاجز کو اپنی معروضات پیش کرنے کی دعوت دیتے ہوئے حضرت مولانا سیّد ارشد مدنی دامت برکاتہم نے راقم السطور کے دادا جان حضرت مولانا عبدالحق نافع گل (استاذ الحدیث دارالعلوم دیوبند و اوّلین شیخ الحدیث جامعہ علوم الاسلامیہ بنوری ٹائون، کراچی) اور اسیرِ مالٹا حضرت مولانا عزیر گلؒ کے حوالے سے تعارف کرایا اور اس بات پر خوشی کا اظہار کیا کہ علمائے کرام کی یہ نسل اگر ابنائے دارالعلوم (دارالعلوم کے بیٹے) نہیں ہے تو احفادِ دارالعلوم (دارالعلوم کے پوتے) ضرور ہے۔
راقم السطور نے دارالعلوم سے اپنے رشتے اور اس تعلق کی قدامت پر اظہارِ تشکر کے ساتھ ساتھ خانوادہ شیخ الاسلام حضرت مولانا سیّد حسین احمد مدنیؒ کے ساتھ ایک صدی سے زیادہ قدیم تعلق پر اللہ تعالیٰ کے شکر کے ساتھ ساتھ اس رشتہ مؤدت و محبت کی تجدید کو اپنی حاضری کے مقاصد میں سے ایک قرار دیا۔ اسی طرح پاکستان کے مدارس دینیہ میں زیرِ تعلیم طلبہ کے دل کسی طرح دارالعلوم کے ساتھ دھڑکتے ہیں اور جب یہ عاجز سفرِ ہند پر روانہ ہورہا تھا تو کس طرح ہمارے عزیز طلبہ کے دل اپنے اکابر کے مزارات پر حاضری کے لیے مچل رہے تھے، ان کیفیات کو بھی بیان کیا گیا۔
مفتی سیّد مظہر صاحب نے اپنے خطاب میں صدر جمعیت علماء ہند کی جانب سے اس وفد کو پاکستان میں دارالعلوم دیوبند کے نمایندے اور حقیقی
ترجمان قرار دینے کو اپنی زندگی کی سب سے قیمتی سند قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ اس وفد کے لیے اس سے بڑھ کر عزت و افتخار کی اور کوئی بات نہیں ہوسکتی کہ حضرت صدر جمعیت نے اس وفد کو ’’دارالعلوم کی نمایندہ علمی قیادت‘‘ کے بلند ترین منصب کا اہل سمجھا۔
مسجد رشید کے اس جلسہ کے بعد وفد کے اعزاز میں حضرت مولانا سیّد اسجد مدنی صاحب دامت برکاتہم نے اپنے مدرسہ بنات میں عشائیہ کا اہتمام کر رکھا تھا۔ مولانا اسجد صاحب کے زیر اہتمام چلنے والا یہ بچیوں کا مدرسہ بھی اپنی نوعیت کا منفرد مدرسہ ہے۔ مدرسہ چونکہ غیررہائشی ہے، اس لیے دوپہر کے بعد اس کی عمارت خالی ہوتی ہے۔ تین ایکڑ پر مشتمل شاندار تعمیرات اور دیدہ زیب و دلکش چمن و باغ سے آراستہ یہ مدرسہ صرف ظاہری محاسن سے ہی نہیں، بلکہ کام کے اعتبار سے بھی پورے برصغیر میں ایک انفرادی شان کا حامل ہے۔ حضرت مولانا سیّد اَسجد مدنی دامت برکاتہم نے بتایا کہ اُن کے پیشِ نظر عالمات، مدرسات یا مبلغات تیار کرنا نہیں، بلکہ دین کے سانچے میں ڈھلی ہوئی ایک ایسی مسلمان خاتون کی شخصیت تشکیل دینا ہے جو بطور ماں، بہن، بیوی اور بیٹی اپنے فرائض و واجبات سے بخوبی آگاہ ہو اور دین اس سے جو جو مطالبہ کرے اس کی ادائیگی کی اہلیت اس میں ہو۔ اسی وجہ سے اس مدرسہ میں کھانے پکانے، سینے پرونے سے لے کر بچوں کی تربیت کے تمام مراحل گھر گھرستی، خاندان سنبھالنے اور مشترک خاندانوں میں رہنے تک کے تمام طور طریقے اور ادب آداب باقاعدہ نصاب کا حصہ ہیں۔ زندگی میں پہلی دفعہ سنا کہ کسی بنات کے مدرسہ میں گھر سنبھالنے، رویہ بہتر بنانے، خدمت کرنے، سینے پرونے، کھانے پکانے اور گھر بسانے کے تمام طور طریقے باقاعدہ عملی مشق کے ساتھ نصاب کا حصہ ہوں۔ دیوبند میں واقع اس مدرسہ بنات کی عمارت اور اسی کا چمن بھی دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا۔
اس ضیافت میں بھی شیخ العرب و العجم حضرت مولانا سیّد حسین احمد مدنیؒ کے دونوں عالی مقام صاحبزادوں اور عالم فاضل تمام پوتوں اور آل اولاد نے جس طرح مستقل کھڑے رہ کر تمام مہمانوں کو کھانا کھلایا اور بڑے اصرار و محبت سے ایک ایک چیز پیش کی، وہ منظر دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے، لکھنے کا نہیں۔ اگلے دن ہمارا پروگرام نانوتہ، گنگوہ اور سہارنپور جانے کا بن گیا۔ وفد کے دیگر حضرات تو ہم سے پہلے جاچکے تھے۔ حضرت مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر صاحب، مولانا سعید خان سکندر صاحب اور راقم السطور کے ساتھ حضرت مولانا سیّد ارشد مدنی کے صاحبزادے حضرت مولانا سیّد حسین ارشد صاحب ہوگئے اور پورے سفر میں جس طرح انہوں نے ہمیں راحت پہنچائی اور ایک ایک جگہ دکھلائی، اسی پر دل سے آج بھی دُعائیں نکلتی ہیں۔
مولانا سیّد عدنان کاکاخیل کے دارالعلوم دیوبند، نانوتہ، گنگوہ شریف اور رائے پور کے سفر کا احوال
دیوبند سے نکلتے ہی چند کلومیٹر کے بعد نانوتہ آگیا تھا۔ یہ قاسم العلوم و الخیرات حضرت مولانا قاسم نانوتوی صاحبؒ کا اور دارالعلوم دیوبند کے اوّلین صدر مدرّس حضرت مولانا یعقوب نانوتویؒ کا وطن ہے۔ حضرت مولانا قاسم نانوتویؒ تو دیوبند میں آرام فرما ہیں اور مولانا یعقوب نانوتویؒ اور حضرت مولانا منیر نانوتویؒ دونوں حضرات نانوتہ میں مدفون ہیں۔ دونوں حضرات کے مراقد پر حاضری کا موقع ملا۔ (باقی صفحہ5پر) ایک خوبصورت سے سرسبز احاطے میں دونوں حضرات کی قبریں پہلو بہ پہلو ہیں۔ حکیم الامۃ حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ فرماتے ہیں کہ ’’عقیدت‘‘ تو مجھے امام ربّانی حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی سے زیادہ تھی اور ’’محبت‘‘ حضرت مولانا یعقوب نانوتویؒ سے زیادہ تھی۔
نانوتہ سے نکل کر گنگوہ شریف کے لیے روانہ ہوئے اور چند ہی کلومیٹر کے بعد گنگوہ شریف آگیا۔ اللہ اللہ! یہاں حضرت گنگوہیؒ کے مزار پر بیٹھ کر سیّد العشاق حضرت مولانا سیّد نفیس شاہ صاحبؒ نے جو نظم کہی تھی، اس کا ایک ایک شعر کان میں گونجنے اور دل گد گدانے لگا۔
ہے یہ کس کی خواب گاہِ حسین
یہ نفیسؔ کس کا مزار ہے
کہ نفَس نفَس کو جو ہے سکوں
تو نظر نظر کو قرار ہے
یہاں قدسیوں کا نزول ہے
یہ دلیلِ حسنِ قبول ہے
یہاں سو رہا ہے وہ نازنیں
جو نبیؐ کا عاشقِ زار ہے