Deobandi Books

ہفت روزہ ضرب مؤمن 30 مئی تا 5 جون 2014

ہ رسالہ

2 - 9
اقدار کے بغیر تعلیم کسی کام کی نہیں ہے
آگے بڑھانے میں بہت منفرد کردار ادا کیا ہے۔ آپ حضرات کا بہت بہت شکریہ، آپ حضرات مزید ایسے ادارے بنائیں۔ اس ادارے کے کیمپس میں اضافہ کریں۔ صرف کراچی تک محدود نہ رکھیں، پاکستان کے ہر ہر خطے میں ایک ایک ایسا ہی جامعۃ الرشید ہونا چاہیے۔ لوگ آپ کے انتظار میں ہے، آپ اُن کی مدد کیجیے۔ آگے بڑھتے ہوئے یہ بات عرض کردوں کہ ’’ریاست مدینہ‘‘ کی صورت میں ایک ایسا نظام ہمارے پاس موجود ہے جس پر ہم بجا طور پر فخر کر سکتے ہیں۔ تمام مؤرخین، بالخصوص مغربی مؤرخین کہتے ہیں تاریخ انسانی میں ایسا مثالی دور کبھی نہیں آیا۔ آپ کے سامنے معروف مغربی مؤرخ گبنز کے الفاظ نقل کرتا ہوں۔ وہ کہتا ہے: ’’The pen slips out of my fingure, when I try to describe that time.....‘‘ ۔ (جب میںاُس زمانے کو بیان کرنے لگتا ہوں تو قلم میرا قلم ڈگمگا جاتا ہے) وہ اس کی وجہ بھی بتاتا ہے کہ قلم میرے ہاتھوں سے کیوں پھسلتا ہے؟ وہ کہتا ہے: ’’تاریخ انسانی میں یہ ایک واحد دور تھا جب تمام قسم کے تعصبات مٹ گئے تھے۔ کوئی تعصب نہ تھا، مساوات تھی۔ اپنوں اور غیروں ہر ایک کے لیے حسن سلوک عام تھا۔ اس لیے کہ اسلام صرف مسلمانوں کے لیے ہی نہیں ہے۔ ہمارا ربّ بھی صرف مسلمانوں کا ربّ نہیں ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو وہ خود کو ’’ربّ المسلمین‘‘ کہتا۔ وہ ربّ العالمین اور رحمۃ اللعالمین کا تصور دیتا ہے۔ یہ چیز ہماری قراردادِ مقاصد میں سمودی گئی ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ پاکستان ایک مشن ہے۔

پاکستان ایک عام خطہ ارضی نہیں ہے۔ یہ تو اُس ’’رومانس‘‘ کا ایک مظہر ہے جو مسلمانانِ
ہند کو اسلام کے ساتھ تھا۔ علامہ نے کہا ہے ؎
میر عرب کو آئی ٹھنڈی ہوا جہاں سے
میرا وطن وہی ہے، میرا وطن وہی ہے
ہم نے یہ پیغام دنیا کو اور انسانیت کو دینا ہے۔ ہمارے آئین میں لکھا ہے کہ پاکستان کو ایک خاص مقام حاصل کرنے کے بعد اسے انسانیت کی خدمت کرنی ہے۔ دنیا بھر کی فلاح و بہبود کا علم بلند کرنا ہے۔ دنیا کا کوئی آئین ایسا نہیں ہے، جو عالم بھر کے لیے ہو۔ امریکی آئین، صرف امریکیوں کی خوشی اور خوشحالی کے لیے، بھارتی آئین صرف اُسی کے عوام کے لیے ہے۔ یہ صرف ہمارا ملک ہے، جس نے آئینی طور پر یہ طے کیا ہے کہ وہ دنیا بھر کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرے گا۔ قراردادِ مقاصد کی یہ شق آئین کے آرٹیکل 2-A کے طور پر اُس کا حصہ ہے۔ اگر ہم اس راستے پر چلیں گے کہ تو اللہ کی برکتیں بھی آئیں گی۔ اس مقصد کے لیے اپنے ’’ڈائیلاگ‘‘ کے کام کو وسعت دیں۔ اقوام متحدہ کو بتایا جائے کہ Clash of Civilization کے بجائے Meeting of Civilization کی بات کرو۔ بتائو کہ تمہارے پاس کون سا نظام باقی رہ گیا ہے؟؟
آپ نے یہ تماشا تو دیکھ لیا کہ گزشتہ 20 سال میں ایک سپر پاور گئی، اس کا نظام بھی گیا۔ آج کوئی اُس کا نام لیوا نہیں ہے۔ دوسری سپر پاور بھی شکست کھاگئی ہے، کیونکہ یہ تو پہلے ہی مار کھا چکی تھی۔ اس کے مدمقابل ایک اور نظام وجود میں آچکا تھا۔ کارل مارکس نے ایک اور ’’اکنامک تھیوری‘‘ دے دی تھی۔ ’’ایڈم سیوتھ‘‘ پٹ گیا تھا۔ اب دوبارہ وہ کہہ رہے ہیں کہ ہم جیت گئے ہیں۔ اسی زعم میں انہوں نے افغانستان پر حملہ کر ڈالا۔ افغانستان کو کمزور سمجھ کر چڑھ دوڑے، مگر اللہ نے اپنا وعدہ پورا کیا کہ اگر تم حق پر کھڑے ہوگئے تو میں تمہارے ساتھ کھڑا ہوجائوں گا۔ تم ہی حاوی رہوگے۔ افغانستان میں امریکی شکست اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا معجزہ ہے۔ میں تاریخ عالم اور عسکری تاریخ کا ایک ادنیٰ طالب علم ہوں۔ اس تناظر میں یہ ایک انتہائی ناقابلِ یقین صورتحال ہے کہ یہ اتنی بڑی معاشی، قوت عسکری طاقت اور جدید ترین ٹیکنالوجی کے گھٹنے ٹیک دیے۔


گزشتہ 20 سال میں ایک سپر پاور گئی، اس کا نظام بھی گیا۔ آج کوئی اُس کا نام لیوا نہیں ہے۔ دوسری سپر پاور بھی شکست کھاگئی ہے۔ اس کے مدمقابل ایک اور نظام وجود میں آچکا ہے۔ ٭

اسی جلسے میں ڈائریکٹر FAST ڈاکٹر زبیر صاحب فرمارہے تھے: ’’یہ ٹیکنالوجی کی دنیا ہے۔ میں کہتا ہوں: ’’ Technology without morality is rascality‘‘ ’’اخلاقیات سے عاری ٹیکنالوجی نری بدمعاشی ہے۔‘‘ ہمارے پاس ربانی ہدایات پر مبنی morality ہے۔ اگر اخلاقیات نہ ہوں، صرف دولت ہو تو کیا ہوتا ہے؟ ذرا ناروے کا حال دیکھیے۔ فی کس آدمی کے لحاظ سے سب سے زیادہ آمدنی والا ملک ہے۔ میں کئی بار وہاں جاچکا ہوں۔ انہوں نے ویلفیئر کا نظام بھی قائم کیا ہوا ہے۔ اپنے اس نظام کو وہ ’’UMAR LAW‘‘ کہتے ہیں۔ حضرت فاروق اعظمؓ کے نام پر یہ قانون بنایا ہوا ہے۔ اس سب کے باوجود سب سے زیادہ خودکُشی کی شرح ناروے میں ہے۔ خودکشیاں پاکستان میں بھی ہوتی ہیں، مگر افغانستان کے حوالے سے میں نے کبھی نہیں سنا کہ کسی نے وہاں خودکشی کی ہو۔ اس کے باوجود کہ وہ غریب اور بے روزگار ہیں، انہوں نے بہت سی جنگوں کا سامان کیا ہے۔ دنیا کے تمام نظام پٹ گئے۔ اُن کے سورج آپ کی دہلیز کے پر غروب ہوگئے۔ اب غور کیجیے کہ وہ کس چیز کے منتظر ہیں؟؟ آج ہی پریس کلب میں مجھ سے کوئی پوچھ رہا تھا: ’’جنرل صاحب! آپ اسلامی نظام کی بات کرتے ہیں۔ کون سی فقہ کا اسلام نافذ کریں گے؟ آپ کس مسلک کا اسلام لے کر آئیں گے؟‘‘ میں نے اس سے کہا: ’’میں تو صرف اُس شریعت کو جانتا ہوں جو قرآن پاک میں موجود ہے۔‘‘ ہم جب اسلام کے نام لیوا ہیں اور صبح و شام اس کا پرچار کرتے ہیں… آپ اپنے عمل سے ثابت کرکے دکھائیں کہ ہم کئی نہیں، ایک ہیں۔ دیکھو! ہم اکٹھے ہیں۔ اس ایک بات پر ہم اکٹھے ہیں۔ پھر ہمیں یہ طعنے نہ سننے پڑیں گے۔
نوجوان نسل کے لیے میرا یہی پیغام ہے کہ آپ کو متحد اور متحرک ہونا پڑے گا۔ منظم ہونا پڑے گا۔ ہماری نسل ناکام ہوگئی، لیکن ہم آپ کی رہنمائی کرنے کے لیے تیار ہیں۔ یہ کام فارغ التحصیل ہونے والوں کا ہے۔ یہاں سے اور دیگر اداروں سے پڑھ کر نکلنے والوں کا ہے۔ اسی پروگرام میں جاپان کے ’’مسٹر ہیرو‘‘ نے بتایا ہے 65 فیصد افراد نوجوان ہیں۔ میں کہتا ہوں کہ 67.6 فیصد افراد 30 سال اور اس سے اوپر کے جوان پاکستان میں ہیں۔ یہ ہماری سب سے بڑی طاقت ہے۔
رہ گیا تعلیم کا مسئلہ تو جب تک ویلیوز نہیں بنیں گی، شعور بیدار نہیں ہوتا۔ اقدار کے بغیر یہ تعلیم کسی کام کی نہیں ہے۔ یہ وہی تعلیم تھی جس نے بوسنیا کے ایتھنک کلنز کو حاملہ مائوں کے پیٹ چاک کرکے ان میں سے بچے نکال کر قتل کرنے پر مجبور کیا۔ وہاں 100 فیصد تعلیم تھی۔ انجینئرز بھی تھے، ڈاکٹرز بھی تھے۔ مغربی تعلیم یافتہ تھے۔ 95 فیصد تعلیم کے ساتھ سری لنکا میں 30 سال خانہ جنگی رہی۔ اور جب ہماری شرح تعلیم 26 فیصد تھی، اس وقت ہم نے تمام اپوزیشنز کے باوجود پاکستان بنالیا تھا۔ ہم سب ایک جھنڈے تلے جمع ہوگئے تھے۔ اس وقت لوگوں کو ایک شخص کی دیانت و امانت پر اعتماد آگیا تھا۔ آج اُفق پر کوئی ایسی شخصیت نظر نہیں آتی، مگر کیا ہم اپنی تقدیر کو لٹیروں کے حوالے کردیں۔ میرا سیاست سے کوئی تعلق نہیں، میں سیاسی گفتگو بھی نہیں کرتا، مگر میرا یہ فرض ہے کہ میں نظام سے متعلق گفتگو کروں۔ یہ میرا پیشہ ہے۔ میں ضرور اس پر گفتگو کروں گا۔ مجھے اُمید ہے ان شاء اللہ وہ وقت آئے گا جب ہمیں اپنے ارادوں میں کامیابی نصیب ہوگی۔
اسلامی تعلیم کے دو بڑے ستون ہیں۔ دعوت و ارشاد اور جہاد۔ پہلی چیز کو بڑے نرم انداز میں لے کر چلتے ہیں۔ پھر جب بُرائی حد سے تجاوز کرجاتی ہے تو اس کو ختم کر ڈالنے کا حکم ہوتا ہے۔ اس کا مقابلہ کرنا ہوتا ہے۔ بُرے کو ختم کرنے کے لیے نہیں، بلکہ بُرائی کرنے کے خاتمے کے لیے۔ بُرے پر بھی ہم نے احسان کرنا ہے کہ وہ کہیں جہنم کا ایندھن نہ بن جائے۔ آج وقت آگیا ہے ہم ایک آدمی کی طرح اُٹھیں۔ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے: ’’نکل کھڑے ہو، چاہے تم ہلکے ہو یا بوجھل، اور اپنے مال و جان سے اللہ کی راہ میں جہاد کرو۔ اگر تم سمجھ رکھتے ہو تو یہی تمہارے حق میں بہتر ہے۔‘‘ (التوبہ: 41)آخر میں ایک دعا کے ساتھ بات ختم کرتا ہوں۔ ساقی نامے میں علامہ نے نوجوانوں سے مخاطب ہوکر کہا ہے ؎
تڑپنے پھڑکنے کی توفیق دے
دل مرتضیٰؓ، سوز صدیقؓ دے
خرد کو غلامی سے آزاد کر
جوانوں کو پیروں کا استاد کر
جوانوں کو سوز جگر بخش دے
مرا عشق، میری نظر بخش دے
Flag Counter