Deobandi Books

ہفت روزہ ضرب مؤمن 30 مئی تا 5 جون 2014

ہ رسالہ

5 - 9
ذائقوں کی تلاش میں
بہت دنوں سے ذائقوں کی تلاش میں سر گرداں ہوں... آپ کو معلوم ہی ہے... لوگ ذائقوں کے کتنے شوقین ہیں... یہ تمام ہوٹل اور ریسٹورنٹس انہی کے دم سے تو جگ مگ کر تے ہیں... ذائقوں کے متوالے لوگ نہ ہوں تو ہوٹلوں کے کار وبار ماند، بلکہ سر د پڑ جائیں... ان حالات میں میرا ذائقوں کی تلاش پر ڈٹ جانا کچھ عجیب بھی نہیں... آج کل فاسٹ فوڈ والوں کے وار ے نیارے ہیں... ان کی چاندی ہی نہیں ، سونا بھی انہی کا ہے... بلکہ بچھونا بھی... آپ آگے چل کر کہہ سکتے ہیں... سارا اوڑھنا بچھونا ہی ان کا ہے ۔ فاسٹ فوڈ نے نئی نسل کے لوگوں کو ذائقوں سے کچھ اس طرح متعارف کر ایا ہے کہ وہ بس انہی چیزوں کے دیوانے ہو گئے ہیں... ایک روز ایک اعلیٰ پولیس افسر سے ملاقات ہو گئی... کہنے لگے... دوپہر کاکھانا میرے ساتھ کھائیں... مجھ پر گھبراہٹ طار ی ہو گئی... ایسے موقعوں پر طاری ہونے کے لیے گھبراہٹ صاحبہ بہت تیز ہیں... موقعے کی تا ڑ میں رہتی ہیں... میں نے پہلو بچانا چاہا تو انہوں نے فوراً کہا: ’’آج تو آپ کو ہمارے ساتھ کھانا کھانا ہی پڑے گا۔‘‘ اب وہی ضرب المثل یاد آگئی... ’’مرتا کیا نہ کرتا...‘‘ معلوم نہیں یہ ضرب المثل ہے یا خالی محاورہ ہے... مجھے آج تک ضرب المثل اور محاورے میں فرق کرنا نہیں آیا... شاید یہ دونوں قسمیں خود بھی فرق کرنے کے قابل نہیں... اس لیے کہ باہم شیر و شکر ہیں... ایک دوسرے سے خوب گھل مل کر رہتے ہیں... ایسا بے مثال ساتھ آج کے دور میں انسانوں کو کہاں نصیب ! ہاں تو مرتا کیا نہ کرتا ،

ان کی دعوت قبول کر لی... اب جب کھانا سامنے آیا تو میں حیرت زدہ رہ گیا... ایک بڑی ٹرے میں ہر مہمان کے حساب سے ایک ایک پلیٹ موجود تھی... ہر پلیٹ میں ایک ایک بر گر تھا... ساتھ میں ٹماٹو کیچپ، سلاد اور بس... ساتھ ہی میزبان کہنے لگے : ’’مجھے تو یہ کھانا اتنا پسند ہے... کہ کیا بتائوں۔‘‘ میں فاسٹ فوڈ سے بہت گھبراتاہوں... نہ جانے کیوں؟ یہ میرے حلق میں پھنس جاتے ہیں... لیکن ا ن کے ساتھ زہر مار کرنا پڑے... بہت مشکل سے کھانے میں کامیاب ہو سکا... مطلب یہ مشکل سے پاس مارکس حاصل کر سکا... ادھر آفیسر صاحب برابر ان برگر وں کی تعریف کر رہے تھے... یہ ذائقوں کی ایک مثال تھی... ضروری نہیں کہ جو چیز ایک شخص کے لیے ذائقے دار ہو ، وہ دوسروں کے لیے بھی اتنی ہی ذائقے دار ہو...
ذکر ذائقوں کا کر رہا تھا... اب میں اصل بات کی... میرا مطلب اصل ذائقوں کی طرف آتا ہوں... میرے گھر میں ایک زمانے سے ’’نوائے وقت‘‘ آتا ر ہا ہے... روزنامہ ’’اسلام‘‘ شرو ع ہواتو میرا پسندیدہ اخبار بن گیا... میں نے روزنامہ ’’نوائے وقت‘‘ بند کردیا... اور صرف روزنا مہ ’’اسلام‘‘ کا ہو کر رہ گیا... کیونکہ یہ اس وقت شروع ہو اتھا جب افغانستان میں طالبان کے دور کا آغاز تھا... ’’ضرب ِمومن‘‘ اس سے پہلے شروع ہو چکاتاتھا...وہ بھی لگوایا تھا... لیکن اس وقت بات روزناموں کی ہو رہی ہے، اس لیے ’’ضرب ِمومن‘‘ کا ذکر ا س کالم میں شامل نہیں کیا جا سکتا... یہ اور بات ہے کہ یہ کالم ضرب ِ مومن کے لیے لکھ رہا ہوں... روزنامہ ’’اسلام‘‘ ایسا دل و دماغ پر چھایا کہ باقی تمام اخبارات کو بھول ہی گیا... باقی تمام اخبارات اس وقت یاد آئے جب میں نے زندگی کا پہلا کالم امید لکھا اور وہ ’’ضرب ِ مومن‘‘ میں شائع ہو ا... تب انتظامیہ نے روزنامہ ’’اسلام‘‘ کے لیے کالم لکھنے کے لیے کہا۔
جب کالم لکھنے پڑے تو ضرورت محسوس ہوئی... گھر میں روزنامہ ’’اسلام‘‘ کے علاوہ بھی کوئی اخبار آنا چاہیے... اب چونکہ پہلے ہی ’’نوائے وقت‘‘ پڑھتا رہا تھا ، اس لیے وہی پھر سے لگو ایا... ا س طرح روزانہ دو اخبارا ت کے ذائقے چکھنے لگا اور اپناکالم والا کام نکالنے لگا... کیونکہ اخبارات میں شائع ہونے والے کالموں کا مطالعہ کیے بغیر سیاسی کالم نہیں لکھے جا سکتے... ہاں اور ہر قسم کے کالم ضرور لکھے جا سکتے ہیں... یہ معمول تقریباً ایک سال تک جاری رہا... ایک دن خیال آیا روز نامہ ’’نوائے وقت‘‘ پڑھتے کافی مدت گزر گئی... اس کے بجائے کسی اور اخبار کو بھی دیکھنا چاہیے... پتا تو چلے کہ اس کے کالم کیسے ہوتے ہیں... لہٰذا روزنامہ ’’نوائے وقت‘‘ بند کر کے ’’ایکسپریس‘‘ لگوایا... اب روزنامہ ’’اسلام‘‘ کے ساتھ ’’ایکسپریس‘‘ پڑھنے لگا... جلدہی میں نے صاف طور پر محسوس کرلیا ’’نوائے وقت‘‘ کا اور ’’ایکسپریس‘‘ کاذائقہ بالکل مختلف ہے... ان پر الگ الگ ذائقوں کی چھاپ ہے... کچھ مدت بعد خیال آیا اب ’’ایکسپریس‘‘ کے بجائے ’’جنگ‘‘ کا ذائقہ چکھنا چاہیے... اس طرح روزنامہ ’’اسلام‘‘ کے ساتھ ’’جنگ‘‘ بھی پڑھنے لگا... فوراً ہی محسوس کر لیا اس کا ذائقہ اور ہی ہے... جو ’’ایکسپریس‘‘ اور ’’نوائے وقت‘‘ سے لگّا نہیں کھاتا... کچھ عرصہ تک ’’جنگ‘‘ زیر ِمطالعہ رہا... تو اسے بھی تبدیل کرنے کی سوجھی... اسے آپ اندھے کو اندھیرے میں بہت دور کی سوجھی نہ سمجھ لیجیے گا... کیونکہ مجھے تو اخبار کے ذائقوں کی سوجھی تھی... اس کے کچھ مدت بعد روزنامہ ’’خبریں‘‘ اور روزنامہ ’’پاکستان‘‘ کی باری بھی آئی... اس طرح ایک ایک کر کے تین تین چار چار ماہ تک ملک میں شائع ہونے والے تمام اخبارات کے ذائقے چکھ کر دیکھ لیے... کہنے کو آپ کہہ سکتے ہیں... کہ میں نے تمام اخبارات ہی کیوں نہیں لگوائے ہوئے ہیں... آخر ہر ہفتے کالم لکھنا پڑتا ہے... اس سوال کا جواب یہ ہے کہ اتنا وقت ہی نہیں ملتا کہ تمام اخبارا ت کے کالم پڑھ سکوں... ان دو اخبارا ت کے کالم بھی میںتو سرسری پڑھ پاتاہوں... دوسرے یہ کہ اتنا خرچ کون کرے...
خیر چھوڑیں... با ت ہو رہی تھی... ذائقوں کی... اس طرح میں نے تمام اخبارات کے ذائقے بہت غو ر سے چکھے اور آخر کار اس نتیجے پر پہنچا کہ سب کے ذائقے بالکل الگ الگ ہیں... کسی کا ذائقہ ، کسی دوسرے اخبار سے میل نہیں کھاتا... نہ لگاّ کھاتا ہے... پتانہیں یہ لگاّ کھانا کیا ہوتا ہے... شاید برگر کھانے جیسا ہی ہوتا ہو گا... میں صرف اسی ایک نتیجے پر ہی نہیں پہنچا... ایک دوسرے نتیجے پر بھی پہنچ گیا... اور بیٹھے بٹھائے نہیں پہنچ گیا... بہت پاپڑ بیل کر پہنچا ہوں... آپ بھی وہ نتیجہ سن لیں۔ آخر بچپن میں بھی تو نتیجے سنتے رہے ہیں... جی ہاں! اور کیا... وہ نتیجہ یہ ہے پاکستان بھر میں اسلامی معاشرت کی بھر پور عکاسی کرنے والا بس ایک ہی اخبار ہے... آپ کو اچھا لگے یا بُرا... بات ہے یہی... کہ وہ اخبار ہے ’’روزنامہ اسلام‘‘... اللہ حافظ ۔
Flag Counter