Deobandi Books

ہفت روزہ ضرب مؤمن 30 مئی تا 5 جون 2014

ہ رسالہ

3 - 9
بھارت کے مسلمانوں کا مستقبل؟؟؟
بھارت کے حالیہ انتخابات میں بی جے پی کی کامیابی کے بعد بھارت کے مسلمانوں کے مستقبل کا سوال باشعور دنیا کے سامنے ایک جاندار سوال کے طور پر اُبھرا ہے۔ بھارتی رہنما نریندر مودی مسلمانوں کے خلاف کیا کچھ کرے گا؟ گزشتہ تجربات اور مودی کا ماضی اس بارے میں شدید داغدار اور بھیانک ہے۔ حالیہ انتخابات میں بھی مودی نے اپنے ماضی کے ’’کارناموں‘‘ کو بطور حوالہ استعمال کیا۔ پہلے وہ ایک صوبے میں اپنے ’’عزائم‘‘ آزماتا تھا۔ اب بھارت کی ہندو اکثریت نے اس کو پورے ملک کی اقلیتوں کے جان و مال پر ہر طرح کے تصرف کا اختیار دے دیا ہے۔ اب مودی کو اپنے عزائم سے روکنے والا بظاہر کوئی نہیں ہے۔
بھارت اپنے سیاسی تشخص میں ایک سیکولر ملک ہے۔ سیکولر ہونے کا چولا بھارت نے اس لیے پہنا تھا کہ اس کثیر القومی خطے میں آزادی کے رجحانات کو دبایا جاسکے۔ دیگر قومیتوں کے لیے بھارت کو قابل قبول بنانے کا واحد راستہ یہی تھا کہ اس کی شناخت ایسی رکھی جائے جو بظاہر سب کے لیے قابل قبول ہو۔ اگر ایسا نہ کیا جاتا تو اس بات کا خطرہ تھا کہ ہندوستان مزید کئی ٹکڑوں میں بٹ جاتا۔ جب بھارت بن رہا تھا تو وہ دور استعماری طاقتوں سے آزادی کا دور تھا۔ اس دور میں تمام قومیتیں کسی بھی قیمت پر آزادی اور خودمختاری چاہتی تھیں۔ اس دور کی نفسیات کے حوالے سے بھارت کے شاطر ذہنوں نے ایک کامیاب چال چلی اور کوشش کی کہ بھارت کو عظیم سے عظیم تر رکھنے اور مزید اس کے حصے بخرے ہونے سے بچانے کے لیے آزادی اور علیحدگی کے بڑھتے ہوئے

رجحانات کو قابو کرلیا جائے، چنانچہ ایک حربے کے تحت بھارت کو سیکولر دکھایا گیا۔ ہندوئوں کو پتہ تھا کہ سیکولر ہونے کے باوجود بھارت ایک ہندو ریاست رہے گا، کیونکہ اس ملک کی 75 فیصد آبادی ہندو ہے اور ان میں سیکولر بہت ہی کم ہوں گے، اس لیے باقی اقوام کو سیکولرازم کے دام میں پھنسانے کے لیے یہ سب کچھ کیا گیا۔ اب ظاہر ہوگیا کہ بھارت کے سیکولرازم کا کیا مطلب ہے۔
یہاں پر بہت سے سیکولر لوگوں کو مسلمانوں پر طنز کا موقع ملتا ہے کہ مسلمان پاکستان میں تو سیکولرازم کو بالکل برداشت نہیں کرتے، جبکہ بھارت میں سیکولرازم کی حمایت کرتے ہیں۔ حالیہ انتخابات میں مسلمانوں نے سیکولر اُمیدواروں کو ووٹ دیا اور بھارت کے مسلمان لیڈروں نے مسلمانوں کو سیکولرازم کی تائید کی تاکید کی۔ کچھ سیکولر لوگ اس بات کو ایک قسم کی منافقت سے تعبیر کرتے ہیں، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ایسے سیکولر حضرات فہم کے حوالے سے کمزوری کا شکار ہیں، کیونکہ بھارت میں سیکولرازم کی حمایت اور پاکستان میں سیکولرازم کی مخالفت ان دونوں ممالک کے آئینی تقاضوں کا مطالبہ ہے۔ بھارت میں سیکولرازم کی حمایت کا مطلب بھارتی آئین کی پاسداری کا مطالبہ ہے۔ یہ مطالبہ دنیا کا ہر باشعور شخص تسلیم کرتا ہے کہ ریاستی آئین کی پاسداری ضروری ہے تو مسلمانوں کو اس آئینی مطالبے کا حق کیوں نہیں ہے؟
نیز پاکستان بھی سیکولرازم کی باتوں کی مخالفت بھی آئین ہی کرتا ہے اور یہاں بھی آئین کی پاسداری کا تقاضہ یہ ہے کہ یہاں سیکولرازم کی باتیں غلط ہیں۔ تب منافقت ان دو باتوں میں بالکل نہیں، بلکہ منافقت تو خود ان سیکولر عناصر کے رویہ میں ہے کہ وہ ہر ملک کے مسلمہ آئین کے احترام کے قائل ہیں، چاہے وہ آئین کسی طرح کا ہو، چونکہ ایک ملک کی واضح اکثریت نے اس کو قبول کرکے اپنا لیا ہے، اس لیے اس کا احترام لازمی ہے۔ یہ آئین اگر بھارت میں سیکولر بنیادوں پر ہے تو وہاں وہی صحیح ہے۔ پاکستان میں جو بھی آئین ہے وہ سیکولرازم کی رو سے بھی قابلِ قبول ہونا چاہیے کہ سیکولرازم انسان کی رائے کا احترام کرنے کا مدعی ہے۔ بھارت میں سیکولر آئین تمام اہلِ مذاہب کو بنیادی حقوق کی ضمانت دیتا ہے۔ اس کی خلاف ورزی کی صورت میں وہاں ظلم ہوگا۔ اکثریت اقلیتوں کو پامال کردے گی اور انسانیت اور انسانی حقوق خطرے میں پڑجائیں گے۔ یہ صرف خدشہ نہیں،
بلکہ اس طرح کی مشق ستم وہاں کی اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں کے خلاف روزِ اوّل سے رہی ہے اور تاحال جاری ہے۔ اس تشدد، عدم برداشت اور ظلم میں وہی ہاتھ بار بار شامل رہے ہیں جو آج بھارت کے اقتدارِ اعلیٰ کے مالک ہیں۔ بھارتی مسلمانوں کو بی جے پی کے انتقام اور نسل کشی کی مہم سے کون بچائے گا؟ ظاہر ہے کہ ایک ہی ذات ہے جس کی وحدانیت کے عقیدے کے طفیل مسلمانوں کی شناخت دنیا میں موجود ہے۔ وہی ذات وہاں کے مسلمانوں کو ہندوئوں کی نسل کشانہ مہم سے بچاسکتی ہے اور کوئی بعید نہیں ہے کہ وہ اپنے فضل سے ظاہری اسباب کے برخلاف کوئی غیرمعمولی فیصلہ کرلے اور بھارتی مسلمان اس آزمائش سے آسانی سے نکل سکیں، لیکن اللہ کی سنت یہ ہے کہ یہ دنیا انسان کی اپنی محنت کی دنیا ہے۔ قدرت عموماً انسان کی اختیاری سرگرمیوں میں مداخلت نہیں کرتی۔ اللہ تعالیٰ نے سورئہ قمر میں فرمایا ہے کہ انسان کو وہی نتیجہ ملے گا جس کی وہ محنت کرے گا۔ اس میں عنوان انسان کا اختیار کیا گیا ہے، مسلمان نہیں کہا گیا، اس لیے کسی بھی بحران اور مشکل مرحلے سے نکلنے کا مدار انسان کی ذاتی محنت اور کوشش پر ہے۔ مسلمان کسی طاقت کی طرف نہ دیکھیں، نہ یہ ممکن ہے کہ کوئی اور طاقت ان کی داد رَسی کرے گی۔ خود محنت کریں، میدانِ عمل میں آئیں، اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کریں۔ مسلمانوں کی آزمائش ان کی اپنی نااتفاقی کی وجہ سے ہے، ورنہ انڈیا میں مسلمان، سکھوں اور دیگر اقلیتوں سے کہیں زیادہ تعداد میں موجود ہیں۔ سکھ بھارتی آبادی میں 2 فیصد سے زیادہ نہیں ہیں، جبکہ مسلمان آبادی کے بارے میں 14 فیصد سے 20 فیصد تک کے اندازے ہیں۔ سکھوں کے ساتھ بھی ہندوئوں کی جنگیں رہی ہیں، لیکن آج سکھ انڈیا میں معزز شناخت رکھتے ہیں۔ مسلمانوں میں باہمی تفرقہ بازی ہے اور قیادت میں فہم و بصیرت اور تحمل و دور اندیشی کا فقدان ہے جس کی وجہ سے ان کے وجود کو خطرات لاحق ہوگئے ہیں۔
مسلمان کم نہیں ہیں۔ ان کی کمزوری اقلیت ہونا نہیں ہے۔ انڈیا میں ایک اندازے کے مطابق تقریباً 20 کروڑ مسلمان بستے ہیں۔ اتنی بڑی آبادی کو کوئی یرغمال نہیں بناسکتا۔ اتنی تعداد چیونٹیوں کی ہو تو بھی اس کو ختم کرنا آسان نہیں، انسان تو بڑی چیز ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ حنین کے موقع پر 12 ہزار کے لشکر کو دیکھ کر فرمایا تھا کہ آج ہم تعداد کی کمی کی بنا پر مغلوب نہیں ہوسکتے۔ مطلب اس حدیث کا یہ تھا کہ آج کی تعداد اتنی ہے کہ اگر کوئی شکست ہوجائے تو اس کی وجہ تعداد کی کمی نہیں ہوگی، بلکہ اس کے اور اسباب ہوں گے، انہیں تلاش کیا جائے یا ان کی تلافی کی کوشش کی جائے۔
جہاں تک پاکستان کی اس حوالے سے ذمہ داری کا تعلق ہے تو اس سے انکار نہیں کہ پاکستان پر بھارتی مسلمانوں کا مستقبل ایک قرض ہے کہ ایک بھائی نے دوسرے بھائی کو غار سے نکالنے کے لیے کندھا دیا تھا تاکہ وہ نکل جائے تو دوسرے بھائی کا یہ فرض بنتا ہے کہ غار سے نکلنے کے بعد غار کے اندر موجود بھائی کا ہاتھ پکڑلے، لیکن 67 سال گزرے وہ بھائی اس غار کے اندر دوسرے بھائی کا انتظار کررہا ہے، مگر وہ نکل گیا اور مڑ کر نہ دیکھا۔ بھارتی مسلمان ابھی تک اپنے اس بھائی کے انتظار میں ہیں۔
Flag Counter