Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی رجب المرجب 1431ھ

ہ رسالہ

4 - 18
***
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
مہمان اور بچے کی وجہ سے کھانے کا حساب نہ ہونے اور دسترخوان صاف کرنے سے متعلق حدیث کی تحقیق
سوال… کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلے کے بارے میں:
بعض حضرات کہتے ہیں کہ جب دستر خوان پر کھانے میں اپنے ساتھ نابالغ بچے یا مہمان کو شریک کر لیا جائے تو اس کھانے کا حساب نہ ہو گا۔
اور یہ بھی کہتے ہیں:
دسترخوان کو صاف کرنا ضروری ہے وگرنہ شیطان اس دسترخوان اور بغیر دھلے برتنوں کو چاٹتا ہے۔
مطلوب آپ حضرات سے یہ ہے کہ آیا مذکورہ باتیں کسی مستند حوالے سے ثابت ہیں ؟ اگر ہیں تو حوالہتحریر کریں ، تاکہ طمینان ہو جائے اور اگر مذکورہ باتیں ثابت نہیں ، تو کیا ان کی کوئی تردید مستند یا غیر مستند حوالوں سے موجود ہے؟
جواب… دستر خوان پر نابالغ بچوں کو بٹھانے سے کھانے کا حساب نہ ہونے سے متعلق کوئی روایت تلاش بسیار کے باوجود بھی نہ مل سکی۔
البتہ مہمان کی شرکت کی وجہ سے حساب نہ ہونے کے بارے میں مختلف کتب حدیث میں روایات پائی جاتی ہیں ۔
چناں چہ امام غزالی رحمہ الله ”إحیاء العلوم “ میں فرماتے ہیں: وفی الخبر: ”ثلاثة لایحاسب علیھا العبد: أکلة السحور، وما أفطر علیہ ، وما أکل مع الإخوان“۔ ․ ( کتاب آداب الأکل، الباب الثالث فی آداب تقدیم الطعام إلی الإخوان الزائرین، 13/2 دارإحیاء التراث العربی)
علامہ عینی رحمہ الله نے بھی اس روایت کو عمدة القاری میں نقل کیا ہے ، فرماتے ہیں : وقدذکر صاحب الفردوس من حدیث ابي ھریرة: ”ثلاثة لایحساب علیھا العبد: أکلة السحور، وما أفطر علیہ، وما اکل مع الإخوان) کتاب الصوم ، باب برکة السحور من غیر إیجاب الخ:431/10 دارالکتب العلمیة ، بیروت)
لیکن اس طرح کی جتنی بھی روایات ہیں ، ان میں سے کوئی بھی ضعف سے خالی نہیں۔ چناں چہ علامہ زبیدی رحمہ الله”إتحاف شرح إحیاء“ میں فرماتے ہیں :(وفی الخبر: ثلاثة لا یحاسب علیھا إلخ) ھکذا ھو في القوت۔ وقال العراقي: رواہ الأزدي في الضعفاء من حدیث جابر: ” ثلاثة لایسألون عن النعیم : الصائم والمفطر، والرجل یأکل مع ضیفہ“ أوردہ فی ترجمة سلیمان بن داؤد الجزری وقال فیہ: منکر الحدیث ، وللدیلمي في مسند الفردوس نحوہ من حدیث أبي ھریرة اھ․( کتاب آداب الأکل، الباب الثالث في آداب تقدیم الطعام إلخ:612/5 دارالکتب العلمیة بیروت)
اسی طرح علامہ پٹنی رحمہ الله نے بھی مذکورہ حدیث کو ”تذکرہ الموضوعات“ میں ذکر کرنے کے بعد ” ضعیف ہونے کا حکم لگایا ہے ۔ ( تذکرة الموضوعات للفتني:166/1)
اور ضعیف احادیث کو فضائل میں بیان کرنا جائز ہے بشرطیکہ اس کا ضعف بیان کر دیا جائے ۔
نیز کھانا، کھاتے وقت برتن صاف کرنے او رکھانے کے بعد دسترخوان صاف کرنے سے متعلق بھی کئی احادیث مبارکہ وارد ہوئی ہیں :
چناں چہ مشکوٰة المصابیح میں روایت ہے:
وعن نبیشة قال: قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: ”من أکل فی قصعة ثم لحسھا ، تقول لہ القصعة: أعتقک الله من النار کما أعتقتني من الشیطان“ رواہ رزین․ ( کتاب الأطمعة، الفضل الثالث،101/2، رقم :4242، دارالکتب العلمیة)
اور ترمذی شریف میں ہے:
قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم“ من أکل في قصعة ثم لحسھا استغفرت لہ القصعة“ قا ل ابوعیسی: ھذا حدیث غریب لانعرفہ إلا من حدیث معلی بن راشد وقدروی یزید بن ہارون و غیر واحد من الأئمة عن المعلی بن راشد، ھذا الحدیث․ ( کتاب الأطعمہ، باب ماجاء فی اللقمة تسقط، 13/3 دارالکتب العلمیة)
وعن أنس بن مالک رضي الله عنہ قال: إن رسول الله صلی الله علیہ وسلم أمرنا أن نسلت القصعة، قال : ” فإنکم لاتدرون فی أي طعامکم البرکة“․ (مسلم، کتاب الأشربة ، باب استحباب لعق الأصابع إلخ، ص:907 دارالسلام)
وعن جابر بن عبدالله رضي الله تعالی عنہ: ، أن النبی صلی الله علیہ وسلم أمر بلعق الأصابع والصحفة وقال: ” إنکم لاتدرون في أیّة البرکة“․ (مسلم کتاب الأشربة ، باب استحباب لعق الأ صابع إلخ، ص:906 دارالسلام)
عن ابٴي ھریرة رضی الله تعالیٰ عنہ قال : قام رسول الله صلی الله علیہ وسلم یخطب فقال: ان الله عزوجل أمرنی أن أعلمکم ما علمني وأن أؤدبکم: إذا قمتم علیٰ أبواب حجرکم… وإذا رفعتم المائدة ، فاکنسوا ما تحتھا، فإن الشیاطین یلتقون ماتحتھا فلا تجعلوا لھم نصیبا فی طعامکم․ (آداب الطعام فی ضؤ سنة خیر الأنام، الباب الأول، الأدب الخامس، ص:41 دارلبصائر الإسلامیة)
مذکورہ بالا روایات کی روشنی میں معلوم ہوا کہ کھانا کھاتے وقت برتن کو اور کھاناکھانے کے بعد دسترخوان کو خوب اچھی طرح صاف کرنا چاہیے اس لیے کہ ہو سکتا ہے کہ کھانے کے اسی حصے میں برکت ہو ، یہاں تک کہ اگر انگلیوں پر کچھ لگ جائے تو اس کو بھی چاٹ لینا چاہیے او راگر اس بچے ہوئے کھانے کو نہ کھایا گیا یا دسترخوان کو اچھی طرح صاف نہ کیا گیا تو اس بچے ہوئے کھانے میں سے شیطان کھاتا ہے۔
سودی رقم میں سے اپنے نقصان کی تلافی کرنا یا رشوت میں کسی کو دینا
سوال… کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام بابت اس مسئلہ کے کہ زید نے ایک بینک میں سیونگ یعنی سودی اکاؤنٹ کھلوایا جس میں 10000 روپے سال میں منافع ملا۔دوسری طرف بینک نے مختلف اخراجات کی مد میں زید کے اکاؤنٹ سے5000 روپے منہا کر لئے۔ایسی صورت میں کیا زید اس 5000 کی رقم کو اس10000سودی منافع سے منہا کر سکتا ہے یا نہیں۔یعنی بینک کے سود میں سے5000 رویے کٹوادے۔کیا بقایا5000 سودی بقایا رقم کسی ضرورت مند کو بغیر ثواب کی نیت کے دئے جاسکتے ہیں یا کسی ایسے افسر کو بطور رشوت دیے جاسکتے ہیں جو زبر دستی رشوت طلب کر رہا ہو اور رشوت نہ دینے کی صورت میں زید کو بھاری مالیت کا نقصان پہنچاسکتا ہو۔ 
جواب… سود کا لینا، دینا دونوں حرام ہیں، یہاں تک کہ سود لینے اور دینے والے دونوں کے بارے حدیث مبارک میں لعنت آئی ہے ، لہٰذا صورت مسئولہ میں جب بینک نے مختلف اخراجات کی مد میں زید کے اکاؤنٹ سے ”5000“ روپے منہا کیے تو زید کے لیے جائز نہیں کہ اس کے بدلے ”10000“ روپے سودی رقم میں سے ”5000“ روپے منہا کرے اور نہ ہی کسی کو رشوت میں دیناجائز ہے، بلکہ تمام سودی رقم کو ثواب کی نیت کے بغیر فقراء پر صدقہ کرنا واجب ہے۔
نکاح کا مسنون طریقہ
سوال… کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ میں کہ آج کل اکثر نکاح جو منعقد ہوتے ہیں تو رسوم ورواج اور فضول خرچی پر مبنی ہوتے ہیں پوچھنا یہ ہے کہ منگنی سے لے کر رخصتی تک شریعت نے جو مسنون طریقے بیان کیے ہیں ان کو لکھا جائے اور بیان کیا جائے تاکہ ہم لوگ رسم بالا اور فضول خرچی سے بچیں؟
جواب… شریعت مطہرہ میں سب سے زیادہ بابرکت نکاح وہ قرارر دیا گیا ہے جو سادہ اور بغیر تکلف ومشقت کے ہو ، جیساکہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان الله تعالیٰ علیہم کے زمانہ میں بغیر تکلف کے نکاح ہوا کرتا تھا۔
نکاح میں سب سے پہلا مرحلہ منگنی کا ہوتا ہے جس میں کسی گھرانے کی تعیین کرنی ہوتی ہے لہٰذا ایسے گھرانے میں رشتہ ڈھونڈنا چاہیے جس میں دینی فضاء ہو ، محض حسن وجمال ، حسب ونسب کو مدنظر رکھنے سے بعد میں تعلقات خراب ہو جانے کا اندیشہ ہے ۔
دوسرا مرحلہ عقد نکاح کا ہوتا ہے، عقد نکاح کی تشہیر کرنی چاہیے جس کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ مسجد میں نکاح کر لیا جائے تشہیر کے لیے ڈھول باجے اور ناجائز طریقوں سے اجتناب کیا جائے ۔
نکاح ہو جانے پر دعوت ولیمہ سنت ہے لیکن دعوت ولیمہ اپنی استطاعت کے مطابق کرنی چاہیے ،تفاخر کے لیے فضول خرچی سے حتی الامکان گریز کیا جائے۔ عام طورپر ولیمہ کے موقع پر مخلوط محفل سجائی جاتی ہے کہ اس میں پردے کا بالکل خیال نہیں کیا جاتا جو کہ سخت گناہ ہے او راس کا چھوڑنا ضروری ہے ۔
بر وقت مال نہ دینے پر ضمان لینا 
سوال…(1) ہم لوگ اناج مارکیٹ جوڑیا بازار کے بیوپاری آپ سے پوچھنا چاہتے ہیں کہ ہمارے ہاں ایک سودا کیا جاتا ہے چاول وغیرہ کا مثلاً66 روپے میں، دس دن بعد مارکیٹ بڑھ جاتی ہے 50 تک، اب خریدنے والا بیچنے والے کے پاس جاتا ہے کہ مجھے مال دو ، وہ مُکر جاتا ہے کہ میرے پاس مال نہیں ہے ، مارکیٹ کے دستور کے مطابق خریدنے والا Seller سے کہتا ہے کہ تم مکر گئے ہو لہٰذا مجھے چار روپےPer kilo کا Difference فرق ادا کردو تو کیا Seller سے اس قسم کا ضمان یا Difference وغیرہ لیناجائز ہے یا نہیں ،اگر لے لیا تو اس کا کیا حکم ہے۔
(2)… دوسری صورت بھی یہی ہے لیکن اس میں خریدنے والا بیچنے والے سے اضافہ اس لیے مانگتا ہے کہ اس نے آگے سودا کر لیا ہوتا ہے اورجس سے آگے سودا کیا ہوتا ہے وہ بھی اس سے اضافہ مانگ رہا ہوتا ہے لہٰذا اگر یہ اس فروخت کنندہ سے وصول نہیں کر یگا تو اس کو اپنی جیب سے ادا کرنا پڑے گا، کیا اس صورت میں پہلے فروخت کے لیے اپنی فروخت سے فرق کی رقم لینا جائز ہے یا نہیں اگر لے لی تو اس کا کیا حکم ہے۔
تنقیح: مستفتی سے معلوم کرنے پر معلوم ہوا کہ پہلی اور دوسری بیع کی دو صورتیں ہوتی ہیں، ایک یہ کہ نہ تو خریدنے والا رقم دیتا ہے او رنہ بیچنے والا مال دیتا ہے بلکہ محض ایک قولی معاملہ کرتے ہیں اور دوسری صورت یہ ہوتی ہے کہ خریدنے والا رقم دیتا ہے ، لیکن مال لینے کامطالبہ بعد میں کرتا ہے۔
جواب… مذکورہ تمام صوتروں میں مال فروخت کرنے والے کا ، مال دینے سے انکار کرنا، یا باوجود قدرت کے بروقت مال فراہم نہ کرنا گناہ ہے جسکی وجہ سے وہ سخت گنہگار ہو گا ، لیکن بایں ہمہ خریدار کے لیے کسی بھی صورت میں اس سے ضمان کے طور پر یا ویسے اضافی رقم لینا جائز نہیں۔

Flag Counter