Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی رجب المرجب 1431ھ

ہ رسالہ

10 - 18
***
اسلامی پردہ اورمغربی معاشرےکا تعصّب
محترم عبیدالله عبید
مغربی معاشرے میں مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد زندگی بسر کررہی ہے اوران میں سے اکثرمسلمانوں کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنی زندگی اسلام کے زرین اصولوں کے مطابق گزاریں،لیکن اس بارے میں سب سے بڑی رکاوٹ مغربی حکومتوں کاتعصب پر مبنی رویہ ہے ۔اہم اسلامی احکامات میں سے ایک عورتوں کاپردہ یاحجاب ہے ۔پردہ عورت کو پابند اور اس کی آزادی سلب کرنے کے لیے نہیں ہے، بلکہ اسلام نے عورت کے تحفظ اور سلامتی کے لیے اسے ضروری قراردیاہے ۔
فرانس میں ایک مسلمان خاتون پر ایک پولیس آفیسر نے صرف اس لیے 22یورو جرمانہ لگایاکہ وہ حجاب کے ساتھ ڈرائیونگ کررہی تھی اور افسرکے خیال میں حجاب میں رہ کر ڈرائیونگ کرناروڈسیفٹی ایکٹ کی خلاف ورزی ہے، یعنی محفوظ ڈرائیونگ نہیں کی جاسکتی ۔ایک دوسراواقعہ بیلجیم کے پارلیمان میں حجاب کے بارے میں بل پیش کرنے کاہے، جس کے مطابق پارلیمانی ارکان اس نکتے پر بحث کررہے ہیں کہ عوامی مقامات مثلاًپارک، ہسپتال،دفاتراور کاروباری اداروں وغیرہ میں چہرے کے حجاب پر پابندی لگائی جائے کہ نہیں؟
ان دو واقعات کوسامنے رکھ کر ہم اس مسئلے کے پسِ منظر میں جانے کی کوشش کرتے ہیں کہ مغربی معاشرہ آخرکیوں پردے کے پیچھے پڑاہواہے؟ نیز ان مسلمانوں کے احساسات اور جذبات کاتجزیہ جن کاواسطہ اس مسئلے سے براہِ راست مغربی معاشرے میں پڑتاہے۔
ویسے تو کئی دہائیوں سے مسلمان خواتین کے پردے پریہ اعتراض کیاجاتارہاکہ اسلام نے عورتوں کے حقوق چھین لیے ہیں،مسلمان عورتیں کھلے منہ اور بے پردہ گھوم پھرنہیں سکتیں اوریہ پردہ جبری اور ان کی مرضی کے خلاف مسلط کیاگیاہے، لیکن جب خود مسلمان خواتین کی طرف سے اس کے حق میںآ واز اُٹھائی گئی تومعترضین وقتی طورپر ٹھنڈے پڑگئے ۔اب ایک نئے سرے سے حجاب کے خلاف ایک نئی مہم شروع ہوگئی ہے کہ پردہ (جسے میڈیا کبھی حجاب اور کبھی نقاب کے نام سے بھی یاد کرتاہے )سماجی میل جول میں رکاوٹ ہے ۔بیلجیم کی پارلیمنٹ میں جو قانون حالیہ دنوں میں زیرِ بحث ہے،کے بارے میں ایک رکن سٹیفن وین ہیک نے کہاکہ” اگر ہم اور آپ برسلز(بیلجیم کادارالحکومت)میں موجود مختلف کمیونٹیزکے درمیان بہتر میل جول اورتعلق چاہتے ہیں تویہ ضروری ہے کہ بات چیت کے وقت ایک دوسرے کو دیکھ بھی سکیں“۔آپ نے مسٹرہیک کے بیان میں سماجی میل جول میں رکاوٹ کامفہوم تلاش کرلیاہوگا،اگرنہیں تو ایک بار پھر ان کی رائے پڑھ لیں۔وہ ایک دوسرے کو دیکھے بغیر بہتر تعلق اور میل جول کے قائل نہیں ہیں۔فرانس کی پارلیمانی کمیٹی نے بھی رواں سال جنوری میں یہ تجویز پیش کی تھی کہ ہسپتالوں،پبلک ٹرانسپورٹ اور دوسرے عوامی مقامات میں چہرے کے حجاب پرپابندی لگادی جائے اور خلاف ورزی کرنے والوں کی فرانسیسی شہریت ختم اور جلاوطن کیے جائیں۔یادرہے کہ فرانس میں پابندی کی حمایت کرنے والے صرف چہرے کے حجاب کے خلاف ہیں ۔سوائے چہرے کے باقی جسم کے ڈھانپنے پران کو بھی کوئی اعتراض نہیں ہے ۔اگرفرانس میں یہ قانون سازی ہوئی توساڑھے چھ کروڑخواتین میں سے صرف انیس سو کی خواہش پر پابندی لگ جائے گی، کیوں کہ پورے فرانس کی کل آبادی میں مسلمانوں کی یہی تعداد اپنی مرضی سے چہرے کاپردہ کرناچاہتی ہے اور دینی احکامات کے مطابق لباس پہنناپسند کرتی ہے ۔
فرانس کے ذرائعِ ابلاغ میں پردے کے خلاف یہ بات زور وشور سے کی جارہی ہے کہ مرد باپردہ خواتین کوپردے کے لیے مجبور کرتے ہیں،لیکن حیران کن امریہ ہے کہ پورے فرانس میں ایک بھی عورت نے اب تک یہ شکایت درج نہیں کی کہ مجھ پر میراشوہر یاخاندان کاکوئی دوسرامرد حجاب زبردستی مسلط کررہاہے ۔اگرفرانسیسی حکومت اس طرح کی شکایت کے بعد یہ مداخلت کرتی تو اسے بجاقراردیاجاتا، لیکن یہ مداخلت بے جاہے، کیوں کہ فرانسیسی ذرائعِ ابلاغ میں مسلم خواتین کے پردے کے حق میںآ وازاُٹھانے والے حلقوں کی طرف سے دوواقعات بھی اس ضمن میں پیش کیے گئے ہیں کہ ”جب افغانستان میں طالبان نے خواتین پر پابندیاں عائد کردیں تو ان پابندیوں کے خلاف پہلی آواز خود افغان خواتین نے بلند کی اور افغانستان میں جارحیت کاایک اہم سبب امریکی حکومت نے یہی بتایا۔دوسراواقعہ ایرانی حکومت کاہے کہ حجاب اور چادر کے خلاف ایرانی لڑکیاں اور عورتیں اُٹھ کھڑی ہوئیں“۔ان مذکورہ دونوں واقعات کاحقیقت سے کتناتعلق ہے ؟اس سے قطع نظر لیکن استدلال کے لحاظ سے ان حلقوں کی اس بات میں بڑاوزن ہے کہ فرانسیسی مسلمان عورتوں نے حجاب کے خلاف خود کسی قسم کی صدائے احتجاج بلند نہیں کی کہ انہیں پردے پرمجبور کیا جارہاہے اورحکومت کو چاہیے کہ وہ اس کے خلاف قانون سازی کرکے قدم اُٹھائے ۔اس لیے فرانسیسی حکومت کی حجاب پرپابندی کے بارے میں قانون سازی انیس سو کی تعداد میں مسلمان خواتین کی مرضی کے مطابق نہیں،بلکہ ان کی خواہش کاگلاگھونٹنے کے مترادف ہے ۔
فرانس میں پیداہونے والی چھتیس سالہ کرسٹیل کھدروش پیرس کے مضافات میں رہائش رکھتی ہیں ۔اس نے ابلاغِ عامہ کی تعلیم بھی حاصل کی ہے،ایک الجیریائی مسلمان کی زوجہ ہیں،پانچ بچوں کی ماں اورنومسلمہ ہیں۔ان سے جب میڈیاوالوں نے پوچھاکہ فرانس میں پردے کو سماجی میل جول میں رکاوٹ قراردیاجاتاہے، کیوں کہ انسان ایک دوسرے کوچہرے سے پہچانتے ہیں اور چہرہ ہی ایک دوسرے کو سمجھنے اور تعلق کابنیادی ذریعہ ہے ۔توکُھدروش نے جواب دیاکہ میں گھرسے باہر نکلتے وقت پردہ کرتی ہوں اور مجھے پردہ کرتے ہوئے بارہ سال ہوگئے،کیامیرالوگوں سے میل جول نہیں ہے؟ اگرآپ چہرہ دیکھے بغیر تعلق قائم کرنے کاتصور نہیں کرسکتے تو میں آپ سے اتفاق نہیں کرتی ۔میں اگر ٹیلی فون پرمسکراوٴں گی تومیری مسکراہٹ کی آواز دوسرے کوسنائی دے گی؟ میرے انسانی رابطے اسی طرح جاری وساری ہیں جس طرح کھلے چہرے والی خواتین اپنی ضروریات کے لیے کرتی ہیں۔ محض کپڑے کایہ ٹکڑا(نقاب)ان میں رکاوٹ نہیں بن سکتا اور نہ اس برقعے نے کسی قسم کی تبدیلی پیداکی ہے۔
درج بالاحقائق کوسامنے رکھ کریہ نتیجہ بخوبی اخذکیاجاسکتاہے کہ فرانسیسی اوربیلجین حکومتوں کی طرح پوری مغربی سوسائٹی مسلمانوں کی دینی روایات کے خلاف تعصب پرمبنی ایک منظم مہم چلارہی ہے۔ان کی یہ مہم حجاب کے اس مسئلے پر ختم نہیں ہوگی، بلکہ مسلمانوں کی دیگر دینی روایات کوبھی نشانہ بنایاجائے گا۔ہمارے اس دعوے کی سچائی کااندازہ آپ کو مشہور سعودی روزنامے الوطن کی اس رپورٹ سے ہوجائے گاجس میں بیلجیم کے وزیر قانون” سٹیفنڈی کلارک “کو موصول ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق ”ایک مسلمان قیدی کو جیل میں اظہار کفر اور پیغمبرِ پاک صلی الله علیہ وسلم کی توہین پر مجبور کیا جاتا رہا ہے۔ بیلجین جیلخانہ جات کے اہلکاروں کا یہ رسواکن اور بے شرمانہ رویہ برسلز کے قریب فارسٹ جیل میں روارکھا جاتا ہے۔ اگرچہ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ رویہ 22 ستمبر سے 20 اکتوبر کے دوران روا رکھا جاتا رہا ہے، مگر اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ بلجئیم میں یہ رویہ معمول کے مطابق ہے اور مسلم قیدیوں کو عام طور پر اظہار کفر اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی توہین پر مجبور کیا جاتا ہے۔ الوطن کے مطابق بیلجین جیلوں سے فاش ہونے والی یہ رسوائیاں وحشیانہ پن کے لحاظ سے عراق کی ابوغریب جیل سے کسی بھی طور کم نہیں، بلکہ شدت کے لحاظ سے ابوغریب جیل میں امریکیوں کے وحشیانہ طرز سلوک سے کہیں بڑھ کر ہیں“۔

Flag Counter