Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی رجب المرجب 1431ھ

ہ رسالہ

15 - 18
***
ملک کا خطرناک رُخ اور دانشور طبقہ کی ذمے داری
مولانا سید ابوالحسن علی ندوی
حمد وصلاة کے بعد:
﴿فلولا کان من القرون من قبلکم اولو بقیة ینھون عن الفساد فی الارض الا قلیلا ممن انجینا منھم واتبع الذین ظلموا ما اترفوا فیہ وکانوا مجرمین﴾․ (سورہ ہود:116)
جو نسلیں تم سے پہلے گزر چکی ہیں ، ان میں ایسے صاحب شعور کیوں نہ ہوئے جو ملک میں بگاڑ سے روکتے ؟ وہاں ایسے تھوڑے تھے جن کو ہم نے بچا لیا اور جو ظالم تھے وہ عیش وآرام کے انہیں اسباب کے چکر میں پڑے رہے، جو ان کے لیے مہیا کیے گئے تھے اور وہ مجرم تھے۔
معزز اساتذہ اور عزیز طلبہ!
میں نے آپ کے سامنے قرآن شریف کی ایک آیت پڑھی ہے ، اس آیت میں جو درد ، جوش ، جو حقیقت اور طاقت ہے ، میں اقرار کرتا ہوں کہ اس کو ترجمہ میں منتقل نہیں کرسکتا، میں قرآن مجید کا طالب علم رہا ہوں اور عربی زبان میں بھی شُدبُد رکھتا ہوں، لیکن میں اعتراف کرتا ہوں کہ قرآن مجید کی اس آیت کے اندر ( درد کا لفظ استعمال کرنے سے میں ذرا ڈرتا ہوں کہ وہ خدا کا کلام ہے، لیکن درد انگیزی کہنے میں کوئی وجہ نہیں ) جو درد انگیزی دوسری زبان میں ہے ، اس کا منتقل کرنا بہت مشکل ہے۔
الله تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم سے پہلے کی نسلوں میں ایسے اہل شعور کیوں نہیں رہے جنہیں کچھ بچا کچھا احساس تھا، کچھ ان کے دل پر چوٹ تھی ، انسانیت کا کچھ درد تھا، زمین میں جو فساد پھیل رہا تھا، جو تباہی مچ رہی تھی اس سے لوگوں کو منع کرتے ، تھوڑے سے ان لوگوں کے علاوہ جو اس کام کے لیے کھڑے ہوئے، جن کو ہم نے بچا لیا تھا، باقی تمام لوگ وقت کے دھارے میں بہہ گئے، عیش وعشرت کے جن وسائل کی کثرت تھی اور بگڑی ہوئی صورت حال سے فائدہ اٹھانے کے جو زریں مواقع حاصل تھے ان سے فائدہ اُٹھانا زیادہ آسان ہوتا ہے ۔ دوسروں کے گھر ویراں کرکے اپنے گھر کی تعمیر اوردوسروں کی لاشوں پر سے گزر کر اپنے مقاصد تک پہنچنے کے مواقع آسانی سے مہیا ہو جاتے ہیں۔
﴿واتبع الذین ظلموا ما اترفوافیہ﴾ جو ان کو سامان عیش وعشرت دیا گیا تھا وہ اس میں پھنسے رہ گئے اور وہ مجرم تھے۔
حضرات! انسان کے لیے بیماری کوئی غیر فطری چیز نہیں ہے ، صحت کا اعتدال سے ہٹ جانا اور بیماری کا شکار ہو جانا انسانی فطرت کے خلاف نہیں ہے ۔ بلکہ یہ ایک طرح سے زندگی کی علامت ہے ۔ پتھر غلطی نہیں کر سکتا، درخت غلطی نہیں کرسکتا، انسان ہی غلطی کرتا ہے، اس لیے غلطی زیادہ پریشانی کی بات نہیں اور اس پر مایوس ہونے کی ضرورت نہیں۔ انسانوں کی ایک بڑی جماعت کا کسی غلط راستہ پر پڑ جانا۔ اپنی سفلی خواہشات اور پست درجہ کے مقاصد کی تکمیل کے پیچھے دیوانہ ہو جانا ، تاریخ انسانی کے لیے بھی اور تقدیر انسانی کے لیے بھی شدید تشویش کی بات نہیں ہے ، تشویش کی بات یہ ہے کہ بگڑے ہوئے حالات سے پنجہ آزمائی کرنے، فساد وانتشار پیدا کرنے والی طاقتوں سے آنکھیں ملانے والے اپنی سہولتوں عزتوں ( اور بعض اوقات حکومت واقتدار) کو خطرہ میں ڈال کر میدان میں اُترنے والے نایاب ہو جائیں، اصل تشویش کی بات یہ ہے، انسان بارہا ایسی بدنیت ، فساد انگیز اور انتشار پسند طاقتوں، قیادتوں یا سازشوں کے شکار ہو گئے ہیں او رایسا نظر آنے لگا ہے کہ انسانیت سکرات کے عالم میں ہے ، وہ جلد دم توڑ دے گی، لیکن تاریخ یہ بتلاتی ہے کہ ایسے ہر موقعہ پر کچھ ایسے افراد میدان میں آگئے جنہوں نے زمانہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر حالات کا مقابلہ کیا۔ ان غلط رہنماؤں اور قیادتوں کے مد مقابل بن کر کھڑے ہو گئے اور انہوں نے جان کی بازی لگا دی، انسانی تہذیب کا تسلسل جوا بھی تک قائم ہے، محض نسلی تسلسل نہیں ، بلکہ انسانی خصوصیات کا تسلسل ہے جو ہر دور میں رہا ہے ، انسانی احساسات وجذبات ، اعلیٰ مقاصد، اخلاقی تعلیمات او ران کی بقا وترقی کے لیے ہمت وجرأت اور قربانی کا جذبہ جو اس وقت تک چلا آرہا ہے یہ درحقیقت انہیں لوگوں کار ہین منت ہے جو بگڑے ہوئے حالات میں میدان میں آئے اور انہوں نے زمانے کے چیلنج کو قبول کیا او ران بگڑے ہوئے حالات سے پنجہ لڑایا اور بعض اوقات زمانہ کی کلائی موڑ دی، انہیں لوگوں کی بدولت انسانیت زندہ ہے ۔ ہر زمانہ کے شاعر ، ہر زمانہ کے ادیب اور ہر زمانہ کے اہل دل زمانہ کے بگاڑ کی شکایت کرتے چلے آئے ہیں ۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ اس کے بعد بھی انسانی خوبیوں کا سرمایہ، انسانی احساسات وجذبات او رنیک انسان موجود رہے ۔ یہ اصل میں انہیں لوگوں کی جدوجہد کا نتیجہ ہے جو اس وقت اپنے مفادات سے آنکھیں بند کرکے میدان میں آگئے، انہوں نے اپنے لیے بھی ، اپنے خاندانوں کے لیے بھی اور اپنی آئندہ نسلوں کے لیے بھی خطرہ مول لیا، زمانہ کا رخ موڑ دیا اورانسانیت کی کھیتی ان کی کوششوں اور قربانیوں کے پانی سے ہری ہو گئی۔
حقیقت میں انسانیت کی کھیتی ہر زمانہ میں کھاد چاہتی ہے۔ جس طرح فرٹیلائزر(Fertilizers) زمین میں قوت نمو بڑھاتے ہیں ، پیدا وار کو طاقت بخشتے ہیں، اسی طرح انسانیت کی کھیتی کے لیے بھی کھاد کی ضرورت ہے۔ انسانیت کی کھیتی کے لیے کھاد ” ذاتی مفادات“ ہیں ۔ اغراض ومفادات کی یہ کھاد جب اس کھیتی میں پڑتی ہے تو وہ کھیتی لہلہا اٹھتی ہے، زمین اپنی پیداوار بڑھا دیتی ہے اور انسانیت کی جھولی بھر جاتی ہے، انسانیت کو زندگی کی ایک نئی قسط عطا ہو جاتی ہے، انسانوں میں زندہ رہنے کا استحقاق اور زندہ رہنے کی صلاحیت پیدا ہو جاتی ہے، زیادہ سے زیادہ وسائل کی فراہمی،سائنس وٹیکنالوجی کی ترقی ، علم ، فلسفہ، ادب وشاعری، کوئی چیز بھی انسانیت کی بقا کی ضمانت نہیں، انسانیت کی بقا کی حقیقی ضمانت وہ جری ، دلیر، جاں باز اور درد مند انسان ہیں جو زخمی دل، اشکبار آنکھیں او رسلگتے اور جلتے ہوئے دل ودماغ رکھتے ہیں جو ناساز گار حالات کا سامنا کریں۔ چوٹ کو برداشت کریں اورتاریخ کے دھارے کو بدلنیکے لیے جان کی بازی لگا دیں ۔ جب کبھی اس جنس کی کمی نظر آئی ہے تو پورا سماج، پورا معاشرہ خطرے میں پڑ جاتا ہے خواہ دیکھنے میں آپ کو فربہی نظر آئے، جیسے ایک فربہ جسم جس کے اندربیسیوں قسم کی بیماریاں پرورش پاتی ہیں ، لیکن اس کی فربہی سب پر پردہ ڈالے رہتی ہے ، دیکھنے والوں کو دھوکا ہوتا ہے او رسمجھتے ہیں کہ یہ انسان بہت تندرست ہے، لیکن حقیقت میں وہ بیماریوں کا مجموعہ ہے۔
ایسا ہی سماج کا معاملہ ہے ، سماج پر بعض مرتبہ غیر طبعی Unnatural ور غیر معتدل فربہی طاری ہو جاتی ہے، اس کے چہرہ پر خون جھلکتا ہوا نظر آتا ہے، لیکن جیسے کہ اقبال نے کہا ہے #
کچھ اور چیز ہے کہتے ہیں جان پاک جسے
یہ آب ورنگ فقط آب وناں کی ہے بیشی
یعنی پانی او رروٹی کی مقدار جسم میں زیادہ ہو گئی تو چہرہ پر تازگی اوررعنائی نظر آتی ہے، لیکن یہ جان پاک نہیں ہے ۔ جان پاک تو کچھ اور ہی چیز ہے ۔ سماج کی جان پاک او رسماج کی اصل روح اس کے اند رایثار کا مادہ ہے، اس کی اندر کی قوت برداشت ہے کہ اس کے افراد کس طرح ناگوار باتوں کو برداشت کر لیتے ہیں ، کتنے کڑوے گھونٹ پی جاتے ہیں ۔ کتنے صدمے برادشت کر لیتے ہیں ۔ وہ جلد اشتعال میں نہیں آتے، آپے سے باہر نہیں ہوتے، سماج میں نیک انسان کی کتنی قدر پائی جاتی ہے ، شرافت کی کتنی قدر ہے، اس کو لوگ کس نظر سے دیکھتے ہیں ، احسان کو وہ سماج کتنا مانتا ہے ظلم سے اس کے اندر کتنی نفرت ہے؟
کسی سماج کے لیے سب سے بڑا خطرہ ( خواہ وہ دنیا کا قدیم معاشرہ ہو یا جدید معاشرہ ہو) یہ ہے کہ اس کے اندر ظلم کا مزاج پیدا ہو جائے۔ پھر اس سے زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ اس ظلم کو ناپسند کرنے والے اس معاشرہ میں انگلیوں پر بھی گنے نہ جاسکتے ہوں، دور بین تو دور بین، خوردبین سے بھی ان کو دیکھا نہ جاسکتا ہو، پورے معاشرہ میں چند درجن آدمی بھی ایسے نہ ہوں جو اس ظلم کو، اس سفاکی کو، اسقساوت اور سنگ دلی کو،کمزوروں پر دست درازی کو ناپسند کرتے ہوں او راپنی ناپسندیدگی کا اعلان کرتے ہوں، گھر بیٹھ کرنا پسند کرنے والے تو مل جائیں گے، جو چار چھ آدمیوں کی موجودگی میں کہہ دیں کہ یہ ٹھیک نہیں ہو رہا ہے ، بڑے خطرہ کی علامت ہے ۔ لیکن اپنی ناپسندیدگی کا اعلان کریں او راس کو لے کر میدان میں آجائیں۔ ایسے افراد کی جب کسی سماج میں کسی معاشرے میں کمی ہوتی ہے تو اس سماج ، اس معاشرہ اور اس سوسائٹی کو کوئی طاقت نہیں بچا سکتی ہے ، جب کسی معاشرہ میں ظلم پھیلنے لگا ہو اور پسندیدہ نگاہوں سے دیکھا جانے لگا ہو ، جب ظلم کے لیے یہ معیار بن گیا ہو کہ ظالم کون ہے ؟ ظالم کی قومیت کیا ہے ؟ ظام کا فرقہ کیا ہے ؟ ظالم کی زبان کیا ہے ؟ ظالم کس برادری سے تعلق رکھتا ہے ؟ تو انسانیت کے لیے ایک عظیم خطرہ پیدا ہو جاتا ہے ، جب انسانیت کو اس طرح خانوں میں بانٹا جانے لگے اور ظالم کی بھی قومیت دیکھی جانے لگے ، جب اس کا مذہب پوچھا جانے لگے ، جب آدمی اخبار میں کسی فساد یا کسی ظلم وزیادتی کی خبر دیکھے تو پہلے اس کی نگاہیں یہ تلاش کریں کہ کس فرقہ کی طرف سے یہ بات شروع ہوئی ، اس میں نقصان کس کو پہنچا؟ جب ظلم کے ناپنے اور ظالم ہونے کا فیصلہ کرنے کا یہ پیمانہ بن جاتا ہے کہ وہ کس قوم ، فرقہ ، طبقہ وبرادری سے تعلق رکھتا ہے تو اس وقت معاشرہ کو کوئی طاقت، کوئی ذہانت ، کوئی سرمایہ اور بڑے بڑے منصوبے بچا نہیں سکتے۔
اسلام سے پہلے عربوں کا ایک اصول او رمقولہ تھا، جس نے محاورہ کی شکل اختیار کر لی تھی کہ” اپنے بھائی کی مدد کرو، چاہے ظالم ہو ، چاہے مظلوم“ اور جاہلیت ( اسلام سے پہلے) کا عرب اسی اصول پر چل رہا تھا، وہ گویا ایک رہنما اصول تھا اور اس نے مذہبی تعلیم کی حیثیت اختیار کر لی تھی اور یہ بات ایسی مشہور تھی کہ کسی کے سوچنے او رغور کرنے کی ضرورت ہی نہیں تھی ۔ ایک مرتبہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے صحابہ کی مجلس میں فرمایا کہ ” اپنے بھائی کی مدد کرو چاہے ظالم ہو ، چاہے مظلوم ہو ۔“ عربوں کے لیے یہ ایسی جانی بوجھی حقیقت اور روزہ مرہ کی بدیہی بات تھی کہ اس پر سکوت طاری ہو جانا چاہیے۔ پھر الله کا رسول کہہ رہا تھا جو غلط بات نہیں کہہ سکتا۔ لیکن رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے صحابہ کی جو تربیت کی تھی اور ان کا جو ذہن بنایا تھا وہ ذہن اس کو ہضم نہیں کرسکا۔
انہوں نے عرض کیا:
”ننصرہ مظلوما، فکیف ننصرہ ظالما؟“ ( ہم مظلوم کی مدد تو کریں ، لیکن ظالم کی مدد کیسے کریں؟ ) سوسائٹی اور معاشرہ کی جو سب سے مستحکم بنیاد ہے اورجس پر سب سے زیادہ اعتماد کیا جاسکتا ہے وہ ایسی ہی تربیت ہے کہ اس کا ذوق سلیم، بلکہ اس کا قلب سلیم ( ذوق سلیم نے بارہا دھوکہ کھایا ہے، لیکن قلب سلیم دھوکہ نہیں کھاتا) اس کا قلب سلیم اس پر جاگ جائے ، چوکنا ہو جائے اور پوچھنے لگے کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ معاشرہ میں ظلم ہوتا رہے او ربڑھتا اور پنپتا رہے؟
یہ اخلاقی تربیت او راس کی کامیابی کا آخری نمونہ ہے، دنیا کی تاریخ میں ایسی تربیت کی مثال ملنی مشکل ہے کہ ایک طرف صحابہ کرام رضی الله عنہم اطاعت وانقیاد کا بے مثال نمونہ تھے، وہ آں حضرت صلی الله علیہ وسلم پر پروانہ وار نثار ہوتے تھے اور یہ نہیں پوچھتے تھے کہ ہمارا انجام کیا ہو گا؟ پروانے شمع پر گرتے ہیں او رجان دیتے ہیں او رانجام نہیں سوچتے، صحابہ کی جماعت رسول کے کہنے کے بعد پھر غور کرنے کی بھی ضرورت نہیں سمجھتی تھی ۔ لیکن اب اس کے اندر ایسا انقلاب آچکا تھا، معاشرہ کو ایسی مستحکم، ایسی بلند اور ایسی اُصولی بنیاد پر اٹھایا گیا تھا کہ جب آپ نے فرمایا کہ اپنے بھائی کی مدد کرو، چاہے ظالم ہو چاہے مظلوم۔ تو صحابہ کرام تڑپ اٹھے اور پورے ادب سے کہا کہ یا رسول الله! آپ نے اب تک ہمیں یہ تعلیم دی ہے کہ ہم مظلوم کی مدد کریں اور ظالم کا ساتھ نہ دیں ، کیا ہم اپنی قوت سماعت پر شک کریں، شاید ہمارے کانوں نے اسے صحیح نہ سنا ہو ؟ آپ فرمائیں کہ ظالم کی مدد کیسے کی جائے ؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ”ہاں! ظالم کی بھی مدد ہوتی ہے ! مظلوم کی مدد یہ ہے کہ اس پر ظلم نہ ہونے دو ، ظالم کی مدد یہ ہے کہ اس کا ہاتھ پکڑ لو ، اس کو ظلم کرنے نہ دو ۔“
یہ وہ چیز ہے جو انسانی معاشرہ کو بچانے والی ہے کہ بلاتفریق مذہب وملت، بلاتفریق قومیت، بلاتفریق ذات برادری، اپنے تعلقات کو بالکل نظر انداز اور مفادات کو بالکل فراموش کرکے ، یہ نہ دیکھا جائے کہ ظالم کون ہے او رمظلوم کون ہے ؟ ظالم کوئی بھی ہو اپنی قوم کا محبوب ترین فرد ہو ، قائد ہو ، رہنما ہو، اس کو ظلم سے روکا جائے ۔ اگر معاشرہ میں یہ اخلاقی جرأت، یہ غیر جانب داری اور خلوص کی یہ طاقت ہے تو معاشرہ بچ سکتا ہے اور اگر یہ نہیں ہے تو دنیا کی کوئی طاقت اس معاشرے کو نہیں بچا سکتی۔ آج ہمارے ہاں کمی اسی چیز کی نظر آتی ہے جس کی وجہ سے اس معاشرہ سے متعلق خطرہ پیداہو گیا ہے۔ جب کسی انسانی نسل پر ، کسی دور میں اخلاقی گراوٹ کا ایسا دورہ پڑتا ہے ، یا وہ کسی انسانی سازش یا کسی انتشار پسند طاقت کا شکار ہوتی ہے اس وقت دو طبقے میدان میں آتے ہیں ۔ ایک دانش وروں کا طبقہ او رایک مذہبی انسانوں کا طبقہ یہ دو طبقے ہیں جن میں بگاڑ ( Coorruption) سب سے آخر میں داخل ہوتا ہے، تاریخ ہمیں بتاتی ہے ، قیاس بھی یہی چاہتا ہے اور عقل سلیم (CommonSense) کا فیصلہ بھی یہی ہے کہ سب سے آخر میں جس طبقہ میں فساد داخل ہوتا ہے او رخرابی آتی ہے وہ مذہبی آدمیوں کا طبقہ ہے۔ اس کے بعد دانشوروں کا طبقہ ہے، لیکن جب دانشوروں اورمذہبی انسانوں میں بھی بگاڑ ( Corruption) آجائے تو پھر اس معاشرہ کا… (یہ تو میں نہیں کہہ سکتا کہ خدا حافظ ہے ۔ خدا حافظ ہو تو اطمینان ہی اطمینان ہے) لیکن پھر اس معاشرہ کو کوئی چیز بچا نہیں سکتی۔
اس وقت ضرورت ہے کہ دانشور اور مذہبی انسان میدان میں آئیں، اس وقت ضرورت ہے کہ ہماری یونیورسٹیوں سے ، ہماری دانش گاہوں سے افراد نکلیں او رمعاشرہ کو بچانے کی کوشش کریں ۔ مجھے ڈر معلوم ہوتا ہے کہ آئندہ کا مؤرخ جب اس معاشرہ کی تاریخ لکھے گا جس میں ہم اور آپ سانس لے رہے ہیں تو کہیں یہ نہ لکھے کہ یہ حادثہ اس وقت پیش آیا جب ملک میں مسلم یونیورسٹی موجود تھی۔ دارالعلوم دیوبند موجود تھا، ندوة العلماء موجود تھا اور جامعہ ملیہ موجود تھا۔ ان کی موجودگی بلکہ ان کی دیوار کے نیچے او ران کے سایہ میں یہ سب کچھ ہو رہا تھا ۔ اس وقت ضرورت یہ ہے کہ آپ میدان میں آئیں اور بگاڑ کا، بے اُصولی کا، بددیانتی کا رشوت خوری اور ذخیرہ اندوزی کا، اقربا نوازی اور خویش پروری کا، سنگ دلی کا او ر( مجھے معاف کریں ) سب سے بڑھ کر سفا کی اور درندگی کا جو دھارا بہہ رہا ہے اور ملک تباہی وبربادی کے جس رخ پر جارہاہے اس کا راستہ روک کر کھڑے ہو جائیں۔
ایسے جوان مردوں کے لیے پہلے شرط تو یہ ہے کہ ان کے اندر اخلاقی جرأت ہو اور وہ بے لوث ہوں، وہ اس معاشرہ کو دینے کے لیے آئیں، لینے کے لیے نہ آئیں، اس بگڑے ہوئے نظام سے فائدہ اٹھانے کے لیے نہ آئیں، بلکہ ان کی شان وہ ہو جوایرانی شاعر عرفی نے بیان کی ہے #
عدیل ہمت ساقیست فطرت عرفی
کہ حاتم وگراں وگدائے خویشتن است
ان لوگوں کی جو ایسے بحران (Crisis) کے موقعہ پر میدان میں آتے ہیں او رپورے معاشرہ کو اور پوری قوم کو موت کے منھ سے نکال دیتے ہیں، ان کی تعریف یہ ہے کہ وہ ساقی کی فطرت او رمزاج رکھتے ہیں ، ساقی سب کو پلاتا ہے او رخود نہیں پیتا۔ یہ مرحلہ بہت مشکل ہے اور دل پر پتھر رکھے بغیر طے نہیں ہو سکتا لیکن اس کے بغیر کام بھی نہیں چلتا، میں اپنے عزیز طلبہ سے کہنا چاہتا ہوں کہ آج عزت کا مقام جبھی حاصل ہو گا جب آپ اس ملک کو بچانے کی مخلصانہ ، جاں فروشانہ، بے غرضانہ اور آخر میں کہتا ہوں کہ مجنونانہ کوشش کریں گے ۔ کسی قوم کو ، کسی جماعت کو عزت کا مقام اسی وقت ملتا ہے جب وہ کسی کو فائدہ پہنچائے اور خود فائدہ نہ اٹھائے، جب وہ اپنا دامن جھاڑ دے اور دوسروں کی جھولی بھردے، وہ اپنے گھر میں اندھیرا پسند کرے اور دوسروں کے گھر میں چراغ جلائے، جب وہ اپنے بچوں کو بھوکا سلائے، ابو طلحہ انصاری کی طرح اور مہمانوں کو شکم سیر کرکے اٹھائے ، آپ تاریخ پڑھیں تو آپ پر بہت سے حقائق کھلیں گے او رعبرت وموعظت کا بڑا سامان ملے گا، لیکن افسوس ہے کہ تاریخی واقعات کی تہہ میں اور انقلابات سلطنت کے پس پردہ جو حقائق Factors کام کرتے ہیں ، جو مخفی طاقتیں کام کرتی ہیں، جو وقت کی رفتار بدل دیتی ہیں، کسی ملک کی قسمت بدل دیتی ہیں ، ہمارے مؤرخوں کی نگاہیں وہاں تک نہیں جاتیں ، وہ زیادہ تر یہی لکھتے ہیں کہ فلاں بادشاہ آیا اور فلاں بادشاہ گیا ، فلاں نے فلاں ملک پر حملہ کیا اور فتح یاب ہوا اور فلاں نے شکست کھائی ، لیکن اس کے پیچھے کیا طاقتیں کام کر رہی تھیں؟ حقیقی اسباب کیا تھے ؟ پھر اسباب کے پیچھے اسباب ہوتے ہیں ۔ جیسے مولانا روم کہتے ہیں کہ گرمی کا زمانہ ہے او رایک شخص پنکھا جھل رہاہے تو کوتاہ بیں یہ کہے گا کہ یہ ہوا اس کے پنکھے کی وجہ سے آرہی ہے، لیکن جس کی نظر اور گہری ہو گی وہ کہے گا کہ نہیں اصل میں اس ہاتھ کا کارنامہ ہے جواس کو ہلا رہا ہے ، پنکھا زمین پر رکھ دو تو ہوا نہیں آئے گی، اس سے بھی ،جس کی گہری نظر ہے وہ کہے گا کہ نہیں یہ ہاتھ بھی نہیں، بلکہ انسان کا ارادہ ہے ، اس کی نیک نیتی اور خدمت کرنے کا جذبہ اصل میں اس کا سرچشمہ ہے ۔ اگر کسی کی نظر او ر گہری ہے تو وہ کہے گا کہ نہیں ، یہ نہ پنکھے کا کارنامہ ہے ، نہ ہاتھ کافی ہے ، ہوا ضروری تھی یہ ہوا جو فضا میں ہے یہ ہوا اصل میں محسن ہے ۔ لیکن جس کی نظر اس سے بھی آگے ہے وہ کہے گا نہیں، اس ہوا کا جو خالق ہے ، اس ہوا کو جو حکم دینے والا ہے۔ جس نے اس کو طاقت دی ہے اور آزادی بخشی ہے کہ وہ چلے، وہ ہے محسن حقیقی، تاریخ کا معاملہ بھی یہی ہے کہ واقعات کے پیچھے اسباب ہوتے ہیں، ان اسباب کے پیچھے دوسرے اسباب ہوتے ہیں او ران اسباب کے درمیان رشتہ ہوتا ہے ۔ آپ جو یہ دیکھتے ہیں کہ دنیا میں کوئی سدھار پیداہوا اور کوئی سماج موت اور زندگی کی کشمکش میں مبتلا ہونے کے بعد اچانک تازہ دم ہو کر اٹھا او راس نے پھر زندگی کا سفر شروع کیا او راپنی صلاحیتوں کو اجاگر کرنا شروع کیا، اس کے پیچھے کسی ایسی جماعت، کچھ ایسے افراد کا ہاتھ ہوتا ہے جو اپنی زندگی کو خطرہ میں ڈالتے ہیں او رجو اپنے نفع سے آنکھیں بند کر لیتے ہیں۔
کسی ایسے ملک میں جو مختلف تہذیبوں کا گہوارہ ہے ، مختلف قوموں کا وطن ہے او ریہاں کی ایک تاریخ ہے ، یہاں کچھ غلط فہمیاں اور تلخیاں رہی ہیں ، کچھ سیاسی کش مکش رہی ہے وہاں موجودہ حالات میں ( میں آپ سے صفائی کے ساتھ کہتا ہوں ) کم سے کم مسلمانوں کے لیے کوئی راستہ عزت حاصل کرنے کا نہیں ہے ۔ سوائے اس کے کہ وہ اس ملک کی اخلاقی قیادت کا جھنڈا بلند کریں او راس ملک کو بچانے کی مخلصانہ کوشش کریں، وہ ثابت کردیں کہ ملک کو بچانے کے لیے اپنے کو خطرہ میں ڈال سکتے ہیں اور اس ملک کو بچانے میں ان کی کوئی گروہی ومذہبی غرض، قومی غرض یا انفرادی غرض نہیں ہے ، وہ اپنی کوششوں کا اجر صرف خدا سے چاہتے ہیں، وہ ایک عقیدہ او رجذبہ کے تحت میدان میں آئے ہیں کہ یہ ملک امانت ہے ، اس ملک کے باشندے خدا کے پیدا کیے ہوئے انسان ہیں، ان کے ساتھ ہمیں رہنا ہے اگر یہ نہ ہوں گے تو ہم نہیں ہوں گے۔
اس وقت ہندوستان میں یہ موڑ آگیا ہے کہ پڑھے لکھوں کی جماعت، دانش وروں کی جماعت، ہماری جامعات اور دانش گاہوں کے فضلاء کی جماعت میدان میں آئے، اس وقت میدان دانش وروں کا ہے ، مذہبی آدمیوں کا اور ایسے بے لاگ انسانوں کا ہے، سیاسی پارٹیوں اور سیاسی مفادات سے بالکل آنکھیں بند کر لیں۔ اس سے کوئی مطلب نہ رکھیں کہ ایسا کرنے سے ہماری پارٹی پاور میں آئے گی اور ہمیں حکومت ملے گی۔ ایسی مثال بھی تاریخ میں ملتی ہیں کہ جب موقع آیا انعام ملنے کا او رجب حکومت تھالی میں رکھ کر پیش کی جانے لگی تو الله کے بندوں نے کہا کہ ہم نے اس لیے کام نہیں کیا تھا ، ہم نے تو ہمدردی میں کیا تھا ، خلوص کے ساتھ کیا تھا ، خدا کی خوش نودی کے لیے کیا تھا، ہمیں اس کا انعام نہیں لینا ہے۔
حضرات! یہ حقیقت ہے، جسے ہمارے نوجوانوں کو خاص طور پر سمجھ لینا چاہیے کہ یہ بڑا اہم ، بڑا قیمتی وقت ہے ، ایسے زریں مواقع اقوام وملل کی تاریخ میں اور ملکوں کی تاریخ میں کبھی صدیوں کے بعد آتے ہیں ۔ یہ ایک زریں موقع خدا کی طرف سے ہم کو اور آپ کو دیا گیا ہے ، خدا کا شکر ہے اس کا احسان ہے کہ اس نے آپ کو اس دور میں پیدا کیا۔ لوگ تو ہمدردی کریں گے، کہیں گے ہم کاش! ایسے دور میں نہ پیدا ہوئے ہوتے۔ لیکن جواں مردوں اور بلند ہمت لوگوں کے سوچنے کا طریقہ یہ نہیں۔ میں آپ کو مبارک باد دیتا ہوں۔ یہاں کے مسلمانوں کو مبارک باد دیتا ہوں، میں یہاں کے تمام خیر پسند عناصر کو اور تمام انسانیت دوست جماعتوں اور دماغوں کو مبارک باد دیتا ہوں کہ خدا نے ان کو ایک ایسے دور میں پیدا کیا اور ایک ایسا موقع عطا کیا جسے ہمارے اسلاف بڑی بڑی عبادتوں سے حاصل نہیں کرسکتے تھے ۔۔ وہ رات رات بھر جاگ کر نہیں حاصل کرسکتے تھے، وہ دن دن بھر روزہ رکھ کر نہیں حاصل کرسکتے، آج وہ موقع ہم کو حاصل ہے کہ ہم آج انسانیت کی بے لوث خدمت کرکے او رملک کو بچانے کے لیے جان لڑا کر، اس ملک کو خطرہ کے دہانے سے، اژدھے کے منھ سے نکال سکتے ہیں۔
میں بغیر کسی معذرت کے صاف کہتا ہوں کہ میں نے تاریخ کا مطالعہ کیا ہے، میں نہیں سمجھتا کہ ہمارا معاشرہ کبھی ایسے خطرہ سے دو چار ہو اہو جیسا کہ اس دور میں ، اس تیس پینتیس برس کے اندر ہوا ہے ۔ میں بالکل اس پر معذرت نہیں کروں گا۔ ہندوستان کا جسم بارہازارونزار ہوا، ہندوستان نے شکست کھائی، ہندوستان پر برطانیہ کی بدیسی حکومت رہی یہ سب تاریخی واقعات ہیں، لیکن ہندوستان کی روح اور ہندوستان کا ضمیر اس طرح سے کمزور نہیں ہوا تھا کہ اس نے اپنا کام کرنا چھوڑ دیا ہو ، ہندوستان کی تاریخ میں کبھی ایسا دور نہیں آیا کہ برائی کو، ظلم کو اس آسانی کے ساتھ گوارا کر لیا گیا ہو، جس آسانی کے ساتھ آج گوارا کیا جارہا ہے، بلکہ اس کو فلسفہ بنایا جارہا ہے، اس کے ذریعے سے جماعتوں کو مستحکم او رمنظم کیا جارہا ہے، اس کے ذریعہ ہندوستان میں حکومت کا استحقاق ثابت کیا جارہا ہے۔ ہندوستان سینکڑوں مصیبتوں کا شکار ہوا ہے، لیکن ضمیر انسانی، ہندوستان کا (Conscience) زندہ رہا ،اس نے اپنا کام کرنا، اپنا (Function) کبھی چھوڑا نہیں۔ اس وقت جو اصل خطرے کی چیز ہے #
مجھے یہ ڈر ہے دلِ زندہ تو نہ مر جائے
کہ زندگی ہی عبارت ہے تیرے جینے سے
مجھے یہ ڈر ہے کہ ہندوستان کا ضمیر کہیں مرنہ گیا ہو ، اس سے بڑھ کر کوئی خطرہ کی بات اور کیا ہو سکتی ہے کہ اتنے بڑے ملک میں کسی دل درد مند کی کراہ سننے میں نہیں آتی کہ تڑپ کر کسی نے فریاد کی ہو اور قلندرانہ شان سے میدان میں آگیا ہو #
گوئے توفیق وسعادت درمیاں افگندہ اند
کس بمیداں در نمی آید سواراں را چہ شد
(جاری…)

Flag Counter