Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی شعبان المعظم ۱۴۳۲ھ -اگست ۲۰۱۱ء

ہ رسالہ

9 - 13
تبلیغِ دین ودعوت الی اللہ !
تبلیغِ دین ودعوت الی اللہ

عرصہٴ دراز سے امتِ محمدیہ سے ایک اہم تقصیر ہورہی ہے اور خیر القرون کے بعد سے ہی اس تقصیر کی بنیاد پڑ گئی تھی، یعنی ”تبلیغِ دین“ اور ”دعوت الی اللہ“ میں قابلِ حسرت کوتاہی ہورہی ہے۔ دعوت وہدایت دینِ اسلام کا اساسی اصول ہے، جب دعوت ناکام ہو اور اس کی اشاعت کے راستے میں روڑے اٹکائے جائیں تو ”جہاد وقتال“ کی نوبت آتی ہے۔ قرونِ اولیٰ کے سلفِ صالحین گفتار سے زیادہ اپنے کردار سے یہ دعوت پیش کرتے رہے، قوتِ بیانی سے پہلے اخلاقی وایمانی قوت سے دعوت دیتے رہے۔ ہرایک صحابی سر سے پیر تک اسلامی اخوت، اسلامی مواسات اور اسلامی اخلاق کا اعلیٰ نمونہ تھا، دنیا میں اسلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہٴ کرام کے دینی حسن وجمال اور حسنِ اخلاق کے کمال سے پھیلا، تلوار کے زور سے نہیں پھیلا، صاحبِ انصاف وصاحبِ عقل وبصیرت مؤرخ اس سے بے خبر نہیں۔ اگر مسلمان اس اہم فریضہ میں کوتاہی نہ کرتے تو شاید تمام عالم مسلمان ہوتا۔ تکوینی مصالح تو حق تعالیٰ ہی جانتا ہے، تاہم دنیا کے مزاج میں کفر واسلام کے امتزاج سے انکار نہیں کیا جاسکتا، لیکن جہاں تک عقل اور اسلامی اصولوں کا تقاضا ہے، وہ یہی ہے جو کچھ عرض کیا جارہاہے، چنانچہ اپنے اثرات کے اعتبار سے دیر پا اسلام وہی رہا ، جو دعوت وارشاد کے راستوں سے پھیلا ہے۔ اسلامی فتوحات کے ادوار میں یہ بات بھی بالکل واضح ہے کہ حضراتِ صحابہ کے عہدِ میمون میں جو ممالک اسلام کے زیر نگین آئے، وہ آج تک اسلام پر قائم ہیں اور بعد میں سلاطین ِ اسلام کی تلوار سے جو مسلمان ہوئے ،وہ یکے بعد دیگرے اسلام سے نکلتے جارہے ہیں۔نیز یہ فرق بھی واضح ہے کہ قرونِ اولیٰ کے مفتوحہ ممالک میں عقائد کی پختگی آج بھی باقی ہے، اگرچہ اعمال واخلاق میں یورپ کی نقالی کا رنگ غالب ہے، اس کے برخلاف جو ممالک بعد میں سلاطینِ اسلام اور ملوکِ اسلام کے زورِ تلوار سے فتح ہوئے ہیں، ان میں عقائد کی خامی واضح ہے، اگر کہیں اعمال ِ ظاہری میں بظاہر پختگی بھی نظر آئے تو کریدنے کے بعد معلوم ہوگا کہ قلبی عقیدہ اتنا کھو کھلا ہوچکاہے کہ ایک دھکّے سے ختم ہوجاتا ہے۔ دراصل ابتدائی دور کی فتوحات میں اخلاص نمایاں تھا،انہوں نے اگر جہاد بھی کیا تو وہ بھی صرف اس غرض سے تھا ،”لِتَکُوْنَ کَلِمَةُ اللهِ ہِیَ الْعُلْیَا“(تاکہ صرف حق تعالیٰ کا دین غالب ہو)اس لئے ان فتوحات کی برکات سے مسلمانوں کے عقائد میں پختگی پائی جاتی ہے اور جو ملک بعد میں فتح ہوئے، ان میں اخلاص کا وہ درجہ نہ تھا، بلکہ ملوکیت اور شان وشوکت کی آمیزش تھی، اس لئے وہ دینی تصلّب حاصل نہ ہوسکا۔ کہنا یہ تھا کہ دعوت وارشاد میں امت مقصّر رہی ہے اور آج جو نقشہ اسلام اور مسلمانوں کا ہے، اسی تقصیر کے نتیجے میں ہے۔
تبلیغی جماعت اور اس کے شاندار اثرات
حق تعالیٰ کی ہزاروں ہزار رحمتیں ہوں حضرت مولانا محمد الیاس کاندھلوی کی روح پر، جنہوں نے مسلمانوں کو بھولاسبق یاددلایا اور اس سبق یاددلانے میں ہی فنا ہوگئے، اگر کوئی فنافی اللہ، فنا فی الرسول اور فنافی الشیخ کے مظاہر کو سمجھنا چاہتا ہو تو حضرتِ مرحوم کو دیکھ لے کہ کس طرح ”فنا فی التبلیغ“ ہوگئے تھے، اٹھتے بیٹھتے، سوتے جاگتے بس یہی فکر ہی دامن گیر تھی، تمام زندگی اور تمام افکار وانفاس بس اسی مقصد کے لئے وقف تھے۔ حق تعالیٰ نے ان کی جانفشانی وقربانی، ایثار واخلاص اور جد وجہد کو قبول فرمایا اور چار دانگ عالم میں اس کے ثمرات وبرکات پھیل گئے، شاید روئے زمین کا کوئی خطہ ایسا باقی نہ رہا ہو گا، جہاں ان کی جماعت کے قدم نہ پہنچے ہوں، ماسکو، فن لینڈواسپین سے لے کر چین وجاپان تک ان قافلوں کی دعوت انبیاءِ کرام علیہم السلام کے طریقِ دعوت سے بہت مشابہت رکھتی ہے، اس کا انتظار نہیں کہ لوگ خود آئیں گے اور دین سیکھیں گے، بازاروں میں چل پھر کر اور گھر گھر لوگوں کے پاس پہنچ کر دعوت دی جاتی ہے، اور زبان سے، حسن اخلاق سے اور اپنے طرزِ عمل سے دعوت دی جاتی ہے، سر سے پیر تک اسلامی مجسمہ بن کر اسلام کا عملی نمونہ پیش کیا جاتا ہے، اس لئے اس کا اثر یقینی ہوتا ہے۔
آج امت تقریر وتحریر کی محتاج نہیں، یہ بہت کچھ ہوچکا ہے، ضرورت عملی نمونہ پیش کرنے کی ہے،فصاحت وبلاغت کا دریا اُمت بہا چکی ہے، لیکن آج صرف سادہ عملی دعوت کی ضرورت ہے، الحمد لله! آج تبلیغی جماعت اس پر عمل پیرا ہے۔ بہرحال طبیب خود مریض کے پاس جاتا ہے، اس کا انتظار نہیں کرتا کہ مریض طبیب کے پاس پہنچے تو علاج ہو، اگر یہ طریقہ عام ہوجائے اور امت کی اکثریت یا کم از کم بڑی کثرت اس مقصد کو شروع کردے تو توقع ہوسکتی ہے کہ امت کو نجات مل جائے اور بیڑہ پار ہوجائے، اگر امت پوری طاقت اسی طرح اصلاح ودعوت پر لگائے اور معاشرے کی اصلاح ہوجائے تو ہوسکتا ہے کہ آئندہ اقتدار بھی انہی صالح ہاتھوں میں آجائے اور پھر جو کام سالوں میں ہوتے ہیں، وہ منٹوں میں ہوجایا کریں۔ بنیادی اصول بھی یہی ہے کہ پہلے معاشرے کی اصلاح کی جائے، اگر اصلاح شدہ معاشرے کے افرادکے ہاتھوں میں حکومت کی باگ ڈور ہو تو کامیابی یقینی ہے، ورنہ امت کا وہی حشر ہوگا جو آج ہورہا ہے اور اکثریت کے جو نمائندے مسندِ حکومت پر براجمان ہیں، ان کا ”صورت ببین حالش مپرس“ والا قصہ ہے، اس طرح بلاشبہ کچھ دیر تو لگے گی، لیکن قوموں کے عروج وزوال کی تاریخ میں دس پندرہ سال کا عرصہ کچھ زیادہ نہیں ہوتا۔ آج قوم کی کشتی جس خطرناک بھنور میں پھنس گئی ہے، روزانہ اخبارات کے صفحات میں اس کو دیکھئے اور پڑھیئے، حیرت واضطراب کی کوئی انتہاء باقی نہیں رہتی ، لے دے کر ایک عالمِ دین مسندِ حکومت پر متمکن ہوا، مگر شیطانوں کے لئے اس کا وجود بھی ناقابلِ برداشت ہے، خدا جانے کتنی مشکلات ان کے لئے پیدا کی جارہی ہیں، کتنے روڑے ان کے راستے میں اٹکائے جارہے ہیں، تمام ”شیاطین الانس والجن،، مقابلے پر سینہ تان کر کھڑے ہوگئے ہیں، الغرض جب تک معاشرے کی اصلاح نہ ہو جائے، نقار خانے میں طوطی کی آواز کون سنتا ہے؟ اللہ تعالیٰ رحم فرمائیں۔
لندن میں بین الاقوامی تبلیغی اجتماع
لندن سے برادرم محترم مولانا مفتی عبد الباقی کا ایک مکتوبِ گرامی آیا تھا، جس میں بین الاقوامی تبلیغی اجتماع (لندن) کا ایک منظر پیش کیا گیا ہے۔ اوپر جو کچھ عرض کیا گیا، اس سے اس کی تائید ہوتی ہے، نامناسب نہ ہوگا ،اگر اس کا اقتباس پیش کروں، وہ لکھتے ہیں:
۱…بین الاقوامی تبلیغی اجتماع ختم ہوچکا، تثلیث کے اس ملک میں توحید کی آواز عجیب منظر پیش کررہی تھی، ایسا معلوم ہورہا تھا گویا قرونِ اُولیٰ کے بچے بچائے لوگ (جن کی زندگی میں اسلام کی جھلک نظر آرہی تھی) جمع ہوئے ہیں، ان میں لمبی لمبی ڈاڑھیوں والے، لمبے لمبے کرتوں والے، پاجاموں والے، شلواروں والے، بڑی بڑی پگڑیوں والے تھے، جنہیں دیکھ کر ”گورے لوگ“ محوِ حیرت بھی تھے اور محوِ تماشابھی۔
جب ہندوستان کا وفد لندن کے ہوائی اڈہ ”ہیتھرو“ بلڈنگ نمبر ۳ پر تشریف لایا تو قانونی کارروائی سے فراغت کے بعد سب سے پہلے امیر التبلیغ حضرت مولانا انعام الحسن باہر تشریف لائے، نہ زندہ باد یا مردہ باد کے نعرے، نہ ہنگامہ، نہ شور وشر، کچھ بھی نہیں تھا، بلکہ انتہائی وقار اور خاموشی کے ساتھ، لبوں پر تبسم، چہروں پر طلاقت، اطمینان اور سکون کی فضا میں معانقے ہوئے، مصافحے ہوئے اور پھر دعا شروع ہوئی، جس میں آہیں ، سسکیاں اور پھر آخر میں دھاڑیں مارکر رونے کی آوازیں بلند ہوئیں۔ تثلیث کے پرستار نیم عریاں لباس میں کیمرے تان کر کھڑے تماشہ کررہے تھے اور تماشہ دکھا رہے تھے، ان کو فوٹو اتارنے سے منع کیا گیا ،تاہم چپکے چپکے سے وہ کیمروں کو ہلاتے رہے، سرتاپا حیرت کے مجسمے بنے ہوئے تھے۔ چونکہ لندن ایئرپورٹ (ہیتھرو) پر ایک منٹ میں جہاز اترتا ہے اور قریباً دوسرے میں اڑتا ہے، ا سلئے مسافروں کا تانتابندھا رہتا ہے ، مسافر آتے جاتے تھوڑی دیر کے لئے ضرور رکتے، اس لئے کہ منظر ہی ایسا تھا کہ ہرایک کو دعوتِ نظارہ دے رہا تھا۔
۲…یہ مجمع مرکزِ تبلیغ لندن گیا اور پھر دوسرے دن اجتماع گاہ شیفیلڈ میں پہنچا، تین دن شیفیلڈ میں بڑی رونق رہی، خاص طور پر جب خیموں میں اور خیموں سے باہر میدان میں نمازوں کے لئے صفیں درست ہوجاتی تھیں تو اس منظر کو دیکھنے کے لئے محلِ اجتماع سے باہر فٹ پاتھوں پر انگریز مرد اور انگریز عورتیں کافی تعداد میں کھڑے ہوکر تماشہ کرنے لگتے، یہ روح پرور منظر ان پر بڑا اثر انداز ہورہا تھا، اجتماع میں قریباً اڑتیس ملکوں کے وفود شامل ہوئے، جو آسٹریلیا کے علاوہ باقی چاروں براعظموں کے مختلف بولی بولنے والے، مختلف نسل ورنگ کے لوگ تھے، کینیڈا، امریکہ، افریقہ اور ایشیا اور یورپ، عرب وعجم۔ اسلام کے عالمگیر دین ہونے کا عملی نقشہ نظر آرہا تھا۔ قریباً بارہ سو آدمیوں نے چار مہینوں، چلوں اور کم وبیش وقت لگانے، دور اور دیر کے لئے نکلنے کے لئے اپنے نام پیش کئے، بائیس جماعتیں بیرونی ممالک کے لئے تیار ہو گئیں اور پینتالیس اندرونِ ملک کے لئے۔
۳…کینیڈا اور امریکہ سے آئی ہوئی جماعتوں میں قریباً پندرہ آدمی حاجی حسین احمد جاجبھائی کی مسجد میں (جہاں میرا قیام ہے) جہاز کی روانگی میں تاخیر ہونے کی وجہ سے بارہ دن تک ٹھہرے۔ رات کو عشاء کی نماز کے بعد یہ لوگ ٹرانسلیٹر (ترجمان) کے ذریعہ مجھ سے سوالات کرتے رہتے اور میں ان کو جوابات دیتا رہتا، کبھی کبھی چار چار ترجمان ہوتے تھے، یہ سلسلہ رات کے ڈیڑھ بجے اور کبھی دو دو بجے تک چلتا تھا۔ انہوں نے مختلف موضوعات پر سوالات کئے، علمِ رمل، علمِ جفر، علمِ نجوم، قیافہ، پامسٹری، کہانت، الہام، وحی، عذابِ قبر، برزخ، دوزخ، جنت، علاماتِ قیامت، دجال، امام مہدی علیہ السلام، حضرت عیسیٰ علیہ السلام، یا جوج ماجوج ، دیدارِ الٰہی سے لے کر خوابوں کی تعبیرات تک سوالات کئے، چونکہ ان میں اکثر نومسلم تھے، اس لئے علم کے بہت پیاسے تھے، آخر میں انہوں نے کہا کہ نیویارک میں ہمارے اور بہت سے بھائی ہیں، جو اپنے سوالات کے تسلی بخش جوابات چاہتے ہیں، آپ ہمارے ساتھ نیویارک اور کینیڈا چلیں، بہت عذر پیش کیا کہ مجھے انگریزی نہیں آتی وغیرہ، ہاں اگر یہ میرے ترجمان میرے ساتھ جائیں تو کسی وقت آپ کے ہاں آنا ہوسکتا ہے، لیکن یہ لوگ بضد رہے، پھر یہ لوگ واپس چلے گئے، یہ اکثر کالے رنگ اور نسل سے تعلق رکھتے تھے۔
۴…ہم نے محمد علی کلے سے متعلق ان سے پوچھا تو انہوں نے محمد علی کلے کے بارے میں کسی اچھی رائے کا اظہار نہیں کیا، کہنے لگے اس نے آج تک پورا کلمہ نہیں پڑھا، ”لا الہ الا الله“ پڑھتا ہے اور اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے،” محمد رسول الله“ آج تک نہیں پڑھا اور اس نے آج تک نماز نہیں پڑھی اور بہت مالدار ہے، کبھی زکاة نہیں نکالی اور حج ابھی تک نہیں کیا، روزہ کا حال خدا کو معلوم ہے۔
تبلیغِ دین اور دینی مدارس
بہرحال میرا ناقص خیال ہے کہ جتنے عملی فتنے رونما ہورہے ہیں، ان کی اصلاح کے لئے یہ طریقہٴ دعوت اور اس میں شمولیت بلاشبہ مؤثر نسخہ اور علاج ہے، لیکن علمی فتنوں کے لئے ٹھوس علم کی ضرورت ہے۔ آج کل اعداء ِ اسلام مستشرقین وغیرہ اسلام کے بنیادی مسائل کو ڈائنامیٹ لگارہے ہیں، قرآن کریم کے کلامِ الٰہی ہونے میں شبہات، حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں وساوس ، فقہ اسلامی پر تنقیدات واعتراضات، ان علمی فتنوں کی سرکوبی کے لئے ٹھوس علمِ دین، جدید علمِ کلام، جدید سائنس، معلوماتِ عامہ، حسنِ تحریر، شگفتہ بیانی، سنجیدہ متوازن دماغ، پیہم کوشش اور صالح ومؤثر لٹریچر کی ضرورت باقی رہے گی۔ جو علم سے ناواقف تبلیغی حضرات یہ تصور قائم کرلیتے ہیں کہ اب نہ مدارس کی ضرورت ہے، نہ خانقاہوں کی، یہ غلو ہے، جہل ہے، علمِ دین تو تمام دینی کاموں کے لئے بنیاد ہے، امت علومِ دینیہ سے کسی وقت بھی بے نیاز نہیں ہوسکتی۔ جب مسلمانوں میں علمی فتنوں کا دور زیادہ نہ تھا، اس وقت بھی علومِ اسلامیہ میں مہارت کی اہمیت سے انکار نہیں ہوسکتا تھا۔ سابقہ ادوار میں اربابِ اقتدار کو علمی فتنوں کے عام کرنے کا موقع بہت کم ملا،شخصی طور سے فتنے برپاکئے جاتے تھے، صرف امام احمد بن حنبل کے دور میں مامون عباسی کو اقتدار کے ذریعہ ”خلقِ قرآن“ کا فتنہ مسلط کرنے کا موقع ملا اور اس کے بعد امین ومعتصم، لیکن آج تو برطانوی وامریکی اور روسی اقتدار کے سایہ میں فتنوں پر فتنے پرورش پارہے ہیں، اتنی بڑی بڑی طاقتور حکومتیں خود مختلف راستوں سے علمی فتنے پھیلانے میں مصروف ہیں، اگر علماءِ امت نہ ہوتے اور ان کے دانت کھٹے نہ کرتے تو آج اسلام کا نقشہ ہی کچھ اور ہوتا اور خاکم بدہن اسلام صفحہٴ ہستی سے کبھی کا مٹ چکا ہوتا، یہ تو ان بوریہ نشین علماء کے کارنامے ہیں کہ آج بھی اسلام باقی ہے اور جو کچھ حصہ باقی نظر آرہا ہے، وہ سوکھی روٹی کھانے والوں کا رہینِ منت ہے۔ بہرحال عصرِ حاضر کے علمی فتنوں کے پیش ِ نظر علمی خدمات اور علمی مدارس کی اہمیت پہلے سے ہزار گنا زیادہ ہے۔ نیز آج کے پُر آشوب دور میں جب عقیدہٴ اسلامی بہت کمزور ہوگیا ہے، اس کی حفاظت کے لئے علم دین کی ضرورت بہت زیادہ ہے، لینن وکارمل، مارکس وماؤزے تنگ کے اقتصادی فلسفوں کی سرکوبی کے لئے حاذق علماء کی ضرورت ہے، ہاں یہ ضروری ہے کہ اربابِ علم پوری طرح جدید علمی ہتھیاروں سے مسلح ہوں، تاکہ صحیح مقابلہ ہوسکے، عصری تقاضوں کے پیشِ نظر جدید علمی تربیت سے آراستہ ہونا اور جدید معلومات فراہم کرنا اور نئی دنیا سے باخبر ہونا بے حد ضروری ہے، بس شکوہ اگر ہے تو اس کا ہے کہ صحیح پختہ کار علماء کا وجود کبریتِ احمر ہے۔
بہرحال خدمتِ دین اور اسلام کو ان علمی فتنوں سے بچانے کے لئے محقق اور بابصیرت اربابِ علم کی بے انتہاء ضرورت ہے اور ان علمی خدمات کو مؤثر بنانے کے لئے انتہائی اخلاص کی شدید حاجت ہے، نرے علم پر مطلوبہ ثمرات مرتب نہیں ہوسکتے، جب تک علم کے ساتھ اخلاص نہ ہو، قبولیت عند اللہ کے لئے اخلاص کا ہونا تو بالکل واضح ہے، لیکن علمی خدمات پر صحیح اثرات مرتب ہونے کے لئے بھی اخلاص کے بغیر چارہٴ کار نہیں، گویا قبول عند الناس بھی ثمرہ ہے قبول عند اللہ کا۔ کہنا یہ ہے کہ تبلیغی خدمات اور موجودہ طرز پر دین کا جو کام ہورہا ہے، بلاشبہ دین ہے اور اہم جزوِ دین، لیکن یہ سمجھنا کہ بس یہی دین ہے اور اس کے بعد علمِ دین کی ضرورت نہیں، یہ بالکل غلط ، بلکہ گمراہی ہے۔}علمائے اہلِ حق سے سوءِ ظن اور ان کی بے وقعتی بہت ہی خطرناک ہے، علماء کرام سے استغناء گمراہی اور کجروی کا پہلا زینہ ہے، کسی کجرو جماعت یا تحریک کی پہلی علامت یہ ہے کہ وہ علماءِ حق سے بے نیاز ہو، تفصیل کے لئے حضرت شیخ الحدیث الحاج مولانا محمد زکریا کاندہلوی کی تصنیف ”الاعتدال فی مراتب الرجال“ کا مطالعہ کیا جائے۔
الحمد لله! تبلیغی جماعت کے اکابر کو ہمیشہ اس کا اہتمام رہا کہ اس کام میں عوام کا علماء سے جوڑ ہو، وہ ان کی قدروقیمت کو سمجھیں اور ان سے استفادہ کریں، حضرت مولانا محمد الیاس مختلف عنوانات سے بار بار اس کی تاکید فرمایا کرتے تھے۔ ایک بار فرمایا:
”ایک عامی مسلمان کی طرف سے بدگمانی بھی ہلاکت میں ڈالنے والی ہے اور علماء پر اعتراض تو بہت سخت چیز ہے“۔
پھر فرمایا:
”ہمارے طریقہٴ تبلیغ میں عزتِ مسلم اور احترامِ علماء بنیادی چیز ہیں، ہر مسلمان کی بوجہ اسلام کے عزت کرنی چاہیئے اور علماء کا بوجہ علم کے بہت احترام کرنا چاہیئے“۔
ایک موقع پر فرمایا:
”ہمارے کارکن جہاں بھی جاویں، وہاں کے حقانی علماء وصلحاء کی خدمت میں حاضری کی کوشش کریں الخ“۔
ایک صاحب کوتحریر فرمایا:
”علم کے فروغ اور ترقی کے بقدر اور علم ہی کے کے فروغ اور ترقی کے ماتحت دینِ پاک فروغ اور ترقی پاسکتا ہے ۔ میری تحریک سے علم کو ذرا بھی ٹھیس پہنچے، یہ میرے لئے خسران عظیم ہے“۔
حضرت مولانا محمد الیاس اور حضرت مولانا محمد یوسف نور اللہ مرقدہما کی اس قسم کی بے شمار تصریحات ہیں۔ (تفصیل کے لئے حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلوی مدظلہ کی تازہ تالیف ”دہلی کی تبلیغی جماعت پر عمومی اعتراضات اور ان کے مفصل جوابات “ ملاحظہ فرمایئے۔
اس سے معلوم ہوا وہ تبلیغی کارکن جو علماء کرام کی مساعی کو (بعض اس وجہ سے کہ وہ تبلیغی کام میں لگے ہوئے نہیں) قدر ومنزلت کی نظر سے نہیں دیکھتے، وہ ناپختہ کاری کی وجہ سے دعوت کے مزاج سے ناآشنا ہیں یا بقول حضرت شیخ الحدیث دراصل وہ دعوت کے کام میں لگنے سے پہلے علمائے کرام سے بیزار تھے اور اس کام میں لگنے کے بعد بھی ان کی خونہ بدلی، گویا طالبِ علم چور نہیں ہوتے، بلکہ بعض اوقات چور طالب علمی کرنے لگتے ہیں“۔ (مدیر)
آج کل ایک سب سے بڑا فتنہ یہ ہے کہ جو اربابِ علم ہیں، وہ صرف علم اور تعلیم پر قناعت کرکے بیٹھ گئے ہیں اور جو اربابِ عمل اور اربابِ دعوت ہیں، وہ اپنے آپ کو علم اور علماء سے مستغنی سمجھتے ہیں، علماء کو میدانِ عمل میں آنے کی ضرورت ہے اور اربابِ عمل کو علم حاصل کرنے کی ضرورت ہے اور ساتھ ہی ساتھ قدم قدم پر اخلاص کی ضرورت ہے۔جب علم وعمل واخلاص تینوں باتیں جمع ہوجائیں گی تو اس کے بہترین نتائج وبرکات ظاہر ہوں گے، مزید برآں سراپا اخلاص بن کر بھی حق تعالیٰ کی توفیق وفضل کی ضرورت ہے، افسوس کہ مادیت کے اس دردناک دور میں تمام دینی اقدار ختم ہوگئے اور یہ سارے دینی کلمات صرف بے معنی الفاظ رہ گئے، مسلمانوں کے معاشرے میں اتنا شدید انقلاب آگیا کہ تمام دینی اصطلاحیں مسلمانوں کی زندگی میں بے حقیقت الفاظ رہ گئے۔ اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ اور دورِ اول کے مسلمان زندہ ہوکر ہمارے دورِ حاضر کے نام لیوا مسلمانوں کی زندگیاں دیکھ لیں تو کیا فرمائیں؟ اللہ تعالیٰ اپنے فضل وکرم سے صحیح اسلام پر قائم رکھے اور صحیح مسلمانوں کے خدوخال کی حفاظت فرمائے اور تقویٰ وطہارت کی حیاتِ طیبہ نصیب فرماکر فوز وفلاح کے مدارجِ عالیہ سے نوازے۔
آمین بحرمة النبی الأمین علیہ صلوٰت الله وسلامہ إلی یوم الدین۔
اشاعت ۲۰۱۱ ماہنامہ بینات , شعبان المعظم:۱۴۳۲ھ -اگست: ۲۰۱۱ء, جلد 74, شمارہ 8

    پچھلا مضمون: پرامن اورمتوازن معاشرہ کے لیے علمأ کاکردار !
Flag Counter