Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی شعبان المعظم ۱۴۳۲ھ -اگست ۲۰۱۱ء

ہ رسالہ

2 - 13
مغرب کی اذان کے بعد وقفہ !
مغرب کی اذان کے بعد وقفہ!

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ:
مغرب کی اذان کے بعد جماعت کھڑی کرنے میں وقفہ کرنا شرعاً کیا حکم رکھتا ہے؟ جیساکہ آج کل بعض مسجدوں میں مغرب کی اذان کے بعد جماعت تین یا پانچ منٹ کے بعد شروع ہوتی ہے۔
براہ کرام جواب مدلل عنایت فرماکر مشکور فرمائیں

مستفتی

عبد اللہ ، کراچی

الجواب حامداً ومصلیاً
مغرب کی اذان اور اقامت کے درمیان چند منٹ کے وقفہ کا جو معمول چل پڑا ہے، اس کا حکم جاننے کے لئے فقہائے کرام کی تصریحات کے علاوہ ان احادیث مبارکہ کو سامنے رکھنا بھی ضروری ہے جو مغرب کی تعجیل سے متعلق ہیں، چنانچہ اس موضوع کی احادیث کا جائزہ لینے سے درج ذیل امور سامنے آتے ہیں:
۱…دیگر نمازوں میں تاخیر اور مغرب میں تعجیل (ادا کرنے میں جلدی) مطلوب ہے۔
بخاری شریف میں حضرت جابر  کی روایت ہے کہ آنحضرتصلی اللہ علیہ وسلم ظہر کی نماز دوپہر ڈھلے پڑھتے تھے اور مغرب کی نماز وقت ہوتے ہی پڑھتے تھے۔جیساکہ ارشاد ہے:
”کان النبی صلی اللہ علیہ وسلم یصلی الظہر بالہاجرة… والمغرب إذا وجبت“۔
(صحیح بخاری،ج:۱،ص:۷۹، ط:قدیمی)
اسی مضمون کی روایات حضرت سلمہ بن أکوع، حضرت انس، حضرت عبد اللہ بن مسعود اور حضرت ابو سعود رضی الله تعالیٰ عنہم سے بھی مروی ہیں۔اور امام طحاوی فرماتے ہیں:
”وقد تواترت الآثار عن رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم أنہ کان یصلی المغرب إذا توارت الشمس بالحجاب“۔ (شرح معانی الآثار ج:۱، ص:۱۱۵، ط:قدیمی)
۲…اس تعجیل کا مطلب یہ ہے کہ مغرب کی نماز سے فارغ ہونے کے کچھ دیر بعد تک اتنا اُجالا ہو کہ دور سے بھی کوئی چیز صاف نظر آنے میں دقّت نہ ہو۔حضرت رافع بن خدیج کی حدیث میں ہے :
”کنا نصلی المغرب مع النبی صلی اللہ علیہ وسلم فینصرف أحدنا وانہ لیبصر مواقع نبلہ“۔ (صحیح بخاری،باب وقت المغرب، ج:۱،ص:۷۹)
حضرت جابر کی حدیث میں ہے:
”ثم نرجع الی منازلنا (وہی میل) وانا أبصر مواقع النبل“۔
(اخرجہ عبد الرزاق فی مصنفہ برقم ۲۰۹۱، ج:۱،ص:۵۵۲)
حضرت زید بن خالد، حضرت انس اور حضرت کعب بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے بھی یہی روایت منقول ہے۔علامہ بدر الدین عینیاس کو جمہور کا مذہب قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
”دل الحدیث المذکور علی انہصلی اللہ علیہ وسلم صلّی المغرب عند غروب الشمس وبادربہا بحیث انہ لم یفرغ منہا الاّ وکان الضوء باقیاً وہو مذہب الجمہور“۔ (عمدة القاری، ج:۵،ص:۸۱)
۳…اس تعجیل کا اندازہ یوں بیان کیا گیا ہے کہ مؤذن اذان خانہ سے مصلّی تک پہنچ جائے اور یہ وقفہ صرف تین یا ایک طویل آیت کی تلاوت کے بقدر ہوتا ہے۔علامہ ابن نجیم فرماتے ہیں:
”ویجلس المؤذن بین الأذان والإقامة علی وجہ السنّیة الاّ فی المغرب فلایسنّ الجلوس بل السکوت مقدار ثلاث اٰیات قصار أو اٰیة طویلة أو مقدار ثلاث خطوات وہذا عند أبی حنیفة وقالا: یفصل ایضاً فی المغرب بجلسة خفیفة قدر جلوس الخطیب بین الخطبتین وہی مقدار أن یتمکن مقعدتہ فی الأرض بحیث یستقر کل عضو منہ فی موضعہ“۔
(البحر الرائق ج:۱،ص:۲۶۱، ط:رشیدیہ)
۴…مغرب کی نماز میں تاخیر کرنا مکروہ ہے، یعنی ستارے چمکنے تک تاخیر مکروہِ تحریمی اور اس سے پہلے مکروہِ تنزیہی ہے۔چنانچہ علامہ طحطاوی لکھتے ہیں:
(قولہ الی اشتباک النجوم) ظاہرہ أنہا بقدر رکعتین لایکرہ مع انہ یکرہ أخذاً من قولہم بکراہة رکعتین قبلہا۔ واستثناء صاحب القنیة القلیل یحمل علی ما ہو الأقل من قدرہما توفیقاً بین کلام الأصحاب…واعلم ان التاخیربقدر رکعتین مکروہ تنزیہاً والی اشتباک النجوم تحریماً“ (حاشیہ طحطاوی ج:۱، ص:۱۷۸، ط:قدیمی)
مذکورہ بالا روایات سے یہ بات واضح ہوئی کہ مغرب کی نماز اور اذان کے درمیان وقفہ کرنا اس تعجیل کے منافی ہے جو مغرب کی نماز کے بارے میں منقول ہے، البتہ ذیل میں صحابہ کرام کے چند آثار بھی ذکر کرنا مناسب ہوگا، تاکہ مسئلہ خوب واضح ہوجائے۔شرح معانی الآثار میں ہے:
”عن عبد الرحمن بن یزید قال: صلی عبد الله  بأصحابہ صلاة المغرب، فقام أصحابہ یتراء ون الشمس، فقال: ما تنظرون؟ قالوا: ننظر أغابت الشمس؟ فقال عبد الله: ہذا والذی لا إلہ إلا ہو وقت ہذہ الصلوة، ثم قرأ عبد الله: ”أَقِمِ الصَّلوٰة لِدُلُوْکِ الشَّمْسِ إِلیٰ غَسَقِ اللَّیْلِ“ وأشار بیدہ إلی المطلع، فقال: ہذا دلوک الشمس“۔ (شرح معانی الآثار،ج:۱ص:۷۶، بیہقی ،ج:۱ ص:۳۷۰)
مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے:
”عن عبد الله الداناج، قال: کان أصحاب رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم یتناضلون بعد المغرب“۔ (ج:۱ ص:۳۲۹)
نیزمؤطا امام مالک (۱/۲۹۰) مصنف عبد الرزاق (۱/۵۲۰) سنن بیہقی (۱/۴۴۸)میں بھی اسی مضمون کے آثار منقول ہیں۔اور انہی نصوص کی روشنی میں علامہ شبیر احمد عثمانی لکھتے ہیں:
”المبادرة بالمغرب فی أوّل وقتہا بحیث ان الفراغ منہا یقع والضوء باق“۔ (فتح الملہم، ج:۳ ،ص:۵۲ ط:بیروت)
اور حضرت مفتی محمود حسن گنگوہی فرماتے ہیں:
”اتنا وقفہ کر لینا چاہئے کہ مؤذن اذان سے فارغ ہوکر صف میں پہنچ جائے اور اذان کے بعد دُعا بھی پوری ہوجائے“۔ (فتاوی محمودیہ، ج:۵، ص:۳۴۳)
خلاصہ یہ ہے کہ مغرب کی نماز اور اذان کے درمیان ”وقفہ نہ کرنا افضل اور سنت کے موافق،، ہے، اور یہی جمہور امت کا معمول چلا آرہا ہے، جبکہ مغرب کی اذان اور اقامت کے درمیان تین تا پانچ منٹ کا وقفہ کرنا اس تعجیل کے منافی ہے جو مغرب کی نماز میں مطلوب ہے۔

الجواب صحیح الجواب صحیح الجواب صحیح

محمد عبد المجید دین پوری محمد شفیق عارف رفیق احمد

کتبہ

سید نثار احمد

متخصصِ فقہِ اسلامی

جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی
اشاعت ۲۰۱۱ ماہنامہ بینات , شعبان المعظم:۱۴۳۲ھ -اگست: ۲۰۱۱ء, جلد 74, شمارہ 
Flag Counter