Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی شعبان المعظم ۱۴۳۲ھ -اگست ۲۰۱۱ء

ہ رسالہ

4 - 13
تجوید کی اہمیت…اکابر کی نظر میں !
تجوید کی اہمیت…اکابر کی نظر میں

حضرت مولانا رحمت اللہ کیرانوی ۱۸۵۷ء کی جنگِ آزادی کے زمانہ میں ہندوستان سے ہجرت کرکے مکہ مکرمہ تشریف لے گئے، وہاں دیکھا کہ عربوں کی نظر میں ہندوستانی علماء کی کوئی وقعت نہیں، انہیں گری نظر سے دیکھتے ہیں، جس کی وجہ یہ تھی کہ ہندی علماء قرآن کریم غلط پڑھتے ہیں اور مدارسِ عربیہ میں تجوید کا کوئی اہتمام نہیں، جبکہ تجوید کی فرضیت قرآن وحدیث اور اجماع امت سے ثابت ہے اور کسی نے اس کا انکار نہیں کیا، مگر شعبہٴ کتب کے طلباء تجوید کو فضول سمجھتے ہیں، بعض بڑے اساتذہ بھی کہتے ہیں:” علم سیکھو، تجوید میں کیا رکھا ہے؟“ اور وعظوں میں کچھ اور ہی رنگ ہوتا ہے۔
”مدرسہ صولتیہ“ مکہ مکرمہ کا آغاز
”حضرت مولانا رحمت اللہ کیرانوی“ نے پہلا کام یہ کیا کہ حرمِ مکی میں مدرسہ قائم کیا اور ہندوستانی بچوں کو جمع کرکے پڑھانا شروع کیا۔ اسی زمانہ میں ”قاری عبد القادر مدراسی، فاضل جامعہ ازہر“ مصر سے فراغت کے بعد مکہ مکرمہ تشریف لائے، یہ علم وفن کے باکمال قاری تھے، حضرت مہتمم صاحب نے انہیں اپنے ہاں مدرس رکھ لیا۔
”مدرسہ صولتیہ“ کی تعمیر
حضرت مہتمم صاحب کی ترغیب پر بنگال کی ایک خاتون ”صولت النساء “نے اپنا سارا سرمایہ اسی مدرسہ کی تعمیر پر لگادیا، ”مدرسہ صولتیہ“ اسی کے نام پر ہے۔”قاری عبد القادر مدراسی“ کی ہر وقت کی محنت اور لگن نے مدرسہ کو چار چاند لگادیئے۔خلوص وللہیت کے جذبہ نے بچوں کا تلفظ اور ہجہ ایسا قابل تعریف بنادیا کہ عرب بھی شوق سے سنتے۔ حضرت مہتمم صاحب کی فکر سلیم نے حقارت ونفرت والے ماحول کو الفت ومودّت سے بدل دیا، جب مدرسہ کے جلسے میں ہندوستانی بچے تلاوت کررہے تھے تو عرب بھی جھوم رہے تھے۔
قاری عبد اللہ مکی کی آمد
انقلابِ دہلی کے بعد آپ کے تایاجان خاندان کے چھوٹے بڑے سترہ افراد کو لے کر مکہ مکرمہ پہنچے، مدرسہ کے متصل رباطِ برما میں پورے خاندان کو سکونت کی اجازت مل گئی۔ اس وقت آپ کی عمر چار پانچ سال تھی۔ قاری صاحب کے تایا جان کا تین سال بعد انتقال ہوگیا۔ آپ کے والد محمد بشیر خان مرحوم اور حضرت مہتمم صاحب کا خوب جوڑ ملا ۔آپ کے والد صاحب جلد سازی کے بہترین کاریگر تھے، مہتمم صاحب کی کوشش سے کام کرنے کی قانونی اجازت مل گئی، کام خوب چمکا۔ آپ نے تینوں بچے (قاری عبد اللہ، قاری عبد الرحمن (مؤلف فوائد مکیہ)اور قاری حبیب الرحمن) مہتمم صاحب کے حوالہ کردیئے، آپ نے ان کا پورا پورا خیال رکھا اور اعلیٰ درجہ کی کامیابی سے آراستہ کیا۔ ”قاری عبد القادر مدراسی“ نے بھی شوق ومحنت سے پڑھایا اور کوئی لہجہ نہیں چھوڑا جو قاری عبد اللہ صاحب کو نہ سکھایا ہو، آپ کو امام الفن بنادیا۔آج کے دور میں شروع ہی سے لہجوں کی لگن لگ جاتی ہے، جس سے فن کا جنازہ نکل گیا۔ اب تو بعض علمی مراکز میں درسِ نظامی کے ساتھ ساتھ شاطبیہ اور دُرّہ طیبہ تو پڑھا رہے ہیں، مگر مشق وحدر کی کوئی فکر نہیں، جس کی وجہ سے تجوید کے زمانہ میں جو تلفظ بنتا ہے وہ ضائع ہوجاتا ہے، پڑھنے والوں کو اس کا احساس نہیں ہوتا، وہ خود کو عشرہ کا قاری سمجھتے ہیں، انا لله وانا الیہ راجعون۔
آغازِ تدریس
حضرت قاری عبد اللہ مکی کو فراغت تعلیم کے بعد استاذ محترم کی سفارش پر حضرت مہتمم صاحب نے شعبہٴ قرآن میں معین مدرس رکھا ،آپ نے بچوں پر خوب محنت کی، آپ بھی استاذ کی طرح انتھک محنت کرتے تھے۔حضرت قاری عبد اللہ مکی کی مدرسہ سے محبت کا یہ حال تھا کہ آپ دنیا کی بڑی بڑی دعوتوں پر بھی کہیں پڑھانے نہیں گئے اور ابتداء سے لے کر آخر عمر تک یہیں پڑھایا اور منصبِ صدارت پر تجوید وقراء ات کی چالیس سال خدمت کی اور امام الفن حضرت قاری عبد المالک ، ان کے برادر کبیر حضرت قاری عبد الخالق ، استاذ الاساتذہ حضرت قاری عبد الرحمن (مؤلف فوائد مکیہ) اور حضرت مولانا اشرف علی تھانوی جیسے علم وفن کے جامع لاتعداد اساتذہ تیار کئے۔آپ جنت المعلیٰ (مکہ مکرمہ) میں خوابِ استراحت ہیں ۔ اللّٰہم اغفر لہم وارحمہم۔
لمحہٴ فکریہ
اگر انتظامیہ کے نزدیک اس علم وفن کی اہمیت اور مدرّس کی جفاکشی کی قدر ہو تو مدرّس ہر صعوبت کو برداشت کرتا ہے اور اپنے لگائے ہوئے باغ کو اجاڑتا نہیں، خلاء اسی وقت ہوتا ہے جب مدرّس بے بس ہوجائے۔ حضرت شیخ قاری محمد شریف صاحب کے ساتھ یہی کچھ ہوا۔ اور جو مدرس اس مقدس کام کو ذریعہٴ معاش سمجھتے ہیں، وہ ہمارے موضوع سے خارج ہیں ۔
شیخ القراء ابراہیم سعد مصری
آپ مکہ مکرمہ آئے تو مہتمم صاحب نے آپ کی خدمات حاصل کرلیں۔ آپ صاحبِ فضل وکمال اور علم وفن کے جامع تھے۔ آپ کے اور شیخ محمد المتولی (مؤلف: الوجوہ المسفرة) کے درمیان ”حسن بُدیر“ کا ایک واسطہ ہے۔
شیخ علی الضباع مصری 
آپ اپنے وقت کے شیخ القراء تھے۔ آپ کے اور ”شیخ محمد المتولی “کے درمیان بھی ایک ہی واسطہ ہے۔ بندہ نے ۱۹۶۵ء میں پہلا سفرِ حج ایران اور عراق کے راستہ سے کیا، واپسی پر عراق کے صحراء میں قہوہ خانہ (ہوٹل) تھا، گاڑی ٹھہری، ریڈیو مصرسے تلاوت آرہی تھی، ایسی تلاوت کبھی نہیں سنی تھی، تجوید کا انتہائی بلند معیار، غضب کی لطافت، ہجوں کی پختگی اور آواز کی گرفت نے حیرت زدہ کردیا، یہ تلاوت شیخ علی الضباع کی تھی۔ اس سے شیخ ابراہیم سعد کی فنی پرواز کا اندازہ ہوا، کیونکہ دونوں ہم عصر تھے۔خواب میں حضرت علی المرتضیٰ کی اذان سننے کا شرف نصیب ہوا ،یہ اذان لطافت ونفاست میں شیخ علی الضباع کی تلاوت سے بھی بہت آگے تھی، اسی جادو نے حضرت قاری عبد اللہ مکی کو منصبِ صدارت پر فائز ہوتے ہوئے بھی شیخ ابراہیم سعد سے پڑھنے پر مجبور کیا۔ اس زمانہ میں عزت و جاہ وغیرہ کوئی چیز نہ تھی، آپ اپنے شاگردوں کے سامنے شیخ ابراہیم سے مشق کرتے، حتی کہ قراأٰت کی بھی تجدید کی۔
حضرت قاری محمد شریف
آپ مدرسہ تجوید القرآن کے شعبہٴ تجوید وقراأٰت کے صدر مدرس تھے، اس زمانہ میں مدرسہ کا معیار ِتعلیم قابل فخر تھا، نیز حضرت قاری صاحب مدرسہ عالیہ فرقانیہ لکھنؤ سے طیبہ کے طریق سے قراأٰت عشرہ کی سند فراغت لاچکے تھے، لیکن جب امام الفن حضرت قاری عبد المالک لاہور تشریف لائے تو حضرت سے آپ نے قراأٰت سبعہ کی تجدید کی اور سند فراغت حاصل کی اور کسبِ فیض کا سلسلہ پانچ سال تک جاری رکھا۔ اس فن کی لطافت ونفاست کی کوئی حد نہیں۔ حضرت کے ہاں جانا آنا آسان نہ تھا۔ حضرت قاری عبد اللہ مکی کا یومیہ معمول تھا کہ تدریس کے علاوہ ایک گھنٹہ تنہائی میں پوری توجہ سے مشق کرتے، فرماتے: اس کے بغیر حروف کی گرفت باقی نہیں رہتی۔ آج کے دور میں یہ ہے انوکھی بات۔
باقی ارتقائی اہم اصول
حضرت قاری عبد اللہ نے اپنے ہونہار شاگرد مولانا اشرف علی تھانوی سے فرمایا: لہجہ کی بالکل فکر نہ کریں، پوری توجہ حروف کی صحت کی طرف ہو اور اس پر محنت ہو، پھر جو ہی لہجہ بنے، مستحسن ہی ہوگا۔
ہفتہ وار اصلاحی محفلِ قراء ة
حضرت قاری عبد المالک راوی ہیں کہ جمعرات کی رات کو مقابلہ حسنِ قراء ة ہوتا، سب خوب سے خوب تر پڑھتے، آخر میں حضرت شیخ تبصرہ فرماتے، آئندہ مزید بہتری کی کوشش کرتے، یہ ہیں ارتقائی راز۔
ایک محفل کا واقعہ
حضرت قاری عبد المالک تلاوت کررہے تھے، محفل گرم تھی، حضرت قاری عبد اللہ مکی تشریف لائے اور باہر ہی بیٹھ گئے، تلاوت کے سرور میں جھومنے لگے، لیکن جب ملاقات ہوئی تو فرمایا: یہ کیا کیا؟ یہ کیا کیا ؟وغیرہ، یہی روک ٹوک ترقی کے راز ہیں، اب تو بڑے رہے نہیں، کون روک ٹوک کرے؟ ۔ یا اسفیٰ ویا حسرتیٰ۔
حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی کو اس بات کا بہت صدمہ تھا کہ حجاز مقدس میں عرب ہندوستانی علماء کو حقارت ونفرت کی نظر سے دیکھتے ہیں اور ان کے پیچھے نماز نہیں پڑھتے، کیونکہ انہیں قرآن پڑھنا نہیں آتا۔ حضرت مولانا رحمت اللہ کیرانوی کی فکر سلیم اور حضرت قاری عبد اللہ مکی کی محنت ولگن نے ہندوستانیوں کے سروں پر عزت ووقار کا تاج رکھ دیا، فللّٰہ الحمد والمنة۔
حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی نے حضرت تھانوی کو ۱۶ رجب ۱۳۱۰ھ کو خط لکھا کہ ہندوستانی علماء کو قرآن پڑھنا نہیں آتا، جس کی وجہ سے عرب حقارت ونفرت سے دیکھتے ہیں اور ان کے پیچھے نماز نہیں پڑھتے۔ حضرت مولانا رحمت اللہ کیرانوی نے مدرسہ صولتیہ کے ابتدائی دور ہی میں تجوید کا اہتمام کیا، کیونکہ علمِ تجوید کا رواج بہت کم ہوگیا ہے اور ہندوستان میں تو بہت ہی کم ہے، اب بفضل اللہ ”قاری عبد القادر مدراسی“ کی انتھک محنت سے حقارت ونفرت کے بادل چھٹنے شروع ہوگئے ہیں۔ مدرسہ کے جلسہ میں ہندوستانی بچوں نے تلاوتیں کیں تو عرب بھی جھوم رہے تھے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے ہندوستانی قراء جنہوں نے ”مدرسہ صولتیہ“ اور اس کی شاخوں سے تجوید وقراأٰت کی تکمیل کی اور دیگر علوم پڑھے اور کامل قاری بن کر نکلے، حرمین شریفین کے مدارس میں مدرّس ہیں اور تعلیم یافتہ عرب اساتذہ تک کو تجوید پڑھا رہے ہیں اور کتنی خوشی کی بات ہے کہ” شیخ عبد اللہ خیّاط“ اسی ”مدرسہ صولتیہ“ کے فضلاء میں سے ہیں، عالم اور قاری تھے، آخر عمر تک حرم مکی کے خطیب رہے۔ یہ تو راقم تقی نے بھی دیکھا کہ ان کا خطبہ حالات حاضرہ پر روشنی ڈالتا اور امت مسلمہ کی رہنمائی کرتا، کبھی انہوں نے کچی بات نہیں کی، انہی کے دور میں شیخ محمد السبیل امام مقرر ہوئے، مگر خطبہ شیخ خیّاط ہی دیتے تھے، یہ مدرسہ صولتیہ کے کتنے بڑے اعزاز کی بات ہے۔ اسی مدرسہ کے قاری مختلف جگہوں پر قاضی تھے۔ اس مدرسہ کا امتیازی نشان تجوید وقراء ة ہے اور دوسرے علوم ثانوی درجہ میں تو تھے، مگر لزوم کے درجہ میں حضرت قاری عبد اللہ مکی نے ”مدرسہ صولتیہ“ کو مرکز القراء بنادیا تھا۔ فللّٰہ الحمد۔حضرت مولانا اشرف علی تھانوی کو حضرت قاری عبد اللہ مکی کے لگائے ہوئے باغ، یعنی تجوید وقراء ة کے طلباء کی تلاوتوں نے اتنا متاثر کیا کہ آپ فنِ تجوید کے لئے ٹھہر گئے، چنانچہ آپ نے پڑھنے میں ایسا کمال حاصل کیا کہ جب مدرسہ کی بالائی منزل میں مشق کرتے تو کوئی اندازہ نہیں لگا سکتا تھا کہ حضرت قاری عبد اللہ مکی پڑھ رہے ہیں یا حضرت تھانوی۔ آپ نے تجوید ہی پر بس نہیں کی، بلکہ قراأٰت سبعہ کی بھی تکمیل کی اور مبتدی طلباء کے لئے پاؤ پارہ میں قراأٰت سبعہ کا اجراء لکھا، جس کا نام ”تنشیط الطبع“ ہے۔حضرت تھانوی نے مدارس عربیہ کے نصاب تعلیم سے متعلق تقریر کی، جس میں آپ نے شکایت کی کہ مدارس عربیہ میں تجوید وقراأٰت کا کوئی اہتمام نہیں ہے، جس کی وجہ سے عالم تو بن جاتے ہیں، مگر با تجوید قرآن پڑھنا نہیں آتا، حضرت کی اس تقریر کا یہ اثر ہوا کہ دار العلوم دیوبند میں ۱۳۲۱ھ میں شعبہٴ تجوید کا اجراء ہوا اور مظاہر العلوم میں بھی یہ شعبہ قائم ہوا۔ بحمد الله الکریم۔
دکھی دل کی بات
راقم تقی نے اپنے ۵۶ سالہ دورِ تدریس میں دیکھا کہ شعبہٴ کتب کے طلباء، بلکہ بعض بڑے اساتذہ تک بڑی حقارت ونفرت سے تجوید وقرا أت کا استہزاء کرتے ہیں، الا من رحم الله، یوں معلوم ہوتا ہے کہ اس جیسا بیکار اور فضول اور کوئی علم نہیں۔ الا مان والحفیظ۔اگر مہتمم حضرات اور اساتذہ کرام طلباء کی ذہن سازی کریں اور نظامِ تعلیم میں تجوید کو باوقار مقام دیں تو اس کا رواج ہو سکتا ہے ۔
تجوید کی اہمیت
قاری محبوب علی لکھنوی نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلمنے حضرت قاری عبد الرحمن (مؤلفِ فوائد مکیہ) کو حکم دیا کہ ہندوستان جاکر کام کرو، آپ مکہ مکرمہ سے تشریف لائے اور تا زندگی ہندوستان میں کا م کیا۔
دوسرا واقعہ
حضرت مربّی قاری فضل کریم صاحب (بانی وصدر مدرس مدرسہ تجوید القرآن لاہور) کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ فرمایا، جس کا مفہوم تھا کہ:” ہزارہ“ کی طرف توجہ کرو“۔ آپ نے حضرت سیٹھ محمد یوسف صاحب کو بلایا، انہوں نے بھی یہی مفہوم لیا، یہ اپریل ۱۹۵۵ء کی بات ہے، یہ حضرات اسی دن کچھ طلباء اور کچھ مدرّسین کو لے کر ایبٹ آباد کے لئے روانہ ہوئے۔ ان حضرات کی فکر اور لگن سے لاتعداد بڑے بڑے مدرسین تیار ہوئے، جو پورے سعودیہ اور دیگر ملکوں میں قرآن کی قابلِ قدر خدمت کررہے ہیں، اگر شریعت میں تجوید کی اہمیت نہ ہوتی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان حضرات کو متوجہ نہ فرماتے۔
حضرت قاری عبد اللہ مکی کا اندازِ تلاوت
آپ کا اندازِ تلاوت خاص قسم کا تھا، جس میں ترعید ،یعنی آواز کو نچانا اورتغنّی یعنی بلاوجہ غنّات کرنا اور تصنّع، یعنی پڑھنے میں تکلّف کرناوغیرہ، یہ بیماریاں نہیں تھیں اور عربی لہجوں کا ان چیزوں سے کوئی تعلق نہیں، ان کی اپنی شان ہے۔
حضرت قاری عبد اللہ مکی کے دوست کی ”جدہ“ میں دکان تھی، جب کبھی تشریف لے جاتے تو دوست کے اصرار پر تلاوت کرتے، ایک مرتبہ اسی دکان پر تلاوت کررہے تھے، تلاوت کیا تھی، جادو تھا کہ سننے والوں کا ہجوم تھا، ان میں ہندو بھی تھے، تلاوت ختم ہوئی تو ایک ہندو مجمع کو چیر تا ہوا آگے بڑھا اور قاری صاحب سے کہا: مجھے مسلمان کیجئے، وہ تلاوت کی برکت سے مسلمان ہوا اور ابدی عذاب سے بچ گیا، فللّٰہ الحمد۔
حضرت قاری عبد اللہ مکی باب العمرة میں نماز تراویح پڑھاتے تھے، شائقین کا ہجوم ہوتا تھا۔آپ کے پیچھے مکہ مکرمہ کے علماء کرام ،مدارس کے اساتذہ کرام ،قاری صاحبان اور سرکاری عہدہ داران، حتی کہ شریفِ مکہ، یعنی گورنر تک تراویح پڑھتے تھے۔ تجوید وہ جادو ہے جو سر چڑھ کربو لے۔
ایک وہ وقت تھا کہ قرآن غلط پڑھنے کی وجہ سے علماءِ ہند حقارت ونفرت کی نظر سے دیکھے جاتے تھے، جب قاری عبد اللہ مکی نے فنِ تجوید وقراأٰت میں امامت کا رتبہ پایا اور دن رات محنت کرکے ماحول بنایا تو مکہ مکرمہ کے شرفاء اور شائقین آپ ہی کے پیچھے تراویح پڑھتے، یہ شرف وکمال حضرت مولانا رحمت اللہ کیرانوی اور حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی کی فکر سلیم اور حضرت قاری عبد اللہ مکی کی شبانہ روز محنت اور دعاؤں کا غیر فانی نتیجہ ہے۔ رب کریم ان سب حضرات کو اپنا قرب اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام نصیب فرمائے۔ آمین یا ربّ الکریم!
بندہ راقم تقی نے اپنی شرعی ذمہ داری کی بناء پر یہ چند الفاظ قلم بند کئے ہیں، جس طرح بندہ کا مضمون ”اذان کی عظمت وشان مد کی درازی سے ہے“ نے انقلاب پیدا کیا اور مرکزی مقامات میں اذان سنّت کے مطابق دراز مد کے ساتھ ہونے لگی ہے، ایسے ہی اللہ کرے مدارس عربیہ میں تجوید وقراأٰت کا رواج ہوجائے ۔
اشاعت ۲۰۱۱ ماہنامہ بینات , شعبان المعظم:۱۴۳۲ھ -اگست: ۲۰۱۱ء, جلد 74, شمارہ 8

    پچھلا مضمون: اصلی وطن اور اس کی تیاری !
Flag Counter